Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 13, 2019

مولانا سلمان ندوی ،، عروج سے زوال تک کا سفر"


فضیل احمد ناصری / صدائے وقت
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . 
*لایعنی موضوعات پر بحثوں کا آغاز*

گزشتہ کچھ روز سے *دیوبند، ندوہ اور جماعت* چرچے میں ہیں اور ان موضوعات پر گرما گرم اور تیز و تند مباحثے کا دور جاری ہے ۔ مولانا واضح رشید ندوی صاحبؒ کے انتقال پر جناب سعد کاندھلوی صاحب تعزیت کے لیے ندوہ کیا پہونچے، ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ایک نئی اور نفرت انگیز بحث کا دروازہ کھل گیا۔ 6 فروری کو سعد صاحب ندوہ پہونچے۔ اہلِ ندوہ نے ان کا زور دار استقبال کیا۔ طلبہ اور علما ان کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ یہ ایک تعزیتی سفر تھا، سعد صاحب نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اس موقع پر ان کا بیان ہوگا، مگر بعض محبین کی خواہش پر ان کا بیان رکھوایا گیا۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی خاص بات نہ تھی، لیکن اگلے دن مولانا سلمان ندوی صاحب نے ویڈیو انٹرویو میں سعد کاندھلوی صاحب اور جماعت کے تئیں اپنا موقف رکھ دیا۔ یہی رویہ خطرناک بن گیا۔ ان کے حامیوں اور مخالفوں نے میدانِ کار زار گرم کر لیا۔ اپنی اپنی آستینیں چڑھا لیں۔ اپنے اپنے میزائل نصب کر لیے۔ اپنی اپنی تلواریں نیام سے باہر نکال لیں۔ پھر مبارزت کا جو سماں بندھا، اس نے تقدیس و تہذیب کی ساری حدیں توڑ ڈالیں۔ اس سہ رخی مقابلے نے ہزاروں شریفوں کو بے نقاب کر دیا۔ اچھے خاصے لوگ علما سے بد ظن ہو گئے۔ یہ سہ رخی مقابلہ آج بھی جاری ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کب تک جاری رہے گا۔

*فتوئ دارالعلوم کے تئیں مولانا ندوی کا موقف*

انٹرویو لینے والے نے مولانا ندوی سے کئی سوالات پوچھے تھے، ان میں سے ایک سوال جماعت، بالخصوص سعد صاحب سے متعلق تھا۔ اس سوال کو یا تو نظر انداز ہی کر دینا چاہیے تھا، یا جواب ضروری ہی تھا تو صرف دلائل کی روشنی میں اپنی رائے رکھتے اور قصہ ختم کر دیتے، مگر وہ زیادہ بول گئے اور اتنا زیادہ کہ دارالعلوم کو بھی گھسیٹ لائے۔ فرمانے لگے کہ سعد صاحب کے خلاف دارالعلوم کا فتویٰ ایک محدود حلقے کا فتویٰ ہے، یہ عام امت کا فتویٰ نہیں۔ نیز دارالعلوم عالمی ادارہ نہیں، اس کی رسائی اور حلقۂ اثر بس برِ صغیر تک ہے۔ ان کا یہی تبصرہ سنگین ہو گیا۔ بیان سوشل میڈیا میں آیا اور جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گیا۔

*سعد کاندھلوی صاحب کے نام مولانا کا مکتوب*

پھر اس جلتی آگ پر گھی ڈالنے کا کام ان کے خط نے کیا۔ یہ خط سعد کاندھلوی صاحب کے نام ہے اور نہایت خطرناک ۔ اس خط میں مولانا نے دارالعلوم کو پوری طرح ریمانڈ پر لیا ہے۔ وہ سعد صاحب سے کہہ رہے ہیں کہ: الیاسی تحریک تو عالمی ہے، پھر آپ دیوبند جیسے محدود ادارے سے خود کو کیوں باندھ رکھا ہے؟ وہ دعوت بھی دے رہے ہیں کہ آپ دیوبند کے فتوے سے ہرگز متاثر نہ ہوں، اور یہ حیرت انگیز مشورہ بھی کہ آپ ایک عالمی فقہی اکیڈمی بنالیں، جس میں عرب و عجم کے چند علما و فقہا آپ کے بیانات کا جائزہ لیں، گویا پوری دنیا کو دیوبند سے برگشتہ کرنے کا مشورہ۔اور گفتگو کا انداز یہ ہے کہ گویا ایک وزیرِ مملکت *حضرت عمر ابن عبدالعزیز* کو خط لکھ رہا ہے۔ مکتوب کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں:
*آپ کو بات اسلام کی، شریعت کی، کتاب و سنت کی اور اجماعِ امت کی کرنا ہے، دارالعلوم اور اس کا دارالافتا برِ صغیر کے ایک حلقہ کے لیے مرجع ہے۔ جماعتِ تبلیغ عالمی جماعت ہے، جس میں ہر ملک کے، ہر طبقہ کے، ہر مسلک کے لوگ ہیں، برِ صغیر کے ایک حلقہ کے علاوہ دیوبند کا فتویٰ کہیں نہیں چلتا۔ دیوبند نہ عرب ممالک کے لیے مرجع ہے، نہ ملیشیا و انڈونیشیا وغیرہ کے لیے، نہ یورپین اور افریقی ممالک کے تمام مسلمانوں کے لیے، آپ نے ایسی جماعت کے ذمہ دار ہوتے ہوئے اپنے کو دیوبند سے کیوں وابستہ کر رکھا ہے؟ نہ جماعت کی عالمیت کے لیے مناسب ہے، نہ امت کی مرجعیت کے لیے*

پھر آگے چل کر ایک مشورہ بھی دیا، یہ بھی انہیں کی زبانی سنیے: *میری آپ سے گزارش ہے کہ جیسے آپ کے مرکز میں مدرسہ کاشف العلوم ہے، ایسی ہی آپ ایک فقہی شوریٰ بنا لیں، جس میں ایک جید عالم حرمین شریفین سے، ایک عالم شام و اردن و فلسطین سے، ایک عالم یمن سے، ایک عالم مصر سے، ایک عالم انڈونیشیا و ملیشیا سے، اور تین برِ صغیر سے منتخب فرمالیں، یہ ایک مختصر سی عالمی فقہی اکیڈمی ہوگی، جو بیانات، خطابات، تصریحات و توضیحات کا جائزہ لیتی رہے گی اور شرعی رہ نمائی کا فریضہ انجام دے گی۔ تبلیغی جماعت کے لیے اب ایک مرجع فقہی کمیٹی یا فقہی شوریٰ کی ضرورت ہے، براہِ کرم اس پر توجہ دیں اور امت کی وحدت کی فکر کا خصوصی اہتمام کریں*

*مولانا ندوی صاحب کی عجلت بازی*

مجھے اس اعتراف میں کوئی جھجھک نہیں کہ مولانا ندوی زبردست علم کے حامل اور زبان و قلم کے بڑے شہ سوار ہیں۔ خطابت میں ان جیسے کم ہیں اور تحریر و صحافت میں بھی کم۔ وہ کئی اچھی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ خاندانی شرافت و وجاہت بھی انہیں ورثے میں ملی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ان کے ساتھ بڑے مسائل بھی ہیں۔ ان کے مزاج میں عجلت ہے۔ ان کا ذہن بہت جلد متاثر ہوتا اور الفاظ کے پیکر میں بجلی کی رفتار سے ڈھلتا ہے۔ گزشتہ تین چار برسوں سے ان کے فیصلوں میں یہ *استعجال* خوب نمایاں ہے۔ *ابوبکر البغدادی* کو *خلیفۃ اللہ* ماننا ہو، قرآنِ کریم کی ترتیب کا مسئلہ ہو، بابری مسجد کا لاینحل قضیہ ہو، مسلم پرسنل لا بورڈ کے خلاف ان کے اقدامات ہوں، حضرت معاویہؓ کی کردار کشی ہو، یا پھر حال کا مسئلہ *دیوبند* پر تبصرہ ہو، یہ سارے کے سارے اسی *استعجال* کے نتائج ہیں۔ ان کا یہ مزاج ملت کے لیے تو ہے ہی، خود ان کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ ایک وقت تھا کہ وہ ملتِ اسلامیہ کی آنکھوں کا تارا تھے، اب یہ دور ہے کہ تنازعات کی تصویر بن گئے۔ غیر ندوی حلقوں نے تو پہلے ہی انہیں مسترد کر دیا تھا، اب ندوی حلقوں میں بھی *اچھوت* بن کر رہ گئے، اور حالت یہ ہو گئی کہ:

پھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں

*بنگلہ دیشیوں کی ستم ظریفیاں*

جب آدمی کے برے دن چل رہے ہوں تو ہر قدم الٹا پڑتا ہے اور بنتی ہوئی بازیاں بگڑنے لگتی ہیں۔ مولانا ندوی کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے۔ آج کل ان کا ستارہ گردش میں ہے، اس لیے ان کے زبان و قلم اوٹ پٹانگ اگل رہے ہیں۔  اقبال مندی کا ان سے روٹھ جانا ان کے مسترد ہونے صورت میں سامنے آیا ہے۔ کئی پابندیوں سے پہلے ہی گزر رہے تھے، اب نئی نئی پابندیاں انہیں حصار میں لے رہی ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ بنگلہ دیشی مسلمان عقیدت پر آئیں تو آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے اور بات بگڑ جائے تو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ دیوبند اور علمائے دیوبند کے تئیں یہ لوگ کچھ زیادہ ہی پرجوش ہیں، اتنے پرجوش کہ *چائے سے زیادہ کیتلی ہی گرم* ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے، ادھر مولانا ندوی نے دارالعلوم کے خلاف رائے پیش کی اور ادھر ان کے داعیوں نے بنگلہ دیش میں ہونے والے ان کے سارے پروگرام منسوخ کر ڈالے۔ صرف منسوخ کر دیتے تو اتنی بڑی بے عزتی نہ تھی، مگر یہاں تو اس منسوخی کا سوشل میڈیا پر چرچا بھی کر دیا گیا۔ وہ بھی ان کی تصویر پر *مہرِ تنسیخ* لگا کر۔ ایسی رسوائی تو انہیں پہلے کبھی نہیں ملی ہوگی۔

*مولانا ندوی غلط راستے پر چل رہے ہیں*

مولانا ندوی کو اللہ نے جن صلاحیتوں سے نوازا تھا، اگر وہ ان سے مثبت کام کرتے تو اللہ ان سے بڑے اور پائیدار کام لیتا، مگر ان صلاحیتوں سے انہوں نے وہ کام کیے جن سے ملت کا شیرازہ بکھرتا جا رہا ہے۔ قرآن کو تختۂ مشق بنا کر انہوں نے کیا کیا گل نہیں کھلائے۔ دنیا بھر کے علما نے انہیں متوجہ کیا، پر وہ نہیں مانے اور اپنی راہ چلتے رہے۔ قرآن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ان کی گمراہی کا نقطۂ آغاز تھا۔ وقت جوں جوں آگے بڑھا، ان کی شذوذ پسندی عروج پاتی گئی۔ بابری مسجد پر ان کے بیانات اور اقدامات نے ان کی ساکھ ہی بگاڑ دی، رہی سہی کسر حضراتِ صحابہؓ کی شان میں گستاخی نے پوری کردی۔ اب وہ پوری طرح تنہا ہیں۔ ان کی مجلس درہم برہم ہو چکی ہے۔ ان کے دوست روٹھ چکے ہیں۔

*علیکم بالجماعۃ*

آگے بڑھنے سے پہلے سارے مسلمانوں کو یہ حدیث تو پڑھ ہی لینا چاہیے:  *علیکم بالجماعۃ وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد من أراد بحبوحة الجنة فيلزم الجماعة من سرته حسنته وساءته سيئته فذلكم المؤمن*
یہ حدیث ترمذی کی ہے، اس میں آپ نے فرمایا: جماعت کے ساتھ چلو اور فرقہ بندی سے بچو، کیوں کہ تنہا آدمی شیطان کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ اسے رحمتِ خداوندی سے دور کر دیتا ہے۔ جو شخص جنت کے وسط میں گھر چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ جماعت سے مل کر رہے۔

مولانا ندوی کے ساتھ پریشانی یہی ہے کہ وہ انفرادیت اور امتیاز کے سہارے جینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ جس نے بھی شذوذ اختیار کیا اسے امت کے ناجی طبقے نے مسترد کر دیا۔ اسلام نے تصلب کی تعلیم اسی لیے دی ہے تاکہ جماعت مضبوط ہو، اسلام میں بے بنیاد توسع کا کہیں کوئی گزر نہیں۔ بے جا توسع دین کی بنیاد کو گرا دیتا ہے۔ دیوبند آج تک مسلمانوں کی آبرو اسی وجہ سے ہے کہ اس نے تصلب کا دامن نہیں چھوڑا اور ندوہ اسی لیے یہ مقام نہ پا سکا، کیوں کہ اس میں بے جا توسع کو جگہ دے دی گئی۔

*توسع سے مداہنت آتی ہے*

دینی تصلب شریعت میں محمود بھی ہے اور مطلوب بھی۔ تصلب جہاں بھی ہوگا وہاں بے باکی بھی ہوگی،  اور جہاں توسع ہوگا وہاں خوف و دہشت سایہ فگن ہوں گے۔ یاد ہوگا کہ بانئ بریلویت احمد رضا خان نے سب سے پہلا حملہ ندوہ ہی پر کیا تھا۔ حتیٰ کہ ندوہ کے خلاف 100 سے زائد رسالے لکھے، جب ندوہ نے کوئی جواب نہیں دیا تو اس کا رخ دارالعلوم کی طرف ہوا، یہاں سے جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوا اور الحمدللہ آج تک جاری ہے۔ اسی تصلب نے غیرمقلدین کے خلاف دیوبند کو کھڑا کیا۔ مودودیت کے خلاف دیوبند کو کھڑا کیا۔ قادیانیت کے خلاف دیوبند کو کھڑا کیا۔ تا آں کہ الیاسی تحریک میں خرابیاں در آئیں تو یہی دیوبند پوری طاقت سے اٹھا۔ تصلب جرات اور اصلاحی اقدامات کا نام ہے اور توسع *صلحِ کل* سے عبارت ہے اور صلحِ کل سے اللہ کا عذاب آتا ہے۔

*سعد کاندھلوی صاحب کی من گھڑت تعبیرات*

افسوس کہ مولانا پر اسی صلحِ کل کا جادو چل رہا ہے اور یہی ان کی حق بیانی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہی سبب ہے کہ وہ سعد صاحب کے غلط افکار و نظریات کا رد نہ کر سکے، حالانکہ اہلِ نظر ہی کیا، کمزور صلاحیت کے حامل جدید و قدیم فضلا بھی جانتے ہیں کہ جناب سعد کاندھلوی صاحب کی تعبیرات و تمثیلات اور استنباط و تشریحات نے امت کو الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ مولانا الیاس کاندھلویؒ صاحب کی برپا کردہ جماعت اپنے ابتدائی دنوں میں بھی اجنبی تھی اور اب تو سعد صاحب کی قیادت نے اسے مزید اجنبی کر دیا ہے۔ آئے دن ان کے بیانات سے امت پریشان ہے۔ وہ الیاسی تحریک کو جس طرح عوام و خواص میں پیش کر رہے ہیں اس سے قرآن، حدیث، صحابہؓ، مقدس مقامات سب پر زد پڑ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک نیا دین اور نیا نظام پیش کر رہے ہیں۔ ان کے اس رویے نے جماعتی عوام کو غیر جماعتی علما سے کاٹ کر رکھ دیا ۔ ان کے اس انداز نے سب سے زیادہ جماعت کو نقصانات پہونچایا۔

*دارالعلوم کا تاریخی کارنامہ*

دارالعلوم *نہی عن المنکر* کا سب سے بڑا پاسبان ہے۔ اس نے ہر عہد میں اپنے اس فریضے سے کبھی اعراض نہیں کیا۔ جب اس کے پاس اہلِ حق کے متواتر فون آنے لگے۔ ہر دوسرے، تیسرے دن  خطوط پہونچنے لگے کہ سعد صاحب کے بیانات ایسے ایسے ہیں، کیا یہ درست ہیں؟ تو دارالعلوم اولاً تحقیقات میں پڑا اور سرِدست کوئی حکم لگانے سے اعراض کرتا رہا، وہ سمجھتا رہا کہ شاید اب اصلاح ہو جائے گی، اب سدھار ہو جائے گا، لیکن دہائیاں گزر گئیں، مگر اصلاح تو کجا، بات مزید بگڑتی گئی، اب مزید اعراض کرنا گناہ ہوتا۔ مجبور ہو کر دارالعلوم کو قلم دان سنبھالنا پڑا اور تمام اساتذہ کے اتفاقِ رائے سے اسے حکم سنانا پڑا۔ دارالعلوم نے صاف صاف کہا کہ سعد صاحب غلط رخ پر جا رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ جدید فرقے کی تشکیل چاہ رہے ہیں۔ ادھر یہ فیصلہ آنا تھا، ادھر وہ علما جو نظام الدین کے جماعتی مرکز میں تھے وہ بھی سعد صاحب کے افہام و تفہیم میں لگ گئے، مگر ہزار کوششوں کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے۔ بالآخر انہیں مرکز سے نکلنا پڑا ۔ اب عالم یہ ہے کہ جماعت امارت اور شوریٰ دو دھڑوں میں بٹ کر باہمی خوں ریزی کا شکار ہے۔ ایک دوسرے کی عزت اتارنا اب دونوں کا وظیفہ بن گیا۔ دونوں طرف سے آئے دن فتوے بازی بھی چل رہی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر دارالعلوم نے اپنے احاطے میں جماعتی سرگرمیوں پر پابندی لگادی۔ بلاشبہہ یہ دونوں اقدامات دارالعلوم کے تاریخی کارنامے ہیں۔

*یہ کوئی رجوع تھا ہی نہیں*

دارالعلوم کا موقف سامنے آنے کے بعد سعد کاندھلوی صاحب نے رجوع کا ایک سلسلہ شروع کیا اور کم و بیش چار رجوع نامے دارالعلوم کو پیش کیے، تاہم دارالعلوم ان کے ہر رجوع نامے سے غیر مطمئن رہا۔ دارالعلوم کا مطالبہ تھا کہ سارے متنازع بیانات مجمعِ عام میں ہوئے ہیں، لہذا رجوع بھی مجمعِ عام میں ہونا چاہیے، مگر دارالعلوم کا یہ مطالبہ آج تک پورا نہیں ہوا۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ سعد صاحب کا رجوع، در اصل رجوع تھا ہی نہیں۔ رجوع کا مطلب ہوتا ہے توبہ۔ اور توبہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ آئندہ قصداً کوئی گناہ نہیں ہوگا، لیکن سعد صاحب رجوع کے بعد بالکل بھی نہ رکے، بلکہ متنازع بیانات دیتے چلے گئے اور پوری بے باکی سے دیتے رہے۔ ایسا لگا گویا ان پر علوم کا القا ہو رہا ہے اور وہ نت نئے استنباطات پیش کر رہے ہیں، چناں چہ رجوع کے بعد 60 سے زیادہ متنازع بیانات ان کے ہو چکے ، جو رسالے کی شکل میں عام بھی ہو چکے ہیں، ان کی آڈیو بھی موجود ہیں۔

*دارالعلوم عالمی ادارہ ہے یا نہیں؟*

مولانا ندوی صاحب نے اس پہلو پر غور نہیں کیا اور سعد صاحب کی حمایت میں کچھ اتنے آگے بڑھے کہ دارالعلوم کے وقار کو ہی داؤ پر لگا بیٹھے۔ انہوں نے سعد صاحب سے کہا کہ دارالعلوم عالمی ادارہ نہیں، لہذا اس کے فتاویٰ کا تعلق عالم سے نہیں، بس ایک محدود حلقے اور چھوٹے سے طبقے سے ہے، پھر بھی آپ نے خود کو اس سے کیوں وابستہ کر رکھا ہے؟ حالانکہ پوری دنیا اس پر اعتماد کرتی ہے، اس کے فتاویٰ کو معمول بہ سمجھتی ہے، بقول مفکر اسلام مولانا علی میاں ندویؒ: *دیوبند کا فتویٰ پورے عالم میں سکۂ رائج الوقت کی طرح چلتا ہے*، لیکن نہ جانے کیوں مولانا سلمان ندوی اسے اہمیت ہی نہیں دیتے۔ اب تو انہوں نے دارالعلوم کی تقسیم بھی کر دی ہے۔ ان کے بقول: شیخ الہند کے دور کا دارالعلوم عالمی ضرور تھا، پر ان کے بعد کا دارالعلوم نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے نزدیک عالمیت کا معیار کیا ہے؟ اگر عالمیت کا معیار دنیا کا اس کی طرف رجوع ہے، تب تو دارالعلوم بلاشبہہ عالمی ادارہ ہے۔ اس کے فیض یافتگان پوری دنیا میں موجود ہیں، جو شہری بھی ہیں اور مہاجرین بھی۔ کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اس کے فرزند موجود نہ ہوں اور اپنی خدمات سے اسے فیض یاب نہ کر رہے ہوں۔ ایک وقت تھا کہ غیر ملکی طلبہ کی دارالعلوم میں بھیڑ رہتی تھی۔ سرحدی مشکلات نے رکاوٹیں کھڑی کیں تو بیرونی طلبہ کی آمد تقریباً بند ہو گئی، تاہم بعض ممالک کے طلبہ آج بھی موجود ہیں۔ پھر ائمۂ حرم کا دارالعلوم کو خراجِ تحسین اس پر مستزاد۔ اگر عالمیت کا معیار ان کے نزدیک یہ ہے کہ دارالعلوم کے وابستگان محدود تعداد میں ہیں، تو اس سے لازم آئے گا کہ احناف بھی عالمی جماعت نہیں، بلکہ دنیا کی کوئی بھی فقہی جماعت عالمی جماعت نہیں۔ خود ان کی تجویز کردہ *عالمی فقہی کمیٹی* بھی نہیں۔ اگر اسی پیمانے کو عالمیت کے ناپنے کے لیے استعمال کیا جائے تو علی سبیل الترقی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نعوذباللہ اسلام بھی عالمی مذہب نہیں، کیوں کہ دنیا میں کہیں بھی خلافت قائم نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تھیوری ہی غلط ہے، اور جب یہ تھیوری غلط ہے تو مولانا ندوی کس منہ سے اسے پیش کر سکتے ہیں؟

*فتویٰ کسی بھی دینی ادارے سے ہو، عالمی ہوتا ہے*

اہلِ علم جانتے ہیں کہ *فتویٰ* مفتی کی بات کا نام نہیں، یہ اصولِ اربعہ سے ماخوذ شرعی احکام ہوتے ہیں۔ مسئلہ کسی بھی موضوع پر ہو، مفتی کا کام یہ ہے کہ اس کا حل پہلے قرآن میں ڈھونڈے، وہاں نہ ملے تو احادیث کی طرف رجوع کرے، اگر یہاں بھی بات نہ بنے تو اجماع کی طرف جائے، اگر یہاں بھی سراغ نہ ملے تو قیاس آخری سہارا ہے۔ یہاں بھی مفتیوں سے کہا گیا ہے کہ قیاس درست ہو تبھی چلے گا، الل ٹپ قیاس ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔
اب مفتی صاحب فتویٰ دے رہے ہیں تو وہی بات کہہ رہے ہیں جو ان میں سے کہیں موجود ہے۔ فتویٰ مفتی کا اپنا  قول نہیں ہوتا، وہ شریعت ہی ہوتا ہے، اگر فتویٰ قیاس سے دیا جائے تو بھی وہ شریعت ہی ہے۔ اصولیین کا قاعدہ ہے: *القیاس مظہر لا مثبت*، قیاس پوشیدہ حکم کو ظاہر کر دیتا ہے، ثابت نہیں کرتا۔
جب شریعت آفاقی اور عالمی ہے تو فتویٰ خواہ کسی بھی ادارے کا ہو، عالمی ہوگا۔ اسے محدود سمجھنا، اس کا استخفاف کرنا، اسے نگاہِ حقارت سے دیکھنا کفر تک لے جانے والا ہے۔ رہا دارالعلوم کا فتویٰ، تو وہ وہی ہے، جو اصولِ اربعہ کہتے ہیں۔ اور اصولِ اربعہ عالمی ہیں، صرف ہندوستانی نہیں۔

*مولانا سے درخواست*

باتیں بہت سی ہیں، کہاں تک بیان کی جائیں۔ اخیر میں مولانا سے درخواست ہے کہ کرنے کے کام کریں، مسائل کی کوئی کمی نہیں۔ خدارا امت پر رحم کھائیں! یہ پہلے ہی انتشار در انتشار کا درد جھیل رہی ہے۔ اختلاف در اختلاف نے اسے پہلے ہی گرا دیا ہے۔ انفرادیت و شذوذ پسندی نے مذہب کو بدنام رکھ چھوڑا ہے۔ اب مزید یہ کام نہ کریں۔ آپ ایسے بیانات سے توبہ کرلیں جن سے امت خلفشار میں پڑ جائے۔ ان تحقیقات کو پیش نہ کریں جن سے زلزلہ برپا ہو جائے۔ ان آرا سے پرہیز کریں جو ملت کے لیے زہرِ ہلاہل ہوں۔ آپ اپنی ان کتابوں کو آگ لگا دیں جو جمہور کے خلاف ہیں۔ ان باتوں سے آپ کی عمر کی ساری کمائی، ساری آبرو، ساری کاوشیں بیک جنبشِ قلم ممنوع بن چکی ہیں۔ آپ کل بھی ہمارے تھے، آج بھی ہمارے ہیں اور کل بھی ہمارے رہیں گے۔ امید ہے کہ میری ان گزارشات کو دل سے قبول کریں گے اور اسلام کی مضبوطی کا ایک بڑا سہارا بنیں گے۔ وما توفیقی الا باللہ۔