Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, February 8, 2019

موبائل گیمس و دیگر اپلیکیشنز اور مسلم نوجوانوں کے بڑھتے رحجانات۔


محمد سالم سریانوی۔/صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اس وقت دنیا روز افزوں اور ترقی پذیر ہے، روزانہ نت نئی چیزیں متعارف ہورہی ہیں، اور ہر فرد ان کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کررہا ہے، ان نئی چیزوں میں بطور خاص موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کا استعمال ہے، جو حالیہ چند برسوں میں اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ پہلے اس کا تصور نا ممکن معلوم ہوتا تھا، اور آج کل موبائل وکمپیوٹر پر ایسی چیزوں کی بہتات ہو رہی کہ پوری دنیا بالخصوص مسلم قوم اس میں محو ہوکر اپنے فرض منصبی سے غافل ہورہی ہے، حالاں کہ انسانوں کی تخلیق با مقصد ہوئی ہے، جس کو خود اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بڑی صاف اور وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے۔ ارشاد باری ہے: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ } [سورۃ الذاریات:۵۶] ’’اور میں نے جنات اور انسان کو محض اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
آج کل موبائل وکمپیوٹر پر گیمز کھیلنے کا ایک جنون ہے، مسلم طبقہ اس میں آخری حد تک مگن ہے، اسے نہ ہی دنیا کی فکر ہورہی ہے اور نہ ہی آخرت کے بارے میں سوچ رہا ہے، حالاں کہ ان گیموں میں صرف تضییع اوقات ہی کا مسئلہ نہیں ہے؛ بل کہ بہت سے ایسے گیمز پائے جارہے ہیں جن میں فحاشی وعریانیت کے ساتھ اسلام مخالف چیزیں بھی شامل کی گئیں ہیں، جس میں نوجوان مشغول ہوکر اسلام مخالف سازشوں میں بالواسطہ شریک ہورہے ہیں، جو کہ بذات خود بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے علاوہ انٹر نیٹ پر بہت سے ایسے ’’اپلیکیشنز‘‘ بنائے گئے ہیں، جن میں سوائے عریانیت، فحاشی اور بے حیائی کے کچھ بھی نہیں پایا جاتا اور ان میں ہمارا قیمتی اثاثہ دن رات لگا ہوا ہے، اسی طرح آج کل انٹر نیٹ کی سہولت اور غیروں کی کوششوں سے ایک رجحان یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مال کمانے کے لیے محنت نہ کرنا پڑے اور بغیر محنت کے ہی ہم پیسے کما لیں، چناں چہ اس کے لیے ’’یوٹیوب‘‘ وغیرہ کا استعمال بالکل عام سی بات ہوتی جارہی ہے، اس پر ویڈیوز کا اپلوڈ کرنا روزانہ کا مشغلہ بنتا جارہا ہے، اور آدمی محنت سے جی چراکر صرف انھیں کے ذریعہ مال کمانے میں لگ رہا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان چیزوں کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے، اور مسلم قوم کو یہ یاد دلایا جائے کہ اس کی زندگی عام مخلوقات کی طرح آزاد وخود مختار نہیں ہے؛ بل کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں خدائے واحد کے احکام اور جناب نبی کریم ﷺ کی سنت اور طریقے کا پابند ہے، اسی نظریہ سے یہ تحریر پیش کی جارہی ہے، امید کہ قارئین مقصد پر نظر رکھتے ہوئے تحریر کو پڑھیں گے اور اس سے فائدہ اٹھانے، نیز دوسروں کو نفع پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ واللہ الموفق

تخلیق انسانی کا مقصد اور حقیقی صورت حال:
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اللہ رب العزت نے انسان اور جنات کو اپنی عبادت وطاعت کے مقصد سے پیدا کیا ہے، جس زمانہ میں قرآن کریم کا نزول ہورہا تھا اس وقت ایک بڑا طبقہ ایسا تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ ہماری پیدائش کا کوئی مقصد نہیں ہے، بل کہ یوں ہی ہم کو پیدا کردیا گیا ہے، اسی لیے ان کا یہ نظریہ تھا ہماری زندگی صرف یہی دنیوی زندگی ہے، اس کے علاوہ اور اس کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے، اللہ رب العزت نے قرآن میں کئی مقامات پر ان کے اس باطل نظریے کی تردید کی ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ مقصد تخلیق کو ذکر فرمایا ہے۔ ایک موقع پر ارشاد ہے: {اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْن}[سورۃ المؤمنون:۱۱۵] ’’بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو یونہی بے مقصد پیدا کردیا ہے اور تم کو واپس ہمارے پاس لایا نہیں جایا گیا؟‘‘ ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے: {وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْن}[سورۃ الجاثیۃ:۲۴] ’’اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کچھ زندگی ہے بس یہی ہماری زندگی ہے، (اسی میں) ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں کوئی اور نہیں زمانہ ہی ہلاک کردیتا ہے، حالاں کہ اس بات کا انھیں کچھ بھی علم نہیں ہے، بس وہمی اندازے لگاتے ہیں‘‘۔ (توضیح القرآن)
مقصد تخلیق ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ } [سورۃ الذاریات:۵۶] ’’اور میں نے جنات اور انسان کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
اس کے علاوہ احادیث کا ایک حصہ ایسا ہے جس میں عام انسانوں کو مقصد کے مطابق زندگی گزارنے اور غیر ضروری ولا یعنی مشاغل سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور مختلف احادیث میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ صحت وجوانی بیش بہا انعام وعطیہ ہے، اس کی قدر کرنا ضروری ہے، ورنہ اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا، بل کہ یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان سے اس کے اعمال وزندگی کا حساب لیا جائے گا اور حساب وکتاب کے بغیر وہاں سے ہٹنا نا ممکن ہوگا، حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: {لا تزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یسئل عن عمرہ فیم أفناہ، وعن علمہ فیم فعل، وعن مالہ من أین اکتسبہ وفیم أنفقہ، وعن جسمہ فیم أبلاہ؟} [رواہ الترمذي :۳۹۶، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب في القیامۃ، رقم الحدیث:۲۴۱۷، بیت الأفکار الدولیۃ، الریاض] ’’کہ قیامت کے دن کسی بھی بندے کے قدم اس وقت تک ہٹ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے اس کی عمر کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے کہ عمر کہاں خرچ کی؟ علم کے بارے میں کہ اس میں کیا کیا؟ مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور جسم کے بارے میں اس کو کہاں ختم کیا؟‘‘
اسی طرح ایک روایت میں پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھنا ارشاد فرمایا گیا ہے، جس میں جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجگی سے پہلے، فارغ البالی کو مشغولی سے پہلے اور زندگی کو موت سے غنیمت سمجھنا ذکر کیا گیا۔ (الترغیب والترہیب للحافظ المنذري)
اسی کے ساتھ لایعنی اور غیر ضروری مشاغل ترک کرکے ایسے کاموں میں اپنے کو لگانا جو سود مند اور نفع بخش ہوں اس کی ترغیب دی گئی ہے، بل کہ ایک مسلمان کے اسلام کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ لایعنی چیزوں کو چھوڑ دے۔ نفع بخش چیزوں کو حاصل کرنے کے بارے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: {احرص علی ماینفعک} [رواہ مسلم] ’’ کہ ان چیزوں کی حرص کرو جو تم کو نفع دے‘‘۔ لایعنی چھوڑنے کے تعلق سے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: {من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ} [رواہ الترمذي] ’’کہ کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور غیر ضروری چیزوں کو چھوڑ دے‘‘۔
  یہ نمونے کے طور پر چند آیات اور احادیث ذکر کردی گئی ہیں، جن سے زندگی کی قیمت اور مقصد کھل کر سامنے آجاتا ہے، اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آدمی کی زندگی بہت ہی زیادہ قیمتی ہے، یہی وہ اثاثہ ہے جو اس کو دنیا میں کامیابی وسرخروئی سے ہم کنار کرتا اور آخرت میں بھی کامیابی وکامرانی اسی کے صحیح استعمال سے ہوسکتی ہے، لیکن آج اس کے برعکس جس طرح مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی زندگی ضائع وبرباد ہوررہی ہے وہ نہایت ہی تشویش ناک ہے، عام طبقہ ایسی فضول اور غیر ضروری چیزوں میں مشغول ہے کہ اس کا بے کار ہونا دوپہر کے سورج کی طرح معلوم ہے، لیکن پھر بھی نوجوانوں کو اس کا احساس نہیں ہورہا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ اپنی چند روزہ زندگی کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہماری زندگی بامقصد گزر رہی ہے، یا یونہی بے کار اور ضائع ہورہی ہے، اگر ابھی ہم نے حساب لے لیا اور اصلاح کرلی تو ان شاء اللہ کامیابی ملے گی ورنہ سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ ،

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں۔
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔

(تحریر 2/ جمادی الثانیہ 1440ھ مطابق 8/ فروری 2019ء ۔