Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 3, 2019

پرینکا گاندھی کی سیاست میں آمد، بہت کچھ ابھی باقی ہے۔


تحریر/نازش ہما قاسمی / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
2019 کا ایک مہینہ ختم ہوچکا ہے، اور آنے والے پارلیمانی الیکشن کے دن قریب ہوتے جارہے ہیں، اگرچہ الیکشن کمیشن نے اب تک تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے، لیکن سیاسی پارٹیاں ابھی سے دم خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑی ہے. صوبائی اور علاقائی لیڈران بھی مکمل طور پر سرگرم عمل ہیں، اور ان کی مکمل کوشش ہے کہ پارلیمانی الیکشن کا ٹکٹ ہماری طرف سے کہیں اور نہ کھسک جائے. اور اپنی نامزدگی و امیدواری کو یقینی بنانے کے لیے وہ افراد بھی جو گزشتہ پانچ سالوں میں کبھی اپنے انتخابی علاقہ میں جلوہ گر نہیں ہوسکے تھے اب وہاں خیمہ زن ہوگئے ہیں. ہائی کمان سے لے کر نچلی سطح تک کے کارکنان پورے جوش کے ساتھ اپنی اپنی پارٹیوں کی حمایت میں رات و دن ایک کیے ہوئے ہیں. کوئی دقیقہ اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے جس کا براہ راست سیاسی فائدہ اٹھا نے کی کوشش نہ کی جائے.
یہ بات تو ہندوستانی سیاست میں اظہر من الشمس ہے کہ حکومت بنانے کیلئے یہاں کوئی تیسرا متبادل نہیں ہے، اگر کبھی ایسا ہوا بھی ہے تو وہ دیر پا ثابت نہیں ہوسکا ہے. اس لیے تیسرے محاذ کے بجائے انہی دونوں پارٹیوں کے درمیان اصل مقابلہ سمجھا جارہا ہے. یہ الگ بات ہے کہ بعض ریاستوں میں ریاستی پارٹی ہونے کی وجہ سے اور ان پارٹیوں کے ان دونوں محاذ کے ساتھ نہ جڑنے سے مقابلہ سہ رخی بھی ہوسکتا ہے.
ایسے میں سب سے حیرت انگیز خبر اتر پردیش میں سپا، بسپا کا اتحاد تھا. ابتدا میں یہ تصور عام تھا کہ کانگریس اس اتحاد کا حصہ بنے گی، لیکن مایاوتی کی خود اعتمادی بلکہ خوش فہمی نے ایسا ہونے نہیں دیا. اور جہاں مقابلہ دو طرفہ ہونے کا امکان تھا وہ مکمل طور پر سہ رخی سمت میں چل پڑا ہے. کہا جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ یوپی سے ہوکر گزرتا ہے، اور اس یوپی میں کانگریس کی حالت کچھ اچھی نہیں ہے. اس کے باوجود کانگریس نے تمام 80 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے. کانگریس کا یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا، کیونکہ اس کے پاس اور کوئی متبادل نہیں رہ گیا تھا. کانگریس کے اعلان نے عوام کو بہت زیادہ متاثر نہیں کیا تھا، لیکن راہل گاندھی کے اچانک فیصلہ نے سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچادی، اور طویل انتظار کے بعد کانگریس نے اپنا ترپ کا اکا میدان میں اتار دیا ہے. اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس کے ترپ کا یہ اکا (پرینکا گاندھی) کانگریس کی ڈوبتی نیا کو یوپی میں پار لگا پاتی ہے یا نہیں؟ ابھی تک تو یہ طے نہیں ہے کہ پرینکا گاندھی اپنے کام کا آغاز کب اور کیسے کریں گی. لیکن پرینکا کی شمولیت نے کانگریس کے کارکنان میں ایک نئی امید، نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا ہے. جن کے درمیان کچھ مایوسی تھی اب وہ بھی پورے جذبہ کے ساتھ میدان میں کود پڑے ہیں.
پھر بھی ایک سوال باقی رہ جاتا ہے، اور اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا. ابھی کسی قسم کی پیشن گوئی کرنا قبل از وقت ہوگا. کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پرینکا گاندھی اپنی دادی اندرا گاندھی کی پرتو اور عکس ہے. لیکن کیا پرینکا اندرا گاندھی کے جیسے سخت فیصلے لینے کی اہل ہے، کیا اس میں وہی امنگ اور جذبہ ہے؟ کیا پرینکا کانگریس کا کھویا ہوا وقار بحال کرسکیں گی؟ پرینکا گاندھی کے عملی سیاست میں آنے کے بعد اگرچہ سیکولر مزاج پارٹیوں نے انہیں مبارک باد پیش کی ہے، اور کانگریس کے اس عمل کو سراہا ہے، جب کہ بی جے پی اور ان کے بعض اتحادیوں نے طعن و تشنیع پر اکتفا کیا ہے اور پرینکا گاندھی کا بشمول کانگریس مذاق بنانے کی بھی کوشش کی ہے. بات جو بھی ہو مگر اس حقیقت سے مفر نہیں کہ پرینکا کی آمد نے کانگریس کے تن میں ایک نیا جوش پیدا کردیا ہے، اس کی آمد سے خواتین کی شمولیت کا امکان زیادہ ہوگیا ہے. اور خواتین کیلئے ایک بہترین سیاسی رول ماڈل ہے، اسی کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کیلئے بھی یہ خوش کن ہے کہ ان کی نمائندگی پارٹی میں مضبوط ہوئی ہے.
کانگریس کی موجودہ صورت حال اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ ریاستی پارٹیوں سے اپنی شرطوں پر اتحاد کرے. بلکہ تقریبا اکثر صوبوں کی ریاستی پارٹیاں اپنے علاقوں میں بالمقابل کانگریس کے کہیں زیادہ مضبوط نظر آرہی ہے. ایسے میں کانگریس کیلئے ضروری ہے کہ وہ حتی الامکان اس بات کی کوشش کرے کہ علاقائی اور ریاستی پارٹیاں اس کے اتحاد کا حصہ بنیں. کیونکہ جہاں بھی علاقائی پارٹیاں اپنے بل پر الیکشن کے میدان میں ہوں گی وہاں یقینا مقابلہ سہ رخی ہوجائے گا اور یہ کسی بھی طرح کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے حق میں مفید نہیں ہوگا اور اس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ملے گا. اور اس کی راہ مزید ہموار ہوجائے گی. سیکولر ووٹوں کی تقسیم اس مرتبہ صرف سیکولر پارٹیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ ملک کیلئے بھی کسی طرح بارآور نہیں ہے. اور اس کا خمیازہ آنے والے وقتوں میں عوام کو سہنا ہوگا. اس لئے ضروری ہے کہ اپنے شعور کو بیدار رکھیں اور حالات کے پیش نظر اپنے ووٹ کا استعمال کریں.