Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, February 4, 2019

باپو!تیرے دیش میں !!!

اسجد عقابی کی قلم سے/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اہنسا کے پجاری اور امن و شانتی کے پیکر گاندھی جی کو 30 جنوری کو ہنسا وتشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا. تب سے آج تک اس یوم کو “شہید دوس” کے طور پر پورے ملک میں منایا جاتا ہے اور گاندھی جی کو ان کی عظیم قربانیوں کے بدلے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے.
گاندھی جی کو یقین نہیں تھا کہ خود ان کے ہی دیش میں ان کے اپنے لوگ انہیں ہنسا کا شکار بنا کر شہید کردیں گے. گاندھی جی نے تو اس دیش کو آزاد کرانے کیلئے اہنسا کا راستہ چنا تھا، وہ تو ان لوگوں کیلئے بھی پھول تھے جو ان کے راستے میں کانٹے بچھایا کرتے تھے. جنہوں نے پورے ملک پر قبضہ کرلیا تھا اور پورے ملک کی عوام کو ظلم و ستم کی کی چکی میں پیس رہے تھے، انہیں بھی گاندھی جی نے امن و سلامتی کا درس دیا تھا اور اہنسا کی تحریک چلا کر اس ملک کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا. جسے پورا ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا نے امن و شانتی کا دوسرا نام دیا تھا لیکن افسوس، امن کے اس رکھوالے کو نفرت کے رسیا اپنی راہ کا کانٹا اور اپنے عزم کا روڑا سمجھ بیٹھے اور انہیں شہید کردیا.
جہاں اس دیش میں گاندھی جی کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے والے لوگ ہیں وہیں نفرت کی پرستش کرنے والے افراد بھی موجود ہیں جو وقتا فوقتا اپنے کالے کرتوتوں سے ملک کا نام بدنام کرنے کے در پر لگے رہتے ہیں. ابھی گزشتہ روز جب پورا ملک بشمول وزیر اعظم کے گاندھی جی کی یاد میں “شہید دوس” منا رہے تھے اور انہیں خراج عقیدت پیش کررہے تھے، چند ہنسا کے پجاری علی گڑھ میں گاندھی جی کا پتلا بنا کر اس پر گولیاں برسا رہے تھے، اور انہوں نے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ گولیاں لگنے کے بعد خون بھی بہے. اس بات کو تاريخ یاد رکھے گی کہ ملک کے جس عظیم سپوت کو 1948 میں شہید کیا گیا تھا، 2018 میں اس کی شبیہ اور پُتلا بنا کر اسے دوبارہ شہید کرنے کا ناٹک کیا گیا تھا. ایک کمزور و نحیف بوڑھا شخص جو پوری زندگی دوسروں کیلئے بے ضرر رہا تھا، اسے کئی کئی بار شہید کیا گیا ہے.
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس سے قبل بھی ایسے کام انجام دیئے جاچکے ہیں. کچھ لوگ تو نفرت کے اس قدر خوگر ہوگئے کہ انہوں نے ایک قاتل اور ملک کے عظیم سپوت کو موت کی نیند سلانے والے کو اپنا ہیرو تسلیم کرلیا اور اس کے نام کی مالا جپنے لگے. انہوں نے ایک قاتل کو اپنا رول ماڈل بنایا اور خود اس کے نقش قدم پر چلنے کا عہد و پیمان کر بیٹھے. ایسے افراد سے امن و شانتی، اخوت و بھائی چارگی اور محبت کی کس طرح توقع کی جاسکتی ہے. یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیشہ سے ہی اس دنیا میں دونوں قسم کے افراد بستے رہے ہیں، محبت و نفرت کی اس جنگ میں جیت تو ہمیشہ محبت کی ہی ہوتی ہے لیکن عارضی طور پر کبھی کبھار ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ شر غالب آرہا ہے اور نفرت جیت گئی ہے. لیکن یہ عارضی جیت بھی بسا اوقات بڑے تباہی کا سبب بن جاتی ہے. اس کی زد میں آکر ہزاروں افراد سہارے سے محروم ہوجاتے ہیں. بچے یتیم ہوجاتے ہیں اور علاقوں کے علاقے نفرت کی آگ میں جھلس کر راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں. لیکن اس فتح و نصرت اور کامیابی میں چین و سکون نہیں ہوتا ہے، ایک بے چینی ہوتی ہے جو انسان کو اندر ہی اندر توڑ دیتی ہے. یہ کامیابی حقیقت میں ریگستان کا سراب ہے جو دیکھنے میں تو میٹھا پانی، فرحت بخش اور زندگی عطاء کرنے والا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ چلچلاتی اور تپتی ریت ہے جو انسان کو اپنے اندر دفن کرلیتی ہے. جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی ہے اور انسان اپنے انجام کو پہونچ جاتا ہے.
ہمارا یہ ملک بھی تقریبا اسی طرح کے حالات سے نبرد آزما ہے، نفرت کا زہر ماحول میں اس قدر گھول دیا گیا ہے جس سے بظاہر چھٹکارہ کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے. اب اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو خود کو امن کے پجاری کہلاتے ہیں. اُن صوفی سنتوں کی جماعت جس سے ملک پہچانا جاتا تھا، اور جو ہمیشہ محبت، اخوت و بھائی چارگی کا درس دیا کرتے تھے، جن کے آستانہ پر انسان کو چین و سکون میسر ہوا کرتا تھا، جن کی مجلسوں میں روحانی سکون حاصل ہوتا تھا اور وہ اپنے ماننے والوں کے ذریعہ پورے ملک کو اُس چمن کی مانند خوبصورت اور دلکش بنا کر رکھتے تھے جہاں مختلف انواع کے پھول اپنی بھینی بھینی خوشبو سے پورے ماحول کو زعفران زار کئے رہتے تھے. جہاں کا مہکتا ماحول پورے عالَم کیلئے امن کا پیغام ہوا کرتا تھا لیکن افسوس کہ اب وہ بھی اپنا درس بھول گئے، انہوں نے سوامی وویکانند، سنت کبیر اور گورکھ ناتھ کے پیغام محبت کو فراموش کردیا اور خود بھی اور اپنے پیرو کاروں کو بھی نفرت کا پاٹ پڑھانے بیٹھ گئے. جب امن کا درس دینے والے نفرت کی تعلیم دینے لگے، جب معصوم اور قوم کے چھوٹے چھوٹے نونہالوں کے کانوں میں نفرت بھری باتیں انڈیلی جائے. جب انہیں تعمیر کے بجائے تخریبی ذہنیت کا حامل انسان بنایا جائے. جب تعلیم کے نام پر غلط معلومات فراہم کی جائے. جب ان کے ذہن و دماغ کو مکمل طور پر سوچنے سمجھنے اور صحیح غلط کی تمیز کرنے سے عاری کردیا جائے تو ایسے میں گوڈسے کی ذہنیت ہی بیدار ہوگی، گاندھی جی کی اہنسا انہیں بُرے خواب کی مانند قابل نفرت محسوس ہوگی.
سیکولر برداران وطن اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ان کے ہی ہم مذہب باپو کے قاتل کو سمان دے رہے ہیں اور شہید دیوس کو باپو کی توہین کررہے ہیں. آخر یہ کون لوگ ہیں، کس مذہب کی بات کرنے والے لوگ ہیں، یہ تو رام کے پجاری نہیں ہے، رام تو امن کے داعی تھے، انہوں نے تو ظلم و ستم کی راہ نہیں دکھائی تھی پھر آج ان کے نام پر چند غلط ذہنیت کے افراد کیوں اس پورے ماحول کو پراگندہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں. کیوں ایسے افراد کو پابہ زنجیر کرکے سلاخوں کے پیچھے نہیں دھکیلا جاتا ہے اور انہیں عبرت ناک سزا کیوں نہیں دی جاتی ہے جس سے دوسرے بھی ایسا کام کرنے سے پرہیز کریں.
ایسے میں تمام برادران وطن کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان کے عمل پر شدید رد عمل کا اظہار کریں، کیونکہ ان کی آواز اَن سنی نہیں کی جائے گی ان نفرت کے سوداگروں پر لگام کسا جائے اور ملک کو ہنسا سے بچایا جاسکے اور جو نفرت بھری جارہی ہے اس نفرت کا خاتمہ ہو.