Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 6, 2019

لوک سبھا الیکشن میں ایک متبادل عوامی انتخابی منشور کیساتھ میدان میں اتریں، پاپولر فرنٹ کی غیر بی جے پی پارٹیوں سے اپیل۔


نئی دہلی/5 فروری 2019/ پریس ریلیز/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پاس کردہ قرارداد میں تمام غیر بی جے پی اپوزیشن پارٹیوں سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی حکومت کے عوام مخالف، کارپوریٹ کے حامی اور فرقہ وارانہ ایجنڈے کے مقابلے میں ایک بہتر متبادل انتخابی منشور کے ساتھ عوام کے سامنے آئیں۔ اجلاس میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا کہ مشکلات سے گھرے عوام حکومت چلانے کے لیے نہ صرف پارٹی اور لیڈران بدلنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ ایک ایسے نئے ہندوستان کی تلاش میں ہیں جہاں تمام شہریوں اور طبقات کو انصاف اور امن کے ساتھ جینے کا موقع حاصل ہو۔
موجودہ وقت میں آزادی کے بعد ملک اب تک کی بدترین مرکزی حکومت کے سائے میں رہا ہے۔ مودی حکومت ہر پہلو سے ایک تباہ کن حکومت ثابت ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں پوری طرح سے ناکام رہی ہے، بلکہ ان کی زندگیوں بالخصوص اقلیتوں اور دلتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اسے ایک ناکام حکومت کہا جا سکتا ہے۔ ایسی واضح علامات موجود ہیں کہ ملک کی معیشت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ مخالفت کی ہر آواز کو انتہا درجے کے آمرانہ اور غیرجمہوری طریقوں سے دبایا جا رہا ہے۔یہ تمام حقائق آنے والے لوک سبھا انتخابات کو ملک کی تاریخ کے سب سے نازک موڑ پر لا کھڑ اکر دیتے ہیں۔ مذکورہ حالات نہ صرف موجودہ حکمراں جماعت بلکہ اپوزیشن جماعتوں سے بھی اس بات کا باریکی سے جائزہ لینے کا تقاضا کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے جمہوری فرائض کو کس خوبی سے انجام دیا ہے۔ بدقسمتی سے، محض کھوکھلے جملوں اور نِرے وعدوں کے سوا جیسا کہ بی جے پی نے ۲۰۱۴ کے الیکشن سے قبل کیا تھا، اپوزیشن پارٹیوں سے ہمیں کوئی بھی واضح اور قابل عمل انتخابی منشور نہیں ملا ہے جو بی جے پی کی امیروں کی حامی، عوام مخالف اور فرقہ وارانہ سیاست کا متبادل بن سکتا ہو۔ سماج کے کمزور اور غریب طبقات ایک متبادل سیاست کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ بی جے پی کے ماتحت ہندوستان سے بی جے پی کے بعد کا ہندوستان کتنا مختلف ہونے والا ہے۔
جب ہم کانگریس کا ماضی دیکھتے ہیں تو وہ بھی کئی معاملوں میں بی جے پی کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ کانگریس کے دورِ حکومت میں بھی فرقہ پرست افراد کو مختلف مواقع پر عام معافی دے دی گئی۔ بابری مسجد کے انہدام سے لے کر متعدد مسلم مخالف فسادات تک نہ جانے کتنے حملے کانگریس حکومت میں ہی واقع ہوئے۔ یو اے پی اے اور افسپا جیسے بیشتر کالے قوانین اور این آئی اے جیسی انسدادی ایجنسیوں کی بنیاد کانگریس نے ہی ڈالی تھی۔ اگر کانگریس حکومت نے اپنی نوآزاد خیال پالیسیوں کے ذریعہ بڑے کاروباریوں کے لیے ملک کے دروازے کھولے تھے، تو آج بی جے پی اسی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ جب بی جے پی نے ہندوستان میں مثبت کاروائی کی بنیادوں کو تباہ کرتے ہوئے جنرل طبقے کے لیے معاشی بنیاد پر دس فیصد رزرویشن کا قانون پیش کیا، تو تقریباً تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں نے بشمول لیفٹ اور علاقائی پارٹیوں کے اس کی حمایت میں ریلیاں کی۔ اگر کانگریس اور دیگر پارٹیاں اپنی پالیسیوں میں بغیر کوئی بنیادی تبدیلی لائے صرف حکومت بدلنا چاہتی ہیں، تو وہ اتنا بھی اخلاقی حق نہیں رکھتیں کہ وہ خود کو بی جے پی کے متبادل کے طور پر پیش کریں۔ اس طرح سے وہ کبھی بھی ملک کو ایک بار پھر فسطائی ہاتھوں میں جانے سے نہیں روک سکیں گی اور نہ ہی ملک کے عوام کی معیشت اور زندگیوں کو بہتر بنا سکیں گی۔ اجلاس نے بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو چھوڑ کر تمام اپوزیشن جماعتوں سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ ایک ایسا واضح اور جامع انتخابی منشور لے کر آئیں جو عام لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کی ضمانت دیتا ہو اور تمام مظلوم طبقات اور اقلیتی اقوام کو یکساں انصاف اور تحفظ دینے کو یقینی بناتا ہو۔
اجودھیہ زمین کا حصول:
مرکزی حکومت کی عرضی رام مندر تعمیر کی خفیہ چال
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی این ای سی میں پاس کردہ ایک دوسری قرارداد میں یہ کہا گیا کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ سپریم کورٹ میں دی گئی عرضی جس میں بابری مسجد کی زمین سے متصل اضافی زمین کو چھوڑنے کی درخواست کی گئی ہے، وہ شہید بابری مسجد کے مقام کے اطراف میں رام مندر کی تعمیر شروع کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ۶؍دسمبر ۱۹۲۲ کو بابری مسجد انہدام کے بعد، سپریم کورٹ نے ساری زمین کو قبضے میں لے لیا تھا تاکہ جب تک زمین کی ملکیت کے مقدمے میں کورٹ کوئی حتمی فیصلہ نہ سنا دے، وہاں کسی بھی غیرقانونی تعمیر کو روکا جا سکے۔ حکمراں بی جے پی پر انتخابی مجبوریوں کے علاوہ، اور کوئی دوسری ناگہانی صورت نہیں ہے کہ’ اجودھیہ میں مخصوص علاقے کا حصول ایکٹ۔۱۹۹۳‘ کے تحت حاصل شدہ زمین کی بحالی کا مطالبہ کیا جائے۔ یہ کام صرف اس طویل تنازعہ کے عدالتی حل کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ اجلاس نے عداتِ عظمیٰ سے یہ اپیل کی کہ وہ لوک سبھا الیکشن کے موقع پر دی گئی حکومت کی اس سیاسی عرضی کو مسترد کرے اور حقِ ملکیت کے اس معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ آنے تک موجودہ حالت (اسٹیٹس کو) کو برقرار رکھے۔
مرکزی بجٹ محض ایک دھوکہ اور بکواس
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی مجلس عاملہ کے اجلاس نے کہا کہ پارلیمنٹ میں پیش کردہ بجٹ میں کیے گئے بڑے بڑے وعدے محض باتیں اور دھوکہ ہیں کیونکہ مودی حکومت اگلے چار مہینوں میں ختم ہونے والی ہے۔ یہ مزیّن وعدوں کا سیلاب بی جے پی خیمے میں مچی ہلچل کا صاف پتہ دے رہا ہے کہ انہیں آنے والے لوک سبھا انتخابات میں عوام سے کس ردّعمل کی امید ہے۔پاپولر فرنٹ عوام سے مودی حکومت کی ناکام کارکردگی کو دیکھتے ہوئے حکمراں بی جے پی کی انتخابی چالوں کو رد کرنے کی اپیل کرتی ہے۔
سیمی پر تجدیدِ پابندی غیرمنصفانہ اور غیرجمہوری
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی این ای سی نے مشاہدہ کیا کہ اسٹوڈینٹس اسلامک مومینٹ آف انڈیا پر پابندی کی تجدید غیرمنصفانہ ، غیرجمہوری اور سیاسی انتقام کا اعادہ ہے۔ سیمی پر سال ۲۰۰۱ میں اس وقت کی بی جے پی حکومت کے ذریعہ پابندی عائد کی گئی تھی اور اس پابندی کی مدت میں بعد میں آنے والی تمام حکومتوں کے ذریعہ سات بار توسیع کی گئی۔پابندی کے وقت تنظیم کے خلاف دہشت گردی کے الزام کا کوئی مقدمہ نہیں تھا۔ سیمی کے جن ممبران پر بعد میں مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے ان میں سے اکثر بری کر دیے گئے۔ مزیدبراں مالیگاؤں، اجمیر اور مکہ مسجد جیسے کئی بم دھماکہ معاملوں میں جن کا الزام پہلے سیمی ممبران پر ڈالا گیا، بعد میں وہ سب ہندوتوا جماعتوں کی کارستانیوں کے طور پر سامنے آئے۔لیکن کسی بھی حکومت نے ان ہندوتوا تنظیموں پر پابندی عائد نہیں کی۔ اس کے علاوہ سیمی پر پابندی کو گذشتہ مرتبہ بڑھائے جانے کے بعد پچھلے پانچ سالوں میں کوئی بھی دہشت گردانہ واقعہ سیمی کی طرف منسوب نہیں کیا گیا ہے۔ اجلاس نے سول سوسائٹی کو سیمی پر پابندی کے اس غیرمنصفانہ اور غیرجمہوری سلسلے کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کی دعوت دی۔
شہریت ترمیمی بل کے خلاف بیداری مہم
اجلاس نے لوک سبھا میں پاس کردہ شہریت ترمیمی بل میں موجود جمہوری و آئینی خلاف ورزیوں کے خلاف ہندوستان بھر میں بیداری مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس بل میں صرف مسلمانوں کو ہی چند مخصوص پڑوسی ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے شہریت کے حصول کے دائرے سے الگ رکھا گیا ہے۔ یہ بل آئینِ ہند کے بنیادی تصور کو جس میں مذہب کی بنیا دپر ہر طرح کے امتیاز کو نامنظور قرار دیا گیا ہے، تباہ کرنے کی کھلی کوشش ہے۔ مہم کے تحت ملک بھر میں پوسٹر، پمفلیٹ، عوامی پروگرام اور مظاہرے وغیرہ جیسے مختلف پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔ اجلاس نے تمام غیربی جے پی پارٹیوں سے مختلف علاقوں کی مذہبی، لسانی و ثقافتی اقلیتوں کی جانب سے بل کے خلاف ہونے والی مہمات و احتجاجات میں پیش پیش رہنے کی اپیل کی۔
چیئرمین ای ابوبکر نے اجلاس کی صدارت کی۔ نائب چیئرمین او ایم اے سلام، جنرل سکریٹری ایم محمد علی جناح، سکریٹری عبدالواحد سیٹھ اور انیس احمد کے علاوہ قومی مجلس عاملہ کے دیگر ارکان اجلاس میں شریک رہے۔

ایم محمد علی جناح
جنرل سکریٹری، پاپولر فرنٹ آف انڈیا،
نئی دہلی