Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 17, 2019

نسل آدم کا خون ہے آخر ؟

   تحریر /عاصم طاہر اعظمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
جموں کشمیر کی بیس سالہ تاریخ میں اب تک کے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملے کو لے کر پورے ملک میں غم و غصے کا ماحول ہے ملک کے کونے کونے سے سخت سے سخت الفاظ میں مذمت ہو رہی ہے ملک بھر سے سیاسی قدآور رہنماؤں کے مذمتی پیغامات نشر ہورہے ہیں تو وہیں اس ملک کے ادنیٰ شہری میں بھی بیچینی دیکھی جارہی ہے بندہ بھی اس حملے کی مذمت کرتا ہے ملک بھر میں بہت ساری جگہوں پر تعزیتی پروگرام کے ساتھ ساتھ کینڈل مارچ بھی نکالے گئے ہیں، پلوامہ حملے کے بعد چھڑنے والی اس لفظی جنگ میں کئی سوشل میڈیا صارفین نے حملے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا ہے، ملک کے وزیراعظم نریندر مودی جی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں عوام کا غصہ جائز ہے خون کی ہر بوند کا بدلہ لیا جائے گا تو وہیں پر وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی کہا ہے کہ ہم 44 کی جگہ چار سو لیں گے لیکن کیا یہ بیان ہمشہ کی طرح جملے بازی ہے یا پھر حقیقت یہ تو آنے والا وقت بتائے گا،
*خون  اپنا ہو یا پرایا  ہو*
*نسلِ آدم کا خون ہے آخر*
*جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں*
*امنِ عالم کا  خون ہے  آخر*
اس شعر سے مشہور شاعر عبدالحئ معروف ساحر لدھیانوی نے قتل و غارت گری کے نقصانات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے جب قتل و خون ہوتا ہے کسی انسان کا خون بہتا ہے آدمیوں کا قتل ہوتا ہے حملے میں مرنے والے کسی خاص ملک کا باشندہ تو کھ سکتے ہیں جس ملک میں جنگ نہیں ہورہی ہے وہاں کے باشندے خود کو یہ کھ کر اطمینان دلا سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کا آدمی نہیں مرا، مگر جو بھی مرا وہ آدم کی اولاد ہے اور تمام دنیا نسل آدم ہے تو خون چاہے کسی کا بھی بہے ہم سب کا نقصان ہے حملے چاہے کہیں بھی ہوں مگر اسی زمین پر ہی ہورہے ہیں جس میں ہم سانس لے رہے ہیں اس کا امن ع سکون غارت ہورہا ہے اس لیے اس کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، حملے سرحد پر ہوں یا ملک کے اندر مگر اس کے نقصانات اس قدر ہوتے ہیں کہ جو تعمیر و ترقی کے کام انسانوں نے برسوں کیے ہیں وہ پل بھر میں نیست و نابود ہوجاتے ہیں