Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 10, 2019

ندوة العلماء کے ناظم اعلیٰ مولانا رابع حسنی ندوی کے نام " کھلا خط"۔

مراسلہ نگار/ اسماعیل کرخی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
محترم و مکرم جناب مولانا محمد رابع الحسنی صاحب دامت برکاتھم العالی
                    ناظم دارالعلوم ندوة العلماءلکھنؤ

     السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

جناب عالی!
             فدوی نے اپنی زندگی کا ایک مختصر سا حصہ اُسی گلستاں کی خوشگوار فضاؤں اور پر لطف بہاروں میں بسر کیا ہے جس گلستاں کو حضرت مولانا علی منگیری، علامہ شبلی نعمانی ، علامہ سید سلیمان ندوی، اور مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمھم اللہ اجمعین نے اپنا خونِ جگر دیا، اور سارے عالم کو اس گلستاں کے پھولوں سے سجا دیا، خارزاروں اور بنجر زمینوں تک کو جس گلستاں کے پھولوں نے کبھی متأثر کیا اور  امتِ مسلمہ کے گلشنِ آشوب اور خوفِ خزاں سے سہمے ہوے زرد پتوں میں نئی روح پھونک دی، آج اُسی گلستاں کے آپ شجر سایہ دار بلکہ باغباں ہیں، امتِ مسلماں پر آپکا سایہ خدا کی رحمت ہے، لیکن یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے دار العلوم ندوة العلماء اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے، اور عوام دار العلوم سے بدظن ہوتے جارہے ہیں اُسکی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں سے کچھ کا تعلق انتظامی و اہتمامی امور سے اور کچھ کا تعلمی سرگرمیوں اور نصابِ تعلیم کی جمودگی سے.، میرے خیال سے تعلیمی امور پر غور کرنے کے لئے بہت سے قابل افراد ندوہ میں موجود ہیں لیکن اس مرتبہ معتمد تعلیمات کا جو عہدہ بانٹا گیا اُس سے یہی محسوس ہورہا ہے کہ اب یہ سارے عہدے دیگر اداروں کی طرح اعزازی عہدوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں، بہر حال انتظامی امور کے سلسلہ میں آنجناب سے مؤدبانہ التماس ہے کہ براہِ مہربانی درج ذیل باتوں  پر توجہ فرمائیں.

۱) گزشتہ کئی مہینوں بلکہ سالوں سے تبلیغی جماعت کو لیکر جو ہنگامہ ندوہ میں برپا ہے اُس پر پابندی لگائی جاے، مولانا محبوب نے مفتی زید صاحب سے جو بدتمیزی کی وہ اپنی جگہ کشمیری مہمانوں کو دہشتگرد کہہ کر بھگا دیا گیا، اور حیرت ہے کہیہ عظیم غلطی صرف غلط فہمی قرار پائی، جبکہ یہ سوچی سمجھی سازش تھی، آنجناب سے مودبانہ التماس ہے کہ اس حرکت پر کاروائی کریں.
۲) سوال یہ ہے کہ اب ندوہ کیا ہے؟ تحریک صرف تعلیمی ادارہ؟ اگر تحریک ہے تو کافی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس تحریک میں خاندانیت اور رشتہ داریوں کے ساتھ ساتھ دیگر خرابیاں تو ہیں ہی لیکن کسی قسم کی نمو نہیں، اور اگر ادارہ ہے تو اسکا مرجع کیا ہے؟ اگر خذ ما صفا و دع ما کدر ہے تو اب اس پر عمل کیوں نہیں، ایک خاص مکتبہ فکر کی چھاپ اور ایک مخصوص تحریک کے ایک گروہ کی کھلی تائید کیونکر کی جارہی ہے؟ سوال اس لئے کہ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ندوہ کیا ہے؟ اگر تمام مسلک و مکتبہ فکر کو ساتھ لیکر چلنے کا دعوی ہے تو عمل اس کے برعکس کیوں؟

۳) دار العلوم کی سالانہ سرگرمیوں کی کوئی فہرست نہیں، جبکہ بڑے یا چھوٹے اداروں کا سالانہ ٹائم ٹیبل ہوتا ہے، چنانچہ کوئی سالانہ منصوبہ بندی اور ٹائم ٹیبل نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ مستقل پریشان رہتے ہیں، خاص طور پر چھوٹیوں کے اعلانات میں اسقدر دیری کی جاتی ہے گویا چند لوگ چاے پر اکٹھے ہوے اور رخصت، حالانکہ ندوہ ایک عالمی ادارہ ہے، جس میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے طلبہ تشریف لاتے ہیں، نیز خود ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک کے تمام صوبوں سے طلبہ تشریف لاتے ہیں، لیکن امتحانات سے دو ماہ قبل چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہے، جس سے طلبہ کو (بالخصوص اپریل،  مئ، جون اور جولائی) کے مہینوں میں ٹکٹ نکالنے میں سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شکایت کرنے پر طلبہ کو جواب ملتا ہے کہ چھوٹیوں کی جلدی ہوتو ندوہ نہ آئیں! ظاہر ہے یہ جواب نہایت ہی سطحی اور غیر ذمہ دارانہ ہے.
۴) مطبخ کے سطحی نظام پر بلا تبصرہ ایک بات عرض کرنی ہے کہ اُس پر توجہ دی جائے، نیز سب سے اہم بات یہ کہ بھٹکلی طلبہ کا اپنا الگ معیاری مطبخ اور ڈائنئنگ ہال نے طلبہ کو شدید ذہنی الجھنوں کا شکار بنا رکھا ہے،،.. کیا قدیم ندوہ اس علاقائیت اور اسطرح کے غیر ذمہ دارانہ طریقوں کو برداشت کرسکتا تھا؟ طلبہ روزانہ اُنکے بچے ہوئے کھانے دیکھتے ہیں، جو سلیمانیہ ہاسٹل کے پیچھے پھینکا جاتا ہے، اور کڑھتے ہیں، کیا یہ چیز خطرہ کا باعث نہیں؟ کہ طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاے اور وہ اسٹرائیک پر مجبور ہوں، یا کوئی فسادِ عظیم برپا کریں؟ یاد رہے طلبہ کی ایک بڑی جماعت موجود ہے جو اس عمل کی سختی سے مذمت کرتی ہے، اور عوام بھی اس عمل کو قبول نہیں کرسکتے، کیا ندوہ نے ہر موقعہ پر علاقائیت کی نفی نہیں کی؟ پھر کیوں آج ندوہ بھٹکلی طلبہ کو بہت سی خصوصیات دیئے ہوے ہے.؟ اُنکے لئے نگراں حضرات کیوں اتنا نرم گوشہ رکھتے ہیں؟ کیوں ہاسٹلوں میں اُن کے کمرے خاص ہیں؟ سلیمانیہ، اطہر، اور ابو الحسن ہاسٹولوں میں متعدد کمرے اُنکے نام کس نے آلاٹ کئے جبکہ دیگر علاقے کے طلبہ کو کسی صورت ایک ہی جگہ نہیں رکھا جاتا تاکہ علاقائیت پنپنے نہ پاے لیکن حیرت ہے کہ ایک علاقے کی علاقائیت کو فروغ دیا جارہا ہے؟ نیز یہ کہ چھٹیوں کے بعد تاخیر سے پہنچنے پر تمام صوبوں کے طلبہ یومیہ ۱۰۰ روپئے کے حساب سے جرمانہ ادا کرتے ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ بھٹکلی طلبہ کی اکثریت ایک ہی درخواست پر بلا جرمانہ اپنے نام بحال کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے؟ کیا آپ اس بات سے ناواقف ہیں کہ ندوہ میں بہت سے طلبہ صرف اپنی ذاتی پہچان کی بنا پر مواخذہ سے بچ جاتے ہیں؟ نگراں حضرات کی ہمت کیوں نہیں ہوتی کہ بھٹکلی طلبہ کی غلطیوں کی خبر لیں؟ جبکہ دیگر صوبوں کے طلبہ کا چھوٹی چھوٹی سی بات پر اخراج کردیا جاتا ہے؟ نیز یہ کے گیٹ پر جب مکمل پابندی عائد ہوتی ہے، تو بھٹکلی طلبہ کو کیوں نہیں روکا جاتا؟ اُنکے موبائیل ضبط کرنے کی نگراں حضرات میں الا ماشاء اللہ کیوں ہمت پیدا نہیں ہوتی؟
۵) داخلہ کا سطحی طریقہ کار، جو جدید نافع قدیم صالح کا ٹھٹھا کرتا نظر آتاہے، نیز شعبہء مالیات میں فیس کی وصولیابی میں نہایت سست اور غیر مشاق لوگوں کا انتخاب، جس سے طلبہ کا تعلمی حرج ہوتا ہے، اور درخواست جمع کرانے کے عجیب و غریب اوقات کی تعین جس میں طلبہ درجہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں؟
۶)نگراں حضرات کا باوجود طلبہ کی مجبوری جانتے ہوئے بھی درخواست کی تصدیق نہ کرنا، اور مزید یہ کہ تصدیق شدہ درخواست کا دفتر اہتمام سے رد کردیا جانا کہاں تک درست ہے؟ اگر نگراں حضرات کو تصدیق اور سفارش کا حق ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں؟
۷) سینکڑوں واقعات ایسے پیش آچکے ہیں جن میں طلبہ کی سخت علالت کے باوجود رخصت منظور نہیں کی جاتی، یا بڑے بڑے معیاری ہسپتالوں کی تصدیق رد کردی جاتی ہے، جس میں ممبئ کا جے جے، کیم اور لکھنؤ کے بلرام پور اور ٹراما سینٹر، جیسے بڑے بڑے شہروں کے معیاری سرکاری ہسپتال شامل ہیں، لیکن ان جیسے ہسپتالوں کے تصدیق ناموں کو قبول نہ کرنا کہاں کا اصول ہے؟ کیا یہ عمل خود مدرسہ کو اپنے اصولوں سے نہیں ہٹا رہا؟
۸)نام کے موقوف پر نہ سہی، لیکن اخراج کے لئے مکمل اصول کیوں مرتب نہیں کئے جاتے؟؟ یہ معاملہ اس طرح کیوں ہے کہ طلبہ اخراج کو موت سمجھنے لگے ہیں کہ کبھی بھی آسکتی ہے؟
۹) جب ندوہ میں دار الاقامہ کی کمی ہے تو بلا ضرورت کیوں امت کے اتنے بڑے طبقہ کا داخلہ لیا جاتا ہے کہ اُنہیں قیامِ شہر رہنے پر مجبور ہونا پڑے؟ اور ایک ایک کمرے میں ۹ سے ۱۰ طلبہ رکھیں جائیں؟ یقیناً اسکا انکار کوئی باشعور انسان نہیں کرسکتا کہ اس طرح کی بھیڑ اکٹھی کرنے سے تعلیمی معیار گر تو سکتا ہے لیکن بلند نہیں ہوسکتا؟ ہر سال طلبہ کی تعداد میں اضافہ کیا اس لئے کیا جاتا ہے کہ دوسرے اداروں کا مقابلہ کیا جاے؟
۱۰) خصوصی میں آئے طلبہ پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، نتیجتاً وہ طبقہ جو کالج و یونیورسٹیوں میں رہ کر بہت کچھ کرسکتا تھا ضائع ہوجاتا ہے، جبکہ شاخ سے آئے ہوے طلبہ فارغت تک درست عبارت بھی نہیں پڑھ سکتے؟
۱۱) داخلہ کے وقت کیا کوئی معیار متعین کیا گیا ہے کہ انہیں طلبہ کو داخلہ دیا جاے گا جو معیار پر پورے اتریں گے؟ نیز شخصیی سفارشات کو قبول کرنا ندوہ نے کب سے سیکھ لیا؟
۱۲) مہمان خانے کس لئے بنائے گئے ہیں؟ طلبہ جب بھی اپنے کسی مہمان کے لئے درخواست دیتے ہیں تو اکثر منظور نہیں ہوتی، یا منظور ہونے کے بعد جناب مصباح کمرہ دینے سے انکار فرمادیتے ہیں؟ کیا مصباح صاحب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں اجازت دیں جسے چاہیں منظوری کے بعد بھی رخصت فرما دیں یا دیشت گرد کہہ کر چلتا کردیں؟ نیز گزشتہ کئی سالوں سے مہمانوں کی بالکل عزت نہیں کی جاتی، گزشتہ سال کشمیری مہمانوں کا واقع نا قابلِ فرموش تھا ہی اس تو اُس سے برا معاملہ ہوا.
یہ اور ان جیسے دیگر امور پر توجہ دینا بے حد ضروری ہے، ورنہ ندوہ بھی ایک خانہ پوری کا نام بن کر رہ جاے گا، مکمن ہے فدوی کا اسلوب نہایت ہی سطحی ہو لیکن اگر غور کیا جاے تو ان میں بہت سی چیزیں قابلِ اصلاح ہیں، براہ مہربانی ان باتوں کی طرف توجہ فرمائیں قبل اس کے کہ ندوہ اپنی سانسوں کا سلسلہ منقطع کردے.

والسلام
اسماعیل کرخی

(اس خط کو پہلے خاص حلقوں میں شائع کیا گیا تھا، یقین دہانی کے بعد بھی کاروائی نہیں ہوئی لہذا اب عمومی سطح پر اسے شائع کیا جارہا ہے)