Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 13, 2019

پارلیمانی۔انتخابات کو لیکر ایک تجزیاتی تحریر۔

تحریر/ ڈاکٹر حسن رضا۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
پارلیمانی انتخاب کی تیاری اب بالکل آخری مرحلے میں ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ رن چھتر تیار ہوگیا ہے اور صف آرائی  فیصلہ کن مرحلے میں  داخل ہوچکی ہے جیسے ہی مارچ میں الیکشن کمیشن بگل بجائے گا انتخابی معرکے دست بدست شروع ہوجائں گے پھر آیندہ پانچ برسوں کے لئے ہندوستان کے تخت وتاج کا فیصلہ ہوجائے گا.
غور سے دیکھا جائے تو چار امکانات ہیں ایک یہ کہ این ڈی اے کی تعداد تو کم ہو لیکن معمولی اکثریت سے وہی پھر حکومت  تشکیل دینے کی پوزیشن میں آجائے دوسرے یہ کہ کانگریسی اپنے گٹھ بندھن کی ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائں . تیسری شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سیکولر علاقائی پارٹیوں کی تعداد اتنی ہو کہ پرایم منسٹر آن میں ہو اور کانگریس ان کو تعاون دے. چوتھی شکل یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی تعاون دے اور علاقائی پارٹیوں کا پرائم منسٹر ہو جیسے وی پی سنگھ کی سرکار تھی
ہندوستان کے پارلیمانی انتخابات میں یہ چاروں مرحلے آچکے ہیں . تجربے تو اور بھی ہیں بہر حال کسی نازک مرحلے میں  صدر جمہوریہ کا رول بھی بہت اہم ہو گا . ملک وملت کو ان تمام امکانات اور نتایج کے لئے تیار رہنا چاہئے. اس کی ایک شکل یہ ہے کہ ریاستی اور علاقائی سطح پر سول سوسائٹی کی فلاح وترقی حقوق انسانی کے تحفظ اور سوشل جسٹس کے لیے کام کرنے والے گروہوں اداروں اور انجمنوں کا حصہ بنیں یعنی ان کے ساتھ ہم اپنے اصولوں اور ترجیحات کی روشنی میں بھر پور طریقے سے حصہ لیں. ابھی ہونیوالے الکشنی دنگل میں بھی علیحدہ ڈفلی نہ بجائیں بلکہ عام مقامی آبادی اور انجمنوں کے ساتھ مل کر طیے کریں کہ ہمارے حلقہ انتخاب میں کون ہمارے ووٹ کا اصل مستحق ہے اور وہاں پر ہم کیا ریزلٹ چاہتے ہیں. بعض لوگ کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کو زیادہ فعال اور نمایاں رول ادا نہیں کرنا چاہیے. یہ ایک بہت بڑی سیاسی بھول ہوگی. میں کہتا ہوں کہ ہر چھتر، علاقےاور حلقے میں ذہین، اچھے  محنتی اور با کردار نوجوانوں کو ایک تازہ حوصلے کے ساتھ ملک، ملت اور انسانیت کی خدمت کے لئے اس وقت سیاست کی خار زار وادی میں کودنا چاہیے تاکہ اس تاریخی اور نازک موقع پر مسلم نوجوان اپنا صحیح رول ہندوستان کی تاریخ پر ثبت کرسکیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ ہندو کمیونلزم کو جوابی مسلم کمیونلزم سے شکست نہیں دیا جا سکتا ہے. اس کا  اصل توڑ انصاف اور حقوق انسانی کی کشمکش میں شرکت ہے فاشزم کے خلاف لڑائی کا اصل ہتھیار جمہوری اقدار کا شعور اور فروغِ ہے. اصل مسئلہ سیاسی زبان  بیان اسلوب جمہوری ٹولس اور ایشوز کی ترجیحات کا ہے. افسوس ملت آپنے نوجوانوں کی سیاسی تربیت اس پہلو سے نہیں کر پارہی ہے. مزہبی حلقے. سیاسی جماعتیں اور سماجی ونیم سیاسی انجمنیں بس جوڑ توڑ اور اقتدار کی گلی کے ارد گرد کبھی اندر باہر چکر لگانے میں زیادہ دلچسپی لیتی رہتی ہیں. عام ہندوستانی عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر گلی کوچے اور بازار میں جو کشمکش برپا ہے ان میں شریک نہیں ہوتیں ہیں. یہی اصل ہماری اجتماعی کمزوری ہے. جسے دور ہونا چاہئے
( حسن رضا)