Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, February 12, 2019

معروف شاعر " چکبست کی برسی۔

- 12 / فروری / 1926/یوم وفات۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*ممتاز قبل از جدید شاعر، ضرب المثل شعر زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب۔ موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشان ہونا، کے خالق اور معروف شاعر”چکبستؔ برج نرائن“ کی برسی کے موقع پر۔۔۔۔۔۔۔

*پنڈت ادت  نارائن شیو پوری چکبست* کے بیٹے *پنڈت برج نارائن چکبست ، چکبستؔ* کے نام سے جانےگئے ۔وہ *19 جنوری  1882ء* کو *فیض آباد* میں پیدا ہوئے ۔والد بھی شاعر تھے اور *یقینؔ* تخلص کرتے تھے ۔وہ پٹنہ میں ڈپٹی کمشنر تھے ۔ کالی داس گپتا رضاکو یقین کے بائیس اشعار ملے جو کلیات چکبست میں درج ہیں ۔ اس سے زیادہ کلام نہیں ملتا ۔ایک شعر افضال احمد کو بھی ملا تھا۔گپتا رضا کے بقول وہ ایک مشاق شاعر تھے ۔انہی کا ایک شعر ہے نگاہ لطف سے اے جاں اگر نظر کرتے ،تمہارے تیروں سے سینہ کو ہم سپر کرتے ۔
*یقین ترن ناتھ بخشی دریا لکھنوی* سے اصلاح لیتے تھے ۔چکبست جب پانچ سال کے تھے والد کا انتقال(1887) ہوگیا۔بڑے بھائی پنڈت مہاراج نارائن چکبست نے ان کی تعلیم میں دلچسپی لی ۔1908میں قانون کی ڈگری لی اور وکالت شروع کی ۔ سیاست میں بھی دلچسپی لیتے رہے اورگرفتار بھی ہوئے ۔کہتے ہیں نو برس کی عمر سے شعر کہنے لگے تھے ۔ بارہ سال کی عمر میں کلام میں پختگی آچکی تھی ۔مثنوی *گلزار نسیم* پر ان کا اور شرر کا مباحثہ یاد گار ہے۔ *افضل علی خاں افضل* کے شاگرد تھے۔ ابتدا میں انھوں نے کچھ غزلیں کہیں۔ بعد ازاں قومی ، سیاسی ،سوشل اور نیچرل نظمیں کہنے لگے۔ *’’کلیاتِ چکبست‘‘* مرتبہ کالی داس گپتا رضا1981 میں چھپ چکی ہے۔چکبست نے پہلی نظم ایک اجلاس میں 1894میں پڑھی۔کہیں کہیں چکبست کے ایک ناٹک کملا کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔رامائن کے کئی سین  نظم کیے ،لیکن اس کو مکمل نہ کر سکے۔ *12فروری 1926ء* کو ایک مقدمہ سے لوٹتے ہوئے اسٹیشن پر ان کاانتقال ہوا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
منتخب اشعار...

اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
---
*ادب تعلیم کا جوہر ہے  زیور ہے جوانی کا*
*وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں*
---
اگر دردِ محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
---
اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی
اس ایک مشتِ خاک کو غم دو جہاں کے ہیں
---
جو تو کہے تو شکایت کا ذکر کم کر دیں
مگر یقیں ترے وعدوں پہ لا نہیں سکتے
---
چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے
اسے ہوا کے فرشتے بجھا نہیں سکتے
---
*خدا نے علم بخشا ہے ادب احباب کرتے ہیں*
*یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا*
---
عزیزانِ وطن کو غنچہ و برگ و ثمر جانا
خدا کو باغباں اور قوم کو ہم نے شجر جانا
---
*زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب*
*موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا*
---
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے
---
لکھنؤ میں پھر ہوئی  آراستہ بزمِ سخن
بعد مدت پھر ہوا ذوقِ غزل خوانی مجھے
---
*دردِ دل پاسِ وفا جذبۂ ایماں ہونا*
*آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا*
---
منزل عبرت ہے دنیا اہل دنیا شاد ہیں
ایسی دلجمعی سے ہوتی ہے پریشانی مجھے
---
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسمِ شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے
---
وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامانِ مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں
---
*کیا ہے فاش پردہ کفر و دیں کا اس قدر میں نے*
*کہ دشمن ہے برہمن اور عدو شیخ حرم میرا*
---
یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے
---
*ہے مرا ضبط جنوں جوش جنوں سے بڑھ کر*
*ننگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا*
---
*کبھی تھا ناز زمانہ کو اپنے ہند پہ بھی*
*پر اب عروج وہ علم و کمال و فن میں نہیں*
---
*متاعِ پاس غیرتِ بوالہوس برباد کرتے ہیں*
*لبِ خاموش کو شرمندۂ فریاد کرتے ہیں*