Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 13, 2019

ویلنٹائنس ڈے یا تذلیل محبت!!


محمد ریحان کی تحریر/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
گردشِ ایام کے مسلسل سفر کرنے اور ماہ سال کے گزرنے میں جیسے ہی عیسوی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ شروع ہوتا ہے تو موسم بہار کی آمد ہونے لگتی ہے، ارض و سماں کے رنگ میں ہر طرف قدرت کی کاریگری دلکش منظر پیش کرتی ہے، ہر طرف پھول ہی پھول اوررنگ ہی رنگ نظر آتے ہیں، انھیں رنگ برنگے پھولوں میں سے ایک سرخ گلاب بھی ہے، جو اپنے خالق کی صناعی اور حسن و رعنائی کا دلکشیں نمونہ ہے، ہمیشہ سے پیار و محبت کی علامت اور اسکے حسن و جمال کو دیکھ کر انسان بے خود سا ہوجاتا ہے، اس بے خودی کے عالم میں صحیح اور غلط کی پہچان بھول جاتا ہے، گلاب کی خوبصورتی سے لطف اٹھاتا ہے؛ لیکن اس کے پیچھے چھپے دست قدرت کو نہیں دیکھ پاتا، اسی موسم بہار میں ایک ایسا دن بھی آتا ہے ،جب صبح سے شام تک پھولوں کے مبادلے کا سفر جاری رہتا ہے، پوری دنیا میں سرخ گلابوں کے ذریعہ عشق کا کاروبار اپنے عروج پر ہوتا ہے، سرخ گلاب نہ بھی ملے تو دوسرے رنگوں کے گلاب خرید کر اپنے چاہنے والوں کو بھجوائے جاتے ہیں ـ
ہاں میں 14 فروری کو ہونے والے اس رسمِ بد کی بات کر رہا ہوں، جسے "ویلنٹائنس ڈے" کے نام سے جانا جاتا اور یوم محبت کے طور پر سلیبریٹ کیا جاتا ہے، اور اس رسم مذکور کے لئے 14 فروری کی تاریخ کو منتخب ہے؛ جس کے پیچھے ایک واقعات کے انبار ہیں ـ
یہ محبت نہیں در حقیقت ہوس کا نمونہ ہوتا ہے جو صرف اور صرف لفظوں کے پھول بونٹوں کی ظاہری خوبصورتی سے شروع ہوکر نرم و گرم بستر کی سلوٹوں پر ختم ہوجاتی ہے ـ
اس دن اس رسم کی ادائیگی کے لیے اکثر نوجوان لڑکے لڑکیاں اور مرد و عورت جو شرعی طور پر نامحرم ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر اظہار محبت اور اقرار مودت کرتے ہیں، اور ناجائز و حرام تعلقات کا آغاز یا تجدید کرتے اور اسکو استوار رکھنے کے وعدے کرتے ہیں؛ جبکہ اس ناروا رسم کا ردِ عمل یہ ہے کہ اس کا آغاز بھی جہنم اور انجام بھی جہنم ـ ویلنٹائنس ڈے کی حقیقت اور اس کے پس منظر کے سلسلے میں مختلف تواریخ ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی دیوتا لو پر کالیا کی صورت میں ہوا ہے، قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی آستینوں پر سجا کر چلتے تھے، بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے اور نہ جانے کتنی ہی ناہنجاریاں اور حرام کاریاں ہوتی تھیں؛ لیکن صد افسوس کہ اس شرمناک رسم میں اب ہمارے معاشرے کی نوجوان نسلیں یہود و نصاریٰ کے دوش بدوش چلتے ہیں، اس بے حیائی و بے شرمی، بے حمیتی و بے غیرتی اور گناہ کی بنیاد پر منائے جانے والے دن، اور اس میں انجام دیے جانے والے خرافات کی تاریخ اور اصلیت بتانے کے بعد اب میں کوئی لمبی چوڑی تفصیلی بات کرنے کی بجائے اللہ رسول کے فرامین سناتا ہوں، کہ ایمان والوں کے لئے اس سے بڑھ کر حجّت نہیں اور جو نہ مانے یا کسی تاویل کے ذریعے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے، یا کسی فلسفے کا شکار ہوکر اس گناہ کو گناہ سمجھنے میں تردد محسوس کرے، وہ اپنے ایمان کی خبر لے ـ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ یہ کیسی محبت ہے جس کی بنیاد ہی بے حیائی پر ہے، دوسروں کی نقالی میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات گراں مایہ کو فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا ‍(ابوداود) محبت کے نام پرفحاشی اور بےحیائی کو فروغ دینے والے اپنے انجام کو بخوبی جان لیں، محبت تو وہ پاکیزہ جذبہ ہے جس کا اظہار سب سے پہلے خالق کائنات نے اپنے مخلوق سے کیا ہے ،یہی وہ جذبہ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی مخلوق کو ڈھیل دیے جاتا ہے، کہ شاید اب سدھر جائے لیکن جب کوئی قوم اپنی تمام حدیں پارکر لیتی ہے ،تو اللہ کے عذاب کی مستحق بن جاتی ہے،جس طرح اس کی محبت کی کوئی حد نہیں اسی طرح اس کا عذاب بھی شدید ہوتا ہے محبت وہ ہے جو انسان کو رب سے ہو اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوں کہ محبوب کا محبوب بھی محبوب ہوتا ہے ـ
معیار زندگی کو بڑھانے کے شوق میں
کردار پستیوں سے بھی نیچے گرا دیا