Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, February 15, 2019

کہتے ہیں کی غالب کا ہے انداز بیاں اور۔

غالب کی یومِ وفات 15 فروری کے ضمن میں ایک خصوصی آرٹیکل.
محمد عباس دھالیوال/صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
9855259650
abbasdhaliwal72@gmail.com
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  
"کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور "
اہل ادب میں جب بھی شاعری کی بات چلتی ہے تو ایک نام جو خود بخود ذہن میںیکدم گردش کر جاتا ہے وہ ہے مرزا غالبؔ ۔۔! ایسا لگتاہے کہ مرزا غالب کے بغیر ہمارا اردو ادب اتنا ہی ادھورا ہے ،جتنا کہ محبت کی بے مثال نشانی تاج محل کے بغیر ہندوستان ۔! بات خیالات کی ندرت کی ہو یا تخیلِ اڑان کی یا پھر جدید نثر کے موجد کی ،غالب زبان وادب کی ہر جگہ امامت کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی، غالب کی نہ صرف شاعری بلکہ ان کی نثر کا جادو بھی اہل ادب کے سر چڑھ کر بولتا ہے یعنی اہل ادب میں غالب آج بھی اسی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں جیسے آج سے سو ڈیڑھ سو سال قبل پڑھے یا پڑھائے جاتے تھے ایسا لگتا غالب کی تخلیقات کو ادبی دنیا میںرہتی دنیا تک زوال نہیں۔۔!اپنے جس منفرد انداز بیاں کے چلتے غالب آج بھی اہل ادب کے دلوں میں گھر کیئے ہوئے ہیں،اس منفرد انداز بیاں کا نہ صرف انھیں احساس تھا بلکہ اپنے ہم عصر شعراء سے جداگانہ روش اختیار کر کے چلنے پہ انھیں ناز بھی تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اس بات کی خود اپنے منھ سے وضاحت کرتے نظر آتے ہیں کہ
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
قابل ذکر ہے کہ غالب کو اپنی فارسی شاعری پہ بے حد ناز تھا ۔لیکن انکی مقبولیت کا باعث انکا اردو واحد دیوان بنا ۔اس دیوان کی بدولت آج وہ اردو زبان ہی نہیں بلکہ دنیا کی دوسری زبانوں کے شعراء پر بھی فوقیت اور بر تری حاصل کیئے ہوئے ہیں۔
آج ہم غالب کی شاعری کے مختلف رنگوں پہ بات کرنے کے ساتھ ساتھ انکی نثریعنی اردو کا بیش قیمت سرمایہ سمجھے جانے والے ان کے خطوط پہ بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔اس سے پہلے کہ ہم غالب کے کلام کو زیربحث لائیں ۔آئیے مختصراً ان کے حالات زندگی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
مرزا غالب کا اصل نام اسد اللہ خاں بیگ تھا اور آپ کے والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔آپ کی پیدائیش 27دسمبر 1797کو آگرہ میں ہوئی ،غالب بچپن میں ہی یتیم ہوگئے ،اس کے بعد آپ کی پرورش آپ کے چچا نصراللہ بیگ نے کی ۔غالب ابھی آٹھ سال کی عمر کو ہی پہنچے تھے کہ آپ کے چچا بھی اس جہان ِ فانی سے کوچ کر گئے۔اس کے بعد نواب احمد خاں نے آپ کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کروادیا،اسی بیچ 1810میں تیرہ سال کی عمر میں آپ کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش کی بیٹی سے کر دی گئی ۔شادی کے بعد غالب نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہتے ہوئے ہمیشہ ہمیش کے لیے دہلی میں مستقل سکونت اختیار کی اورتمام عمر اسی دہلی شہر میں فکر معاش و فکر روزگا ر کی جدو جہد میںصرف کردی ۔اسی بیچ ایک لمبے عرصہ کے بعدبہادر شاہ ظفرکے دربار میں بطور استاد شاعر جگہ ملی
اوراس دوران آپ نجم الدولہ ،دبیرالملک ،مرزا نوشہ، اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ جیسے خطابات سے سرفراز ہوئے اور آخر کاراردو و فارسی زبان کا یہ عظیم شاعریعنی مرزاغالب 15فروری 1869کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے اور اس وقت دہلی میں ہی نظام الدین کے قریبی قبرستان میںمدفن ہیں۔
غالب کی شاعری میں جا بجا قلندرانہ صوفیانہ رنگ ملتا ہے ایک شعر دیکھیں کہ
ہاں۔! بھلا کر تیرا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
اس مختصرسی زندگی میں انسان کوکیا کیاتکلیفیں اور دکھ برداشت کرتا ہے کہ ایک قوت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان زندگی میں ملے مسلسل دکھوں و رنج سے دل برداشتہ ہو کر رونے کو مجبور ہو جاتا ہے اور پھر وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ
دل ہی تو نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ اللہ نے جس مقصد کے لیے انھیں اس دنیا میں بھیجا تھا اس کا حق اس سے شاید ادا نہ ہو سکا۔اسی کے چلتے وہ خود پہ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
کعبہ کس منھ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اسی غزل کے ایک دوسرے شعر میں موت کے معین و مقرر ہونے کی حکانییت کو اس طرح بیان کرتے ہیںکہ
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
غالب کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ اللہ پاک نے جو عقل سلیم اور تصوفانہ طبیعت وصلاحیت انھیں عطاکی ہے اگر وہ اس کا صحیح طریقہ سے یعنی خدا کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق استعمال کرتے تو آج وہ یقینا ایک ولی کی حیثیت میں ہوتے۔ملاحظہ فرمائیں۔
یہ مسائلِ تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب کے کچھ اشعار ایسے بھی ہیں جن میں وہ صحابہ کی سوچ و فکر پہ پہرا دیتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔جیسے کہ حضرت ابو بکر ؓ جنکے تعلق سے اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے دنیا میں ہی جنتی ہ