Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 9, 2019

مولانا محمد حنیف ندوی، جسے ہم نے بھلا دیا۔


از ذاکر اعظمی / صدائے وقت۔
. . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
عام طور پر یہ متداول ہے کہ فضلائے ندوہ کی تمام تر جولانیاں تاریخ وادب وانشاء پردازی تک محدود رہی ہیں، مگر ہم بھول جاتے ہیں اگر ماضی میں ندوہ نے علامہ سید سلیمان ندوی جیسا اسلامی علوم کا بے مثل شناور، ئیس احمد جعفری جیسا اردو کا عظیم انشاء پرداز، مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا ابو الحسن علی ندوی ومحمد ناظم جیسے عربی زبان کےاساطین ادب کو جنم دیا تو دوسری طرف مولانا مجیب اللہ ندوی کی شکل میں ممتاز فقیہ اور مولانا محمد حنیف ندوی کی شکل میں ایک نامور محقق اور بے مثل مفسر قرآن کو بھی اسی ندوہ کی علمی فضا نے سنوارا  اور پروان چڑھایا۔

مضمون ہٍذا میں ایک ایسے فاضل ندوہ کا تعارف پیش کرنے جارہے ہیں جسے علمی دنیا مولانا محمد حنیف ندوی کے نام سے جانتی ہے۔بقول معروف مورخ اسحاق بھٹی کے " مولانا ندوی قدیم وجدید کے پیکر حسین اور صاحبِ فضل وکمال بزرگ تھے۔ مفسرِ کتاب ہدیٰ، فنونِ نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، خزانۂ علوم قرآن ، محبِّ رسولِ عربی، دلدادۂ حدیث نبوی، حاضر جواب، مقرر شیریں بیان، خطیبِ نکتہ طراز، خلوت گزیں مجمع کمال اور گوشہ نشیں محفل آرا تھے۔ دنیا اور اہلِ دنیا سے بے نیاز، دولت وثروت سے مستغنی، لوگوں کی دادوتحسین سے بے پروا ، عربی کے ادیب، اردو کے صاحب، طرز مصنف، متوکل علی اللہ، مجسمۂ فہم وتدبر، اسلامی فلسفے میں یکتا، عمر انیات وعلوم حاضرہ میں منفرد اور علم ومطالعہ کے علاوہ ہر شے سے بے تعلق"۔

مولانا محمد حنیف ندوی ۱۰ جون ۱۹۰۸ ء کو پنجاب کے مردم خیز شہر گوجراں والامیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام نورالدین تھا۔ بیٹے نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو باپ نے سرکاری اسکول میں داخل کرادیا۔ اسکول میں صرف چار جماعتوں تک تعلیم پائی، جسے اس زمانے میں پرائمری کہا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ ناظرہ قرآن مجیدبھی پڑھ لیا۔

علومِ متداولہ سے فراغت کے بعد مولانا ندوی 1925ء عالم اسلام کی معروف دانشگاہ ندوۃ العلماء میں لکھنؤ میں داخلہ لیا جہاں انہیں پانچ سال  تک مولانا عبدالرحمٰن نگرامی، مولانا حیدر حسن ٹونکی اور شمس العلماء مولانا حفیظ اللہ جیسے نامور ماہرین فن اساتذہ  سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ ۱۹۳۰ ء میں ندوۃ العلماء کا نصاب مکمل کرکے واپس اپنے وطن گوجراں والا آئے تو ایک سیاسی جماعت ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ میں شامل ہو گیے اور انگریزی حکومت کے خلاف تقریر یں کیں، جس کی پاداش میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور چھ مہینے کی سزاہوئی۔

بقول اسحاق بھٹھی "بلا شبہ مولانا محمد حنیف ندوی نستعلیق عالمِ دین تھے۔شکل وصورت اور وضع قطع دورگزشتہ کے اساتذۂ فن سے ملتی ہوئی۔ شبہ گزرتاتھا کہ غالب، ذوق، حالی اور نذیر احمد کے قبیلے کا کوئی فرد اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہے۔ لباس اور پہناوے کے اعتبار سے ایک خاص تہذیب اور خاص ثقافت کے حسین پیکر۔ لہجہ لکھنوی، اسلوبِ کلام میٹھا اور پیارا، لوگوں کو دھوکا ہوتا تھا کہ یوپی کے کسی بہت بڑے علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں"۔

چیونکہ قرآں مجید کا مطالعہ انکا پسندیدہ موضوع تھا، لاہور کی ایک مسجد میں ایک مدت  درس قرآن دیتے رہے۔ 24 سال کی عمر میں 1934ء میں "سراج البیان" نامی تفسیر لکھی جو متعدد مرتبہ چھپی اور پڑھی گئی۔اس تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے ہر صفحے کے اہم مضامین کی تبویب کی ہے۔ نیچے حلِّ لغات ہے اور جدید وقدیم مصادر سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے۔

۱۹ ؍اگست ۱۹۴۹ ء کو گوجراں والا سے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا تو اس وقت مولانا ندوی کا قافلۂ عمر چالیس منزلیں مکمل کرکے اکتالیسویں منزل میں داخل ہو چکا تھا۔ اس اخبار کے اجرا سے ٹھیک ایک سال بعد ۲۵؍اگست ۱۹۵۰ ء کو یعنی اپنی عمر کے بیالیسویں سال میں مولانا ممدوح نے ’’قرآن کی منتخب آیات کی تفسیر ‘‘ کے عنوان سے اخبار میں قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا آغاز فرمایا۔ سب سے پہلے انھوں نے ایک طویل نوٹ میں ’’منتخب آیات‘‘ کے الفاظ کی وضاحت فرمائی جس کی چند سطور یہ ہیں:

’’ہم اس شمارے سے اس نئے اور مستقل باب کو شروع کر رہے ہیں۔ تفسیر آیات کا انتخاب ان معنوں میں ہے کہ اختصار کے تقاضوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہم کن آیات کو اپنے ذوق کی رعایتوں سے آپ کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ ورنہ یہاں متعارف معنوں میں انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں تو ایک ایک آیت جانِ معنیٰ اور روحِ انتخاب ہے۔ اس باب میں ہم صرف ان آیات کو لائیں گے جن کی ادبی، نحوی یا کلامی وفقہی اہمیتوں کو اجاگر کر سکیں۔ مقصود یہ ہے کہ ہماری موجودہ پود کے دلوں میں قرآن کی عظمت کا صحیح صحیح احساس کروٹ لے اور انھیں یہ معلوم ہو کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کی اس کتاب میں کتنا اعجاز ، کتنے معانی اور فکروعمل کا کتنا نکھار مضمر ہے۔ امید ہے ہمارے قارئین اسے دلچسپی سے پڑھیں گے۔‘‘

اس عنوان کے تحت سب سے پہلے مولانا ندوی نے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ کے متعلق لکھا اور بڑی تفصیل سے لکھا۔ پھر سورہ فاتحہ کی چند آیات کو موضوعِ فکر ٹھہرا یا ۔ اس کے بعد قرآن کے مختلف مقامات کی بہت سی آیات کی تفسیر قلم بند کی۔ ’’الاعتصام‘‘ میں یہ سلسلہ کافی عرصہ جاری رہا۔ 

۱۵؍مئی ۱۹۵۱ ء کو مولانا محمد حنیف ندوی ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستہ ہو گئے ۔ جنوری ۱۹۵۵ ء میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کا ماہنامہ مجلہ ’’ثقافت‘‘ جاری ہوا تو مولانا ندوی نے تفسیر قرآن کا سلسلہ اس مجلے میں شروع کردیا ۔ پھر جنوری ۱۹۶۸ میں ماہنامہ ’’ثقافت‘‘ کا نام بد ل کر اسے ’’المعارف‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا گیا تو اس کے بعض شماروں میں بھی مولانا نے اس موضوع پر لکھا۔  ریڈیو پاکستان (لاہور) میں بھی مختلف اوقات میں بعض آیات قرآنی سے متعلق مولانا کی تقریریں ہوئیں۔

مولانا ندوی نے ۱۹۷۸ میں ’’مطالعہ قرآن‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ قرآن کے موضوع پر مولانا ندوی کی یہ نہایت محققانہ کتاب ہے جس میں سولہ عنوانات کو موضوعِ گفتگو ٹھہرایا گیا ہے اور وہ عنوانات یہ ہیں (۱) قرآن کا تصور وحی وتنزیل (۲) قرآن مجید اور کتبِ سابقہ (۳) اسفار خمسہ (۴) عہد نامۂ جدید اور اناجیل اربعہ (۵) قرآن حکیم اور اس کے اسما وصفات (۶) قرآنی سورتوں کی قسمیں اور ترتیب (۷) قرآنی سورتوں کی زمانی ومکانی تقسیم(۸) جمع وکتابتِ قرآن کے تین مراحل (۹) قرآن حکیم کی لسانی خصوصیات (۱۰) اعجاز قرآن اور اس کی حقیقت (۱۱) محتویاتِ قرآن (۱۲) مشکلات قرآن (۱۳) قرآن کے رسم الخط کے بارے میں نقطۂ اختلاف (۱۴) تفسیر (۱۵) تفسیر کے دو مشہور مدرسۂ فکر۔ اصحاب الحدیث اور اہل الرائے (۱۶) اوّلیاتِ قرآن۔

مولانا ندوی کی دیگر اہم تصانیف حسب ذیل ہیں:
۱۔ مرزائیت نئے زاویوں سے ۔
۲۔ مسئلۂ اجتہاد 
۳۔ افکارِ ابن خلدون 
۴۔ افکارِ غزالی 
۵۔ سرگزشتِ
۶۔ تعلیمات غزالی
۷۔ مکتوبِ مدنی :۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے ان کے دور کے ایک مشہور عالم اسماعیل بن عبداللہ آفندی رومی مدنی نے وحدت الوجود اور نظر یہ شہود کے بارے میں سوال کیا تھا۔ شاہ صاحب نے اس مکتوب میں اس کا تفصیل سے جواب دیا ہے۔ اسے’’ مکتوب مدنی‘‘ کہاجاتا ہے ۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے اس اہم علمی کا وش کا سلیس اور شگفتہ اردو ترجمہ کردیا ہے۔
۸۔ عقلیات ابن تیمیہ
۹۔ مسلمانوں کے عقائد وافکار:۔علامہ ابوالحسن اشعری چوتھی صدی ہجری کی جلیل القدر شخصیت تھے۔ ان کی تصانیف میں ’’مقالات الاسلامیین‘‘ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب دو ضخیم جلدوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مولانا نے شگفتہ اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہے اور دونوں جلدوں پر الگ الگ طویل مقدمہ لکھا ہے
۱۰۔ اساسیاتِ اسلام
۱۱ تہافت الفلاسفہ (تلخیص وتفہیم)
۱۲ مطالعہ حدیث: مولانا محمد حنیف ندوی کو حدیث وسنت سے قلبی شغف اور روحانی تعلق تھا اور منکرین ومعترضینِ حدیث سے انتہائی نفرت! یہی جذبۂ صادقہ اور داعیۂ حق اس کتاب کی تصنیف کا باعث بنا۔

مولانا محمد حنیف ندوی مسلکا اہل حدیث تھے،  مرکزی جمعیت کی مجلس عاملہ اور اس کی مختلف کمیٹیوں کے رکن تھے۔ مئی ۱۹۴۹ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی پہلی سالانہ کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو انھیں اس کانفرنس کا صدرِ استقبالیہ بنایا گیا جب کہ اس کانفرنس کی صدارت کے فرائض مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی نے انجام دیئے۔ مولاناندوی کا خطبہ استقبالیہ زبان اور معلومات کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل تھا ۔ صدر جمعیت اہل حدیث مولانا سید محمدداؤد غزنوی کے نزدیک مولانا ندوی کو بے حد احترام کا مقام حاصل تھا جماعتی اور علمی معاملات میں وہ مولانا ندوی کو اپنا مشیر قرار دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جب میں مولانا حنیف ندوی سے گفتگو کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں امام غزالی کی مجلس میں بیٹھا ہوں۔

آج ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ماضی میں ندۃ العلماء کی مٹی سے جو ذرہ بھی اٹھا وہ نیر تاباں بن کار آسمان علم وادب پر چمکا، رئیس احمد جعفری ہوں یا شاہ محمد پھلواروی، عبد السلام ندوی ہوں یا شاہ معین الدین ندوی، فلسفی عبد الباری ندوی ہوں یا عربی کے بے مثل ادیب مولانا علی میاں ندوی اور مسعود عالم ندوی، لسانیات پر گہری نظر رکھنے والے عبد اللہ عباسی ندوی اور رضوان علی ندوی ہوں یا  فقیہ مجیب اللہ ندوی وغیرہم سب اسی مٹی کے لعل وگہر تھے، مگر نہ جانے کیوں ایسا گہن لگ گیا کہ آج اسی ندوہ کی زرخیز مٹی سے ہماں شماں جیسے علم وفکر سے بے بہرہ افراد تیار ہورہے ہیں۔ یہ ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

غالبا علامہ شبلی نے ایسے ہی ہونہار فرزاندان ندوہ کا خواب اپنے بوڑھی ونا تواں آنکھوں مین سجاتے ہوئے کہا تھا:

کئے تھے ہم نے بھی کچھ کام جو کچھ ہم سے بن آئے
یہ قصہ جب کا ہے باقی تھا جب عہد شباب اپنا
اور اب تو سچ یہ ہے جو کچھ امیدیں ہیں وہ ہیں تمسے
جوان ہو تم لب بام آ چکا ہے آفتاب اپنا

مولانا ندوی کے ساتھ اللہ کا خاص فضل رہا کہ انہوں نے  اپنی تصنیفی زندگی کا آغاز تفسیر "سراج البیان" سے کیا اور اور  دو جلدوں میں "لسان القرآں" کی تکمیل کے ساتھ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۷ کو ان کی کتابِ حیات کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ سعادت بہت کم مصنفین کے حصے میں آئی ہوگی۔ انا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون۔