Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 10, 2019

کیا کانگریس واقعی مسلمانوں کی ہمدرد ہے !


تحریر/شکیل رشید/ صدائے وقت
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مسلمان خوداسے اپنا سب سے بڑا مسئلہ بھلے نہ سمجھیں پرکانگریس اوربی جے پی کو توایسا ہی لگ رہاہے۔اسی لیے جہاں ایک جانب کانگریس یہ اعلان کرتی پھر رہی ہے کہ اگروہ الیکشن جیتی توطلاق ثلاثہ کا قانون ختم کردے گی‘وہیں دوسری جانب بی جے پی کی یہ پوری کوشش ہے کہ طلاق ثلاثہ کے نام پرہندوؤں کو ورغلائے اوریہ تاثر دے کہ مسلمانوں میں اس قدر مذہبی شدت پسندی ہے کہ وہ اپنی عورتوں کوکھڑے کھڑے طلاق دے کرگھر سے بھگادیتے ہیں کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ غالب آجائیں!یہ مسلمانوںکے غالب آنے کاڈر،ملک کو اسلامی ریاست میں ڈھالنے کاپروپیگنڈہ اورآبادی میں اس قدراضافے کاگپ،کہ ہندوآبادی آٹے میں نمک کے برابر ہو جائے ،بی جے پی اینڈکمپنی کے لیے ترپ کاپتہ ہے۔اس کا کئی بار’کامیاب‘استعما ل کیا جاچکاہے۔یہ ساری بیان بازیاں اورسرگرمیاں دراصل اپنے اپنے ووٹ بینکوں کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے......اوریقین رکھیئے 2019 كے لوک سبھا الیکشن کے قریب آتے آتے اس میں اضافہ ہی ہوگا‘سیکولر سیاسی پارٹیوں اوربی جے پی اینڈکمپنی دونوں ہی طرف سے مذہب کے نام پر سیاست کو خوب گرمانے کی کوشش کی جائے گی‘اوراس کا مقصدصرف یہ ہوگا کہ اگرکسی کا ووٹ بینک کسی اورکی طرف کھسک گیا ہوتوواپس ڈھرےپرآجائے۔انہیں یعنی سیاست دانوں کو کوئی پروا ہےاورنہ فکر اورنہ ہوگی کہ سیاست میں مذہب کے استعمال کے نتائج خوفناک بھی ہو سکتے ہیں۔فرقہ وارانہ تشددکی شکل بھی لے سکتے ہیں۔امریکہ کی خفیہ ایجنسی کا پہلے ہی سے انتباہ ہے کہ اگرمرکز کی مودی سرکار کی طرف سے’قوم پرستی کےموضوعات پر زوردیاگیا ‘یاباالفاظ دیگر اگرمودی سرکارنے ’دھارمک وچاروں کو دوسرو ں پر تھوپنے کی کوشش کی توالیکشن سے پہلے ہندوستان خوفناک فسادات کی زد میں آجائے گا‘امریکہ کی نیشنل انٹلی جنس کے ڈائرکٹر ڈان کوٹس نے یہ بات ہوا میں نہیں کہی،انہوں نے امریکی سینٹ کے ممبران کی’سلیکٹ کمیٹی‘کے سامنے یہ بات  کہی۔ان کے پاس اپنے’انتباہ‘کے لیے شہادتیں موجودتھیں‘انہوں نے مودی سرکارمیں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں پولس کے متعصبانہ رویےّ پرروشنی ڈالی‘مآب لنچنگ کی وارداتوں کو اجاگرکیا اوربی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بی جے پی کے ’قوم پرست قائدین‘یعنی ’ہندوتوادیوں‘کی ان سرگرمیوں پر روشنی ڈالی جوان کے بقول ہندوستانی مسلمانوں کو احساس تنہائی میں مبتلا کر سکتی ہیں۔اس میٹنگ میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ڈائرکٹر جیناہاسپل بھی موجودتھیں‘جوکچھ پہلے ہی ہندوستان آئی تھیں۔حالانکہ امریکی خفیہ ایجنسی کے ڈائرکٹر کے انتباہ کے پسِ پشت ہندوستانی اقلیتوں یا مسلمانوں کی کوئی محبت شامل نہیں تھیں نہ ایسا تھاکہ وہ فسادات کی صورت میں جانی اورمالی نقصانات پر متفکر تھے،بلکہ انہیں تو بس یہ ثابت کرناتھاکہ اگرہندوستانی مسلمان’احساسِ تنہائی‘کاشکارہوگئے توہندوستان میں’اسلامی دہشت گرد تنظیموں کو بڑھاوا مل سکتا ہے۔‘اوریہ امریکہ نہیں چاہتا‘لیکن ایک انتباہ تواس نے بہرحال دیا ہی ہے کہ 2019 كی لوک سبھاالیکشن سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات ہو سکتے ہیں.....اوراب یہی بات این سی پی کے ایک سینئرقائد جھگن بھجبل نے بھی کہی ہے۔بھجبل نے امراوتی میں ایک عوامی جلسے میں کہاہے کہ یہ بہت ممکن ہے کہ لوک سبھا الیکشن سے قبل بھیانک قسم کے فسادات ہوں۔انہوں نے بھی بی جے پی کی مرکزی اورریاستی سرکاروں پر ہی انگلی اٹھائی ہے۔ان کاکہناتھاکہ چونکہ بی جے پی نے کوئی ڈیولپمنٹ کاکام نہیں کیا ہے اس لیے وہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے ہندوؤں اورمسلمانوں کےدرمیان فرقہ وارانہ نفرت پھیلا رہی ہے،ملک میں لاء اینڈآرڈر کی صورتحال ابترہے،گئو کشی کے نام پر ماحول کو کشیدہ کیا جارہاہے،آئین میں تبدیلی کا خطرہ ہے،ذات پات کا کھیل شروع ہے،رام مندرکے نام پر بی جے پی لوگوںکو بے وقوف بنارہی ہے،وزیر اعظم پہلے چائے بیچتے تھے اب ملک کو بیچنا چاہتے ہیں،حالات خراب ہیں ملک میں بھیانک فسادات ہو سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگرواقعی ملک میں خوفناک قسم کے فسادات کاخطرہ ہےتو سیکولر سیاست داں اسے روکنے کے لیے کیا کر رہےہیں؟کانگریس کے صدرراہل گاندھی کا’رافل سودے‘کے معاملے میں وزیر اعظم نریندرمودی اوران کی سرکارکو نشانہ بناناتوسمجھ میں آتا ہے لیکن ’طلاق ثلاثہ ‘کوایک مسئلے کے طور پر پیش کرناسمجھ میں نہیں آتا۔یہ توایک ایسے موقعے پر جب مودی کی سرکارپر رافل معالے میں چاروں طرف سے شکنجہ تنگ ہو رہا ہے،اس کے ہاتھ میں ایک ایسا موضوع تھما دینا ہے جس کولےکر وہ بڑی کامیابی سے یہ ڈھول پیٹ سکتی ہے کہ راہل گاندھی مسلم نواز ہیں لہٰذا لوگ ووٹ بی جے پی کو ہی دیں۔یہ کھیل’ووٹ بینکوں‘کو مضبوط کرنے کاہی ہے!مسلمان کیاواقعی کانگریس کا’ووٹ بینک‘ہیں،اس سوال پر غورکیے بغیربی جے پی ہندوؤں کو یہی تاثردیتی ہے کہ بھارتی مسلمان کانگریس کا’ووٹ بینک‘ہیں اورکانگریس اپنے’ووٹ بینک‘کو بچانے کے لیے مسلمانوں کی بیجاخواہشا ت پوری کرتی ہے،ہندوؤں کے حقوق کو نظرانداز کرکے مسلمانوںکی منہ بھرائی کرتی ہے لہٰذا ہندواسے یعنی بی جے پی کو ووٹ دیں تاکہ بی جے پی انہیں ان کے حقوق دلاسکے۔بی جے پی کے مذکورہ پروپیگنڈے میں بھلے ہی رتیّ بھربھی سچائی نہ ہو،پر اس کا کیاکیاجائے کہ کانگریس بھی یہی سمجھتی ہے کہ مسلمان اس کے’’ووٹ بینک‘ہیں،بلکہ اگریہ کہاجائےتوزیادہ ہی ٹھیک ہوگا کہ کانگریس کو یہ زعم ہے کہ مسلمان اسے ووٹ نہ دیں گےتوکسے دیں گے،گویا کہ مسلمان کانگریس کی نظروں میں بس غلام ہی ہیں۔

کانگریس کی راجیہ سبھا کی رکن،مہیلا کانگریس کی سربراہ سشمیتا دیونے جب گذشتہ جمعرات کو کانگریس کے اقلیتی ڈپارٹمنٹ کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہاکہ اگرکانگریس لوک سبھا کاالیکشن جیت گئی توطلاقِ ثلاثہ کاقانون ختم کردے گی،تب ان کے ذہن میں یقیناً یہی با ت رہی ہوگی کہ اس طرح وہ کانگریس کا’مسلم ووٹ بینک‘مضبوط کر رہی ہیں۔وہ آسام کے سلچر میں جس علاقے کی ہیں وہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔گویااس طرح وہ بالواسطہ ملک بھرکے مسلمانوں کے ساتھ اپنی سیاسی کرم بھومی کے مسلم رائے دہندگان کوبھی کانگریس کے دامن میں پنا ہ لینے کامشورہ دے رہی تھیں،کہ کانگریس کادامن تھام لوتو تمہاری شریعت محفوظ ہے......!بی جے پی کاردّ عمل فوری تھا،ارون جیٹلی نے مثال دے دی کہ’ جیسا باپ ویسا بیٹا۔‘اشارہ آنجہانی راجیو گاندھی کی طرف تھاجنہوں نے شاہ بانو کے طلاق کے عدالتی فیصلے میں مداخلت کی تھی۔جیٹلی کازور اس بات پرتھا کہ راہل گاندھی بھی راجیو گاندھی کی طرح شریعت کے فیصلے نافذ کروانے کے لیے عدالت کے فیصلوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔یہ سوال ابتداء ہی میں دریافت کیاگیاتھاکہ ‘کیاطلاقِ ثلاثہ ہندوستانی مسلمانوں کاسب سے اہم مسئلہ ہے،اس کا جواب بھی ابتداء ہی میں دیاگیا ہے کہ کم از کم کانگریس اوربی جے پی کوتوایسا ہی لگ رہاہے‘بھلے ہی مسلمان اسے اپنا سب سے اہم مسئلہ نہ سمجھیں۔اورپھر کسے مسلمانوں کے مسائل کو فکر ہے!راہل گاندھی نے گذشتہ جمعرا ت ہی کو کانگریس کے اقلیتی ڈپارٹمنٹ کے اجلاس میں جو باتیں کیں ا ن میں کہیں بھی اقلیتوں بشمول مسلمانوں کے مسائل کاذکر نہیں تھا۔ہاں اگریہ کانگریسی نریندرمودی،آرایس ایس ،رام مندر،ٹرپل طلاق ہی مسلمانوں کے مسائل سمجھتے ہیں توالگ بات ہے۔

بی جے پی توخیرسے مسلمانوں کی ہمدردنہیں ہے،حالانکہ بی جے پی،شیوسینا اوردوسری ہندوتواوادی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے ہاتھوں کبھی کبھی مسلمانوں کے وہ مسائل حل ہو جاتے ہیںجو سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیاں کبھی بھی حل کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتیں،پھر بھی یہ کہنادرست نہیں ہوگا کہ بی جے پی اینڈکمپنی مسلمانوں کی ہمدردہے۔میں تواین ڈی اے میں شامل کسی بھی پارٹی کو اقلیتوں اورمسلمانوں کاہمدردنہیں سمجھتا،نہ نتیش کمارکی پارٹی کو نہ رام ولاس پاسوان کی پارٹی کو‘کیونکہ یہ پارٹیاں بی جے پی کاوہ سہارا ہیں جواسے پارلیمنٹ میں آج مضبوطی دئیے ہوئے ہیں،ایسی مضبوطی کہ بی جے پی آئین تک بدلنے کے لیے پرتول رہی ہے!بی جے پی کے حال کے’کارناموں‘پراگرنظرڈالی جائے تویہ اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ اس نے’مسلم مخالفت‘میں کیاکیاگل کھلائے ہیں!یہ سچ ہے کہ شریعت خطرے میں ہے‘مودی سرکارنے صرف طلاق کے معاملے ہی کونہیں مسلمانوں کے کئی شرعی مسائل کو اپنے پروپیگنڈہ کے زورپرملک کے آئین کے خلاف ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کازورلگادیاہے۔مآب لنچنگ سے لے کر وندے ماترم تک بے شمارمسائل مسلمانوں کے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔گئوکشی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے!اب’حج‘کے نام پر بھی سیاسی کھیل کھیلا جارہاہے۔خطرہ ہے کہ اگرآئندہ مودی سرکاربنی توملک ہندوراشٹرمیں تبدیل ہو جائے گااورآئین کو بدل دیا جائے گا۔لیکن ایسا توہے نہیں کہ کانگریس دودھ کی دھلی ہوئی  ہے‘وہ واقعی مسلمانوں کی منہ بھرائی کر رہی ہے اورمسلمانوں کے تمام حقوق کی حفاظت کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کازورلگا رکھاہے۔جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی کا حال ہی میں کہاگیایہ جملہ بالکل درست ہے کہ’کانگریس نے بھی کوئی مسلمانوں کابھلانہیں کیامگراس نے آئین کی حفاظت کی ہے۔‘توکیا مسلمان صرف ا سلیے کہ اس ملک کاآئین محفوظ رہے کانگریس کوووٹ دے دیں بھلے وہ خود محفوظ نہ رہیں؟

اگرکانگریس کی’مسلم نوازی‘کاجائزہ لیاجائے توبخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ سارا سیکولرزم،ساری جمہوریت،ساری مسلم نوازی بس’دکھاوا‘تھی۔سچرّ کمیٹی کی رپورٹ کانگریس کے دکھاوے کی سب سے بڑی گواہ ہے۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ آج مسلمان اس ملک میں دلتوں سے بھی پچھڑا ہوا ہے۔تعلیمی میدان میں،تجارتی میدان میں،صنعتی میدان میں،سماجی،ثقافتی  میدان میں،سرکاری ملازمتوں میں،اعلیٰ عہدوں پر،مسلمان سب سے پیچھے ہیں اوریہ سب کانگریس کے ساٹھ سالہ دورحکومت میں ہی ہوا ہے۔ہاں مسلمان جیلوں میں اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیاد ہ ہیں اوریہ’جیل بھرائی‘کاعمل بھی کانگریس ہی کے دورکا’کارنامہ ‘ہے۔ٹاڈا’پوٹا،مکوکانہ جانے کیاکیا قانون بنائے گئے اورمسلمانوں کے خلاف استعمال کیے گئے۔شریعت میں مداخلت کاعمل بھی کانگریس ہی کے دور سے شروع ہوا۔’یکساں سول کوڈ‘کاخطرہ بھی اس کاپیدا کردہ تھا۔گئوکشی پر’چپّی‘بھی اس نے سادھے رکھی تھی۔توکانگریس کہاں سے مسلمانوں کی ہمدردہوگئی؟آج بھی جب کہ ابھی سارے ملک میں اسے کامیابی نہیں ملی ہے،چند ہی ریاستوں میں اس کی حکومت ہے،وہ ’ہندوتوادیوں‘کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔مدھیہ پردیش کی کانگریس سرکارنے تین ایسے مسلمانوں پرجن پر گئوکشی کاشبہہ ہے قومی سلامتی کے قانون کے تحت کارروائی کی ہے۔گویا یہ کہ اب کانگریس کی نظرمیں ’گئوکشی‘یا’گائے ماتا‘کے تعلق سے کوئی بات’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘بن گئی ہے!

بی جے پی توخیرمسلمانوں کے لیے جو ہے وہ ہے کانگریس بھی ہمدردنہیں ہے۔لیکن کیا کیاجائےکہ ملک میں سیکولرازم اورآئین کی حفاظت کی سارے ذمہ داری مسلمانوں کے سرڈال دی گئی ہے۔مسلمان ہی سیکولرازم بچائے،آئین بچائے۔دوسروں کو سیکولرازم سے کیالینادینا،انہیں آئین کی کیا پرواہ!مسلمان یہ کام توکرتا رہے لیکن اس بار کانگریس کو یہ بھی جتادے کہ وہ اس کا’ووٹ بینک‘نہیں ہے،ا س کے سامنے اوربھی راہیں ہیں ......اوراگرواقعی مسلمان متحدہوگئے توراہوں پر راہیں کھلتی چلی جائیں گی۔پرکیا مسلمان واقعی متحدہوں گے؟؟