Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 3, 2019

الیکشن جیتنے کے لئےگوڈسے کی اولادیں اور انگریزوں کے چیلے بار بار گاندھی جی کا قتل کر سکتے ہیں۔!


ازقلم/شکیل رشید / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سنگھی توہمیشہ سے انگریزوں کے پٹھوتھے۔
یہ چاہے جسقدر’قوم پرستی‘ اور’وطن پرستی‘کانعرہ لگائیں یہ نہ ہی توپہلے کبھی’قوم پرست ‘تھے اورنہ ہی یہ آج ’قوم پرست‘ہیں۔یہ ہمیشہ سے انگریزوں کے اشاروں پر ناچتے رہے ہیں اورآج بھی ناچ رہے ہیں۔انگریزتو چلے گئے ہیں لیکن اپنے پیچھے انہیں چھوڑگئے ہیں تاکہ ان کی ’تقسیم کرو اورراج کرو‘کی پالیسی پرعمل جاری رہے اورہندوستان پر جسمانی طورپربھلے ہی نہ سہی سنگھیوں اوریرقانیوں کے سہارےہی سہی،ان کاراج برقرار رہے۔انگریز،اس ملک میں تھے تومسلمان ہی ان کے سب سے بڑے مخالف تھے‘اس لیے وہ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے اورآج تک شاید وہ یہ فراموش نہیں کرسکےہیں کہ مسلمانوں کی قربانیوں اورآزادی کے لیے ان کی جدوجہدکےنتیجے ہی میں انہیں ہندوستان کوچھوڑناپڑاتھا۔آزادی کی تحریک وہ عظیم ترین تحریک تھی جس میں مسلمانو ں کے ساتھ اس ملک کے ہندو،عیسائی،سکھ ،دلت ،پچھڑے ،آدی واسی غرضیکہ ہر مذہب اورذات پات کے لوگ کھڑے تھے،سوائے سنگھی لیڈروں کے.....اورمسلمانوں کے ساتھ ملک کی آزادی کی جنگ میں جس ہستی کا چولی دامن کا ساتھ رہا،وہ باپو مہاتما گاندھی تھے،اسی لیے گذشتہ دنوں جب جسم سے ایک بے حد فربہ مگرذہن وعقل اوردل سے انتہائی مکروہ اورمتعصب عورت پوجاشکن پانڈے نے باپوکے پتلے پر گولیاں چلائیں اورباپو کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کویادکیاتوبہت زیادہ حیرت نہیں ہوئی،بلکہ یہ سوچ کر اطمینان ہوا کہ آج بھی اپنی موت کے اتنے برسوں کے بعدنحیف وناتواں باپوکے نظریات اس قد رتوانا ہیں کہ ملک کے دشمن ان کے نام اورکام سے،ان کی فکر اوران کے خیالات اورنظریات سےآج بھی کانپ جاتے ہیں۔اگران کابس چلے تووہ تاریخ کے صفحات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باپوکانام کھرچ ڈالیںلیکن یہ ان کے بس میں نہیں ہے۔آج بھی قوم باپو سے اسی قدرمحبت کرتی ہے جس قدرکہ ان کے قاتل ناتھورام گوڈسے اورگوڈسے کی اولادوں سے نفرت۔
یہ پوجا شکن پانڈے ہے کون؟
اس سوال کے جواب سے پہلے اس کے’جرم‘پرنظرڈال لیتے ہیں۔۳۱؍جنوری کا دن تھا‘مہاتماگاندھی کی شہادت کادن۔جب ساراملک غم والم میں ڈوبا ہواتھا اوردومنٹ کے لیے خاموش رہ کر باپو کوخراجِ عقیدت پیش کر رہاتھا تب اس عورت نے علی گڑھ کے نورنگ آبادعلاقے میں،اپنے مکان پر چندساتھیوں کوجمع کیا اورباپو کاایک پتلابنایا اورٹھیک گیارہ بجے ‘یعنی ٹھیک باپوکے قتل کے وقت ،پتلے پر باری باری تین گولیاںداغ دیں۔پتلے میں پلاسٹک میں لال رنگ بھرا ہواتھا‘وہ پلاسٹک پھٹ گیا اورلال رنگ بہہ نکلا،اس سے یہ تاثردیاگیا کہ باپو قتل ہوگئے ہیں اوران کے جسم سے لہوبہہ نکلاہے.....یہ شکن پانڈے آج فرار ہے۔یہ کل ہند ہندومہاسبھا کی خودساختہ قومی سیکریٹری ہے۔بتادیں کہ ناتھورام گوڈسے کاتعلق اسی ہندومہاسبھا سے تھا۔ شکن پانڈے نے گولیاں داغنے کے بعدگوڈسے کو’سنت‘کہہ کر’زندہ باد‘کے نعرے بھی لگائے۔یہ پوجا شکن پانڈے وہی عورت ہے جس نے ایک’ہندوعدالت‘کے قیام کااعلان کیاتھا۔اس کایہ کہناہے کہ جب’شریعہ عدالت‘ہو سکتی ہے توپھر’ہندوعدالت‘کیو ںنہیں ہوسکتی!یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گوڈسے کی پوجا کرتی ہے اورکئی با ریہ بیانات دے چکی ہے کہ’’ہاں مجھے فخرہے کہ ہم ناتھورام گوڈسے کو پوجتے ہیں،وہ گاندھی کے قاتل نہیں تھے،انہیں ہندوستانی آئین نافذ ہونے سے پہلے سزا دی گئی تھی۔‘‘یہ وہ عورت ہے جس نے کہاتھاکہ’’اگرناتھورام گوڈسے نے گاندھی کو نہیں مارا ہوتاتومیں مارتی اوراگرآج بھی کوئی گاندھی پیدا ہوگا جوملک کو تقسیم کرنے کی بات کرے گاتوپھر ناتھورام گوڈسے بھی پیدا ہوگا۔‘‘
پوجا شکن پانڈے کو’بٹوارے‘پربڑا غصہ ہے لیکن اس سے زیادہ غصہ باپوکے ذریعے پاکستان کوکروڑو ں روپئے دینے پرہے۔بتادیں کہ ہندومہاسبھا کی یہ سوچ تھی اورآج بھی ہے کہ باپو نے ملک کو’ہندوراشٹر‘بننے سے روکا تھااورپاکستان کومستحکم ہونے میں مدددی تھی۔یہ تنظیم،راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یعنی آرایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔باپوکے قتل کےپس پشت مقصدصرف نفرت کا اظہار ہی نہیں تھا بلکہ سارے ملک کو یہ پیغام دیناتھاکہ جو بھی’ہندوراشٹر‘کے قیام کے آڑے آئے گا اس کاحشرباپوجیسا ہی کیا جائے گا‘اور اس روزسے لےکرآج تک سنگھی‘سیکولرجمہوری ہندوستان میں گاندھی جی کے نظریات اوران نظریات پر عمل کرنے والوں کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔اس جنگ میں بی جے پی بھی شامل ہے۔لیکن بی جے پی کاذکرپھر‘ پہلے انگریزوں کے’چیلوں‘میں سے مزید ایک چیلے کاذکر ہوجائے۔
۳۱؍جنوری کوپوجاشکن پانڈے کی’بے شرمی‘سے کوئی ایک ہفتہ قبل بی جے پی سے جڑی ہوئی’ہندوسینا‘نام کی ‘آرایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم نے ملک کی راجدھانی یعنی بی جے پی کے دارالحکومت دہلی میں برطانیہ کی رانی ملکۂ وکٹوریا کی موت کی۱۱۸ویں برسی پر ایک تقریب کا انعقادکرکے ملکہ کی تصویر پرہاراورپھول چڑھائے۔ملکہ کی تصویرپرہارپھول چڑھانا توخیرکوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن انہیں’’ہندوستان کوآزادی دلانے والاپہلا سپاہی‘‘قراردیناضرور افسوسناک بلکہ’ملک دشمن‘اور’قوم دشمن‘ ہے۔’ہندوسینا‘کے بانی وشنوگپتادورکی کوڑی لائے ہیں،ان کایہ کہناہے کہ ملکہ وکٹوریہ اس لیے ملک کوآزادی دلانے والی پہلی سپاہی ہیں کہ انہوںملک کو’مغل سلطانوں‘کے ’چنگل‘سے آزاد کرایاہے!وشنوگپتا کے اپنے الفاظ میں’’ملکہ نے اوربرطانوی حکام نے ملک کو غیرملکی دہشت گردوں کے چنگل سے نکل کرہمیں پہلی آزادی دلائی،اس طرح انہو ں نے برسوں کے ظالمانہ اسلامی راج کاخاتمہ کیا‘یہ ایک طرح سے ہماری پہلی آزادی تھی۔‘‘وہ یہ قبول کرنے کو تیارنہیںہیں کہ برطانوی راج کامطلب’غلامی‘ہے۔یہ وہ تنظیم ہے جس نے ڈونلڈٹرمپ کی فتح کاجشن بھی منایاتھاکیونکہ اس تنظیم کی نظر میں ٹرمپ’مسلم دشمن‘ہیں۔
ایک قصہ مزیدسُنیے،یہ ’اکھل بھارتیہ ہندومہاسبھا‘کاقصہ ہے،وہی تنظیم پوجاشکن پانڈے جس کی قوم جنرل سکریٹری کہلاتی ہے۔اس تنظیم نے ’یوم جمہوریہ‘یعنی۲۶؍جنوری کے دن کو’سیاہ دن‘کے طورپرمنایا اوراس روز یہ قسم کھائی کہ ا س سیکولر جمہوری ہندوستان کو’ہندوراشٹر‘میں تبدیل کرکے رہیں گے۔’یوم جمہوریہ ‘کو’یوم سیاہ‘کے طورپرمنانے کوکیا’قوم پرستی‘’حب الوطنی‘کہاجاسکتاہے؟’یوم جمہوریہ‘پرجمہوریت اورملک کے آئین کی دھجیاں بکھیرنے والے پنڈت اشوک شرما،ہندوسیناکےنائب صدر،آج تک آزادگھوم رہے ہیں بلکہ ’ہندوسینا‘کے ان کارکنان کو‘جومیرٹھ کی سڑکو ں پر بائیک پر سوارہاتھوں میں کالے جھنڈے لےکرگھومے تھے’سپاہی ‘قرار دے رہے ہیں۔صرف پوجاشکن پانڈے ہی نے باپوکاقتل نہیں کیا‘ملکہ وکٹوریہ کوخراج عقید ت پیش کرنے والے بھی باپوکے قاتل ہیں کیونکہ باپوکی جنگ ملکہ ہی سے تھی‘یہ کہنے والے بھی کہ انگریزوں کے دورمیں ملک’غلام ‘نہیں تھا باپوکے قاتل ہیں کیونکہ باپوکی جنگ انگریزوں کی غلامی کے خلاف ہی تھی اوریوم جمہوریہ کو’یوم سیاہ‘کے طور پر منانے والے بھی باپو کے قاتل ہیں کیونکہ جمہوریت کاساراتصورگاندھی جی کے نظریات پرہی قائم ہے۔چونکہ بی جے پی کی ریاستی سرکاروں اورمرکزکی مودی سرکارکے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اس لیے یہ سارا بکھیڑا کھڑا کیا جارہاہے۔پوجاشکن پانڈے،پنڈت اورگپتا یہ سب کے سب آرایس ایس کی کٹھ پتلیاں ہیں،ان کے تارسیدھے بی جے پی سے جاملتے ہیں۔یہ سب اب اس لیے اکٹھے ہوکر گاندھی جی کے نظریات کے خلاف جنگ کو تیزکیے ہوئے ہیں تاکہ لوگوں کی نظریں بی جے پی کی ریاستی سرکاروں اورمودی سرکارکی’ناکامیوں‘پر سے ہٹ جائیں۔الیکشن کی آمد آمد ہے اورایسے میں جب کہ مودی سرکارکادامن’ترقی‘کے کاموں سے خالی ہے ‘ان کے وعدے بس معشوق کے وعدے ثابت ہوئے ہیں،ان کے دکھائے گئے سپنے جب ایک ایک کرکے ٹوٹ رہے ہیں تویہ ’فرقہ پرستی‘بالخصوص مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرستی ہی ہے جو انہیں لگتا ہے کہ ان کی نیاّپارلگاسکتی ہے۔اسی لیے گاندھی جی کاقتل ہورہاہے،مغل شہنشاہوں نے اس ملک کو جودیا ہے اسے نظرانداز کرکے برطانوی حکمرانوں کی پوجا کی جارہی اور’غلامی‘کوسراہا جارہاہے اور۲۶؍جنوری کو’یومِ سیاہ‘کے طورپر منایاجارہاہے۔
الیکشن آنے تک ایسے بہت سارے کھیل دکھائے جائیں گے۔مودی کی سرکارنےدوکھیل تودکھا ہی دئیے ہیں ،ایک ایودھیا کی بابری مسجدکے اطراف کی اضافی زمین سپریم کورٹ سےرام مندرکی تعمیر کے لیے مانگ لی ہے،دوسرے یہ کہ ’عبوری بجٹ‘کو ’مکمل بجٹ‘کی صورت میں پیش کیا ہے جوقانوناًدرست نہیں ہے۔ایک جانب رام مندرکاخواب دکھایا جارہاہے اوردوسری جانب بجٹ کے ذریعے خوشنما باغ دکھائے جارہے ہیں۔ پوجاشکن پانڈے آج فرارہے،ظاہرہے کہ یہ’فرقہ پرست‘بزدل ہوتے ہیں‘گاندھی جی توبہادرتھے کہ انگریزوں کی لاٹھیاں کھاکر بھی قدم جمائے رکھتے تھے،پریہ فرار نہ بھی ہوتی تواس کے خلاف کچھ نہ ہوتا۔گپتا اورپنڈت کے خلاف بھی کچھ نہیں ہوگا۔یوگی راج میں بلندشہرمیں ایک پولس افسرکاقاتل آج تک آزادہی ہے نہ!غنڈے پالے جارہے ہیں،بدمعاش پیدا کیے جارہے ہیں،کئی سنگھیو ںکے یہاں سے تلواریں اورآتشیں اسلحے برآمد ہو چکےہیں‘’ہندوراشٹر‘اور’رام مندر‘کے نام پر الیکشن جیتنے کے لیے ہرحد پار کی جاسکتی ہے۔گاندھی جی کاباربارقتل کیاجاسکتا ہے۔امریکی خفیہ ایجنسیوں نے انتباہ تودے ہی دیا ہے کہ مودی کے دورحکومت میں جوپالیسیاں بنیں انہوں نے فرقہ پرستی کوبڑھاوادیاہے اور’ہندوقوم پرست لیڈران‘(یعنی سنگھی ٹولہ)ہندوقوم پرستی(یعنی ہندوتوادی)کی تحریک چلاکرملک میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکاسکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ فسادات ہونگے تومسلمانوں کے ہی خلاف ہونگے.....لیکن خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے،بس احتیاط شرط ہے۔یہ سنگھی ،یہ یرقانی،یہ بھاجپائی بس آخری سانسیں گن رہے ہیں ان کاانجام لکھا جاچکاہے۔