Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, February 5, 2019

سی بی آئی کی مغربی بنگال میں کارکردگی خود سی بی آئی کی حقیقت کا انکشاف ثابت ہوئی۔


٦/فروری/٢٠١٩/صداۓقت/ محمد خالد۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
گزشتہ تین فروری سے میڈیا میں کولکتہ پولیس کمشنر کے یہاں سی بی آئی کا چھاپہ زیر بحث ہے اور ملک کے ہر حصے میں لوگ اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرہ کر رہے ہیں، بڑی حیرت کی بات ہے جس سی بی آئی کو آج تک مرکزی حکومت کے ذریعے حزب اختلاف کی صوبائی حکومتوں کی نکیل کسنے کا آلہ کار بتایا جاتا رہا ہے، آج وہی سی بی آئی اپنی حیثیت کو کھوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.
مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر بدعنوانی کے الزامات ہمیشہ سے لگتے رہے ہیں اور صوبائی حکومتیں اس سے انکار کرتی رہی ہیں جس کے نتیجے میں مرکزی حکومت صوبائی حکومت کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹ کھٹاتی رہی ہے، مگر مرکزی حکومت کے عمل کو اکثر شک کی نظر سے ہی دیکھا گیا ہے اور متعلقہ حکومتوں، عوام اور عدالتوں نے اس طرح کی کارروائی پر بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے جس کی بہترین مثال سپریم کورٹ کا سی بی آئی کو "پنجرہ میں بند طوطا" کا خطاب دینا ہے.
سی بی آئی کے طریقہ کار اور کارکردگی پر تو سوال اٹھتے رہے ہیں مگر یہ پہلا موقع ہے کہ جب سی بی آئی کے وجود پر بحث کی جا رہی ہے. جس ادارے کا نام ہی دہشت کی علامت تھا آج بتایا جا رہا ہے کہ اس کی اپنی کوئی دستوری اور قانونی حیثیت ہی نہیں ہے.
ملک آزاد ہونے سے پہلے 1946 میں حکومت نے اپنے خصوصی اختیارات سے دہلی پولیس اسپیشل ایکٹ بنایا تھا جس کی بنیاد پر 1963 میں یکم اپریل کو سی بی آئی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے لئے نہ تو پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی اور نہ ہی صدر جمہوریہ کی اجازت حاصل کی گئی تھی ( شاید اس وجہ سے بھی یکم اپریل کو لوگوں کو بیوقوف بنانے کا دن کہا جاتا ہے)
ملک کے دستور کے مطابق نظم و نسق کے معاملات کا اختیار صرف صوبائی حکومت کو حاصل ہے، اگر کوئی صوبائی حکومت کسی مسئلے کے حل کے لئے مرکزی حکومت سے تعاون حاصل کرنا چاہے تو ہی مرکزی حکومت صوبے کے نظم و نسق کے معاملات میں دخل دے سکتی ہے، جیسا کہ کسی صوبہ میں ہنگامی حالات پر قابو پانے کے لئے مرکزی پولیس فورس کو تعینات کیا جانا.
سی بی آئی پر اٹھنے والے سوالات نے ملک کے بہت سے معاملات پر سوال کھڑے کر دئے ہیں لہٰذا ضرورت ہے کہ حکومت کے ذریعے ملک کے دستور کی تفہیم کے لئے باقاعدہ نظم بنایا جائے تاکہ ذمہ داران حکومت اور عوام کو اپنے ملک کے دستور سے واقفیت حاصل ہو سکے.
حکومت کے ذریعے ایک پورٹل شروع کیا جائے جس میں مدت کے تعین کے ساتھ دستور کے ایک ایک حصہ کو وضاحت کے ساتھ پیش کر کے عوام سے سوال حاصل کئے جائیں اور اس مدت کے ختم ہونے پر ایک ساتھ سبھی سوالات کا جواب دیا جائے اور پھر اگلے حصے کو پیش کر کے اس سلسلے کو اختتام تک پہنچایا جائے.
اپنا ملک ایک جمہوری ملک ہے جہاں حکومت کے ذمہ داران کے ساتھ ہی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے معاملات سے واقف ہو سکیں لہٰذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو دستور کے مطابق حق شہریت فراہم کرے.