Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 14, 2019

سچے اور نیک لوگوں سے تعلق رکھئیے'،،،،،،،یوم جمعہ کو صدائے وقت پر " دینی صفحہ "

14/ فروری 8/ جمادی الثانیہ*
    یوم جمعہ     (دینی صفحہ)۔
تحریر/محمد قمر الزماں ندوی۔/ صدائے وقت۔
  . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
              *قرآن مجید* اور احادیث نبویہ میں نیک لوگوں اور اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کے ساتھ رہنے کی تاکید آئ ہے اور اس کا فائدہ اور ثمرہ بھی بتایا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے *یا ایھا اللذین آمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین*
اے ! ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو ۔
*نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم* نے فرمایا ۰۰ اچھے اور برے ساتھی کی مثال عطار اور بھٹی والے لوہار کی طرح ہے ۔ تم عطار کی صحبت سے بے فیض نہیں رہو گے یا تم اس سے عطر خریدو گے یا پھر تم کو خوشبو سونگھنے کو ملے گی، لوہار کی بھٹی تمہارے گھر اور کپڑے کو جلا دے گی یا پھر تم کو بھی بھٹی کی بری آواز برداشت کرنی پڑے گی ۰۰ ۔
        حافظ ابن حجر عسقلانی  نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ ۰۰ حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایسی مجلسوں میں انسان کو نہیں بیٹھنا چاہئے ،جہاں بیٹھنے سے دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو اور صرف ایسی محفلوں اور مجلسوں میں شریک اور حاضر ہونا چاہئے جن سے دین یا دنیا کی منفعت کی امید ہو ۔
(فتح الباری ۴/ ۴۰۷)  
*امام راغب اصفہانی * نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے ہے :
۰۰ *اللہ تعالی* کے نیک بندوں کی صحبت میں رہنا چاہیے، ان کی محفلوں میں شریک ہونا چاہئے، اس کے بے شمار فائدے ہیں، انسان تو ظاہر ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ،جانور بھی بزرگوں کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے اصحاب کہف کا کتا ان کی صحبت میں رہ کر ان کے قصہ کا جزء اور حصہ بن گیا اور قرآن کریم نے ۰۰ *اصحاب کہف* ۰۰ کے ساتھ ان کے کتے کا بھی ذکر کیا ہے ۔
*قران کریم* میں برسبیل خیر کسی کا تذکرہ یقینا بڑی عزت و شرف کی بات ہے، زمانہء ماضی بیتے ہوئے کسی واقعہ کو قرآن میں حصول عبرت کے لئے پیش کیا جاتا ہے ،نوجوان صلحاء جنھوں نے ایمان کی حفاظت کے لئے گھر بار چھوڑ دیا ،بلا شبہ تمام مسلمانوں کے لئے اس میں بڑی نصیحت اور عبرت ہے ،اسی لئے قرآن مجید میں ان افراد کا تذکرہ کیا گیا ہے مگر ساتھ میں کتا بھی تھا تو ان نیک لوگوں کے تذکرے کے ساتھ اس کتے کا بھی تذکرہ اگیا جو یقینا اس کتے کے لئے شرف کی بات ہے ،جب ایک کتا صلحاء اور اولیاء کی صحبت سے یہ مقام پاسکتا ہے تو ہم اور آپ قیاس کر لیں کہ مومنین و موحدین جو اولیاء ،اہل اللہ اور صالحین سے محبت رکھیں ان کا مقام کتنا بلند ہوگا ۔ 
علماء نے نوجوانوں کو خاص طور پر اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور برے لوگوں کی صحبت اور ہم نشینی سے دور رہنے کی تاکید کی ہے ، *حضرت علی رضی اللہ عنہ* فرماتے ہیں کہ گنہگار کی صحبت میں مت رہو ،کیوں کہ وہ اپنی بد عملی اور بے حیائ کو اچھا خیال کرتا ہے ،اس کی خواہش اور چاہت ہوتی ہے کہ دوسرا ساتھی بھی اسی کی طرح برا کام کرے ۔ (فیض القدیر ۳/ ۵۰۷/ بحوالہ امثال الحدیث صفحہ ۸۴)
اس حدیث سے سماجی پہلو پر خاص طور روشنی اور ہدایت  ملتی ہے کہ فرد کی تعمیر یا اس کے بگاڑ میں ماحول اور معاشرہ کا اہم اور بنیادی رول اور کردار ہوتا ہے ،اگر سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ زندگی کی اعلی قدروں اور خصوصیتوں کا حامل ہوتا ہے تو اچھے لوگ اور اچھے افراد وجود میں آتے ہیں ،جن سے قوم و ملت اور سماج و سوسائٹی کو فائدہ پہنچتا ہے اور انسانیت کی تعمیر و ترقی کی راہ پر فطری رفتار سے چلتی رہتی ہے لیکن اس کے برعکس برے ماحول اور برے سماج میں رہ کر انسان اپنی اعلی صلاحیتوں اور کارناموں سے محروم ہوجاتا ہے، گویا کہ انسانیت کی ترقی و فروغ اس کے بگڑنے اور بننے میں ماحول اور سوسائٹی و سماج زبردست رول اور کردار ادا کرتا ہے ۔
                *اس* حدیث میں *نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم* نے اسی بنیادی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر آدمی کو اچھی اور نیک صحبت اختیار کرنی چاہیے، بدخلق ،جفا کار بد دین ،فاسق و فاجر دروغ گو،اور خدا بیزار انسان سے رشتہ اور تعلق نہیں لگانا چاہیے اور اہسے لوگوں دوری ہی بنا کر رکھنا چاہیے،کیونکہ غلط صحبت  اور برے ہمنشیں انسان کی سیرت و کردار کو بگاڑ سکتے ہیں،  ہاں ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور اس سلسلہ میں جو راستے اور طریقے ہوں اس کو اختیار کرنے سے نہیں چوکنا نہیں چاہیے ۔
      *قرآن مجید* اس پہلو سے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے :
*ولا تطیع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا و اتبع ھواہ و کان امرہ فرطا*  (کہف ۲۸)
کسی ایسے شخص کی پیروی نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقہ کار افراط و تفریط پر مبنی ہو ۔
علماء نے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں *رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم* کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئ شخص جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش کا بندہ بن گیا ہے آپ ایسے شخص کی فکر مت کیجئے ۔
      اس کے برعکس *رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم* نے اہل اللہ اور علماء و صلحاء سے محبت رکھنے اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنے والوں کو کامیابی کی بشارت دی ہے *ھم القوم لا یشقی بھم جلوسھم* یعنی  یہ ایسے نیک اور مقبولان حق ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا محروم اور شقی نہیں رہ سکتا ۔
۔______________________
محمدقمرالزماں ندوی