Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 3, 2019

مزاج بدلے تو پھر کوئی انقلاب آئے گا۔


تحریر /عمر  فراہی/صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
فتنہ ارتداد کے تعلق سے ایک مولوی دوست کی تحریر آئی  تھی کہ جب سے ہم  نے اپنی بچیوں کو کالج  کا رخ دکھایا   ہے اس کے بعد سے ہم اس فتنے میں غرق ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بچیوں کو صرف  لکھنے پڑھنے  کی ضرورت  اور دینی  تعلیم کی حد تک  تعلیم دیکر اٹھارہ سال کی عمر  میں شادی کردینی چاہئے ۔مجھے ان  مولوی صاحب  کے مضمون پر نہ تو کوئ تبصرہ کرنا ہے اور نہ ہی  اس مضمون کے تعلق سے اپنے اتفاق اور اختلاف کو درج کرنے کی کوئ ضرورت ہی ہے -مگر میں یہ جانتا ہوں مجھ جیسے ایسے بہت سے جاہل مسلمان جن میں قاسمی رحمانی ندوی اور سلفی علماء بھی ہیں جو اپنی بچیوں کو کالج کی تعلیم کیلُیے خطرات مول لے رہے ہیں اور میں ایک ایسے مشہورو معروف  عالم دین کو بھی جانتا ہوں جن کی بیٹی نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اس بیٹی نے اپنی بیٹی کو برطانیہ میں تعلیم کیلیے بھی بھیجا-کچھ لوگوں نے ہم سے کہا کہ کیا زینب ( نام بدل دیا ہے ) کو نہیں پتہ ہے کہ برطانیہ میں ہاسٹل کا ماحول کیا ہے ...???
میی نے کہا یہ ان کا مسُلہ ہے میں کچھ نہیں بول سکتا لیکن ہندوستان میں مسُلہ صرف مسلم لڑکیوں کی تعلیم کا نہیں ہے ان مسلم  لڑکوں کی تعلیم کا بھی مسُلہ ہے جو مدرسوں میں نہ جاکر غیر اسلامی معاشرے کے جدید انگلش میڈیم کانونٹ اسکولوں کا رخ کرتے ہیں جہاں مخلوط تعلیمی نظام بھی کسی  عذاب سے کم نہیں ہے مگر کچھ ڈراپ آوٹ کے بعد جوکالج کی دہلیز تک پہنچتے بھی ہیں تو ان میں سے صرف وہی بچے دین اور اسلام پر رہ پاتے ہیں جن کے گھر میں کچھ دینی اور اسلامی معاشرے کی پابندی ہوتی ہے ورنہ تقریباٰ اسی  فیصد بچے برائے نام ہی مسلمان  ہوتے ہیں -
بدقسمتی سے ہندوستان کے سیکولر ماحول میں جہاں ان کی بچی  کھچی اسلامی شناخت ہی خطرے میں  ہے ہم مسلمانوں کے پاس اس کا کوئ معقول حل بھی نہیں ہے کہ ہمارے بچے خالص اسلامی ماحول  میں عصری تعلیم  بھی حاصل کرسکیں  -ہمارے یہاں ہر مولوی  خلیفہ ہے ہر لکھنے والا مفتی ہے اور ہر بولنے والا مبلغ-اٹھارہویں صدی کے سرمایا دارانہ لبرل جمہوری نظام کا فاںُدہ الحمداللہ ہم مسلمانوں نے بھی پوری طرح  اٹھایا ہے جہاں بیٹے کو باپ کا اور شاگرد کو استاد کا احترام کرنا اسی وقت تک لازم ہے جبتک کہ دونوں اپنے اپنے میدان میں خود کفیل نہ ہو جاںُیں -
موجودہ  جمہوری معاشرے میں اسلامی  تہذیب اور مسلمانوں کی مثال اس کسان کی طرح ہے جس نے ایک بار سیب کے ذاںُقے کو چکھا تو اسے بہت پسند آیا اس نے بیچنے والے سے پوچھا کہ بھائ یہ کہاں سے لایا ہے؟
پھل فروش نے کشمیر کا پتہ بتا دیا -کسان نے سوچا کیوں نہ کشمیر سے پیڑ ہی لایا جاےُ اور اس کی کھیتی کی جاےُ-کںُی سالوں کی محنت کے بعد پیڑ بڑا ہوکر سیب کے پھل جیسا  دکھائی بھی   دینے  لگا لیکن  پھل نہیں دے سکا  ۔کسان کی غلطی یہ تھی کہ اس نے سرد علاقے کے پھل کو گرم علاقے میں اگانا چاہا جو ناممکن ہے ۔
تہذیبو  کی مثال بھی  اسی طرح ہے۔ تہذیبوں  کی نشوونما بھی  ماحول اور معاشرے کی محتاج ہوتی  ہیں۔ جو تہذیبیں غالب ہوتی ہیں انہوں  نے ہمیشہ اپنے اقتدار  کی طاقت اور  ذرائع  و وسائل سے  مخالف  تہذیبوں پر اثر انداز ہونے کیلئے ماحول  بنایا ہے یا اکثر کمزور تہذیبوں نے غالب تہذیبوں کے مقابلےمیں دم توڑ دیا ہے ۔اسلام چونکہ اپنی اصل تعلیم  کے ساتھ   عالم گیر تہذیب کا حصہ بن چکا ہے اس لیئے مغلوب  ہونے  کے بعد بھی آج کی جدید مادی تہذیب سے متصادم ہوتے ہوئے بھی   دنیا کے  کسی نہ کسی کونے  سے اپنے غالب ہونے کی ضد میں ہے  جبکہ سیکولر ممالک  خاص طور   سے وطن  عزیز میں مسلمانوں نے  بھی  دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح ہی  شادی اور میت میں  سوائے چند مذہبی رسومات  کے  زندگی کے دیگر شعبے میں مادیت  کو ہی  اپنا مذہب اور  نصب العین بنا لیا ہے ۔ایسے میں صرف مسلم بچیوں کے  ارتداد کی بحث کے کیا معنی جبکہ  مسلم معاشرے کی  اکثریت ہی اتداد  کی زد میں ہے فرق  اتنا ہے کہ جب ایک لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو عائشہ سے آشا بن جاتی ہے اور اس کا نقص ظاہر ہوجاتا  ہے مگر جو مسلم لڑکے کسی ہندو لڑکی سے شادی کرکے آشا کو  عائشہ بنا لیتے ہیں تو ان لڑکوں کا نقص تو  ظاہر نہیں ہوتا لیکن  کیا وہ اس  عائشہ کو  حقیقت  میں عائشہ بنا پاتے ہیں ؟؟
کچھ پندرہ بیس دن پہلے کی بات ہے ہمارے  ایک  دوست جو اب دلی میں کاروبار کرتے ہیں ہم سے ملاقات کیلئے آئے ۔یہ وہ دوست  ہیں جو 2002 سے پہلے تک ہر سال  ساکی ناکہ میں تازیہ داری کے اہتمام میں نوجوانوں  کی قیادت کیا کرتے تھے اور ان کے اس عقیدے کے خلاف بولنے والوں کے خلاف لڑنے بھڑنے کیلئے بھی آمادہ تھے ۔اتفاق سے اسی دوران نوجوانوں میں مطالعہ قرآن کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے کیلئے میں  نے ایک  ہفتہ واری  تحریک  شروع  کی تھی ۔۔میں ہر  ہفتے  قرآن  کی  ایک اہم آیت کا انتخاب کرتا تھا  جیسے کہ

ولباس التقوی ذلک  خیر
اور پھر صرف قرآن ہی کے حوالے سے ایک  گھنٹہ درس دیا کرتا تھا ۔بعد میں سوال جواب اور بحث مباحثے کے بعد پروگرام ختم کردیا جاتا  ۔اس پروگرام میں چالیس سے  پینتالیس  لوگ آجاتے  تھے  جس میں  کسی دوست کے ساتھ ہمآرے یہ دوست بھی آئے ۔ انہیں یہ درس اتنا پسند آیا کہ پھر نہ صرف انہوں نے خود قرآن کا   مطالعہ شروع کردیا ہر بدعت سے توبہ کرلیا اور اب بھی وہ جہاں رہتے ہیں مسلمانوں کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں ۔اسی ملی ہمدردی کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ بھائی ممبئی آیا تو میرے کچھہ ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ  ساکی ناکہ مہاڈا کالونی میں دو مسلم لڑکیوں نے غیر مسلم  لڑکوں سے شادی کیلئے  کورٹ میں درخواست دی ہے پتہ نہیں ان کے والدین  کو بھی معلوم ہے یا نہیں  ۔ کیا ہم اس تعلق سے کچھ کرسکتے ہیں ؟
ہمارے دوست نےکہا پتہ نکالو ان کے والدین سے ملتے ہیں ۔جب یہ لوگ ایک لڑکی کے گھر گئے تو دروازہ اس کی ماں نے کھولا ۔آنے کا سبب بتایا تو ماں نے عزت سے بٹھایا اور ہماری بات بھی سنی ۔اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے لیکن میں مجبور  ہوں کیونکہ میرا شوہر نہیں ہے اور گھر کا خرچ اسی لڑکی کے ذریعے چلتا ہے وہ فیصلہ کرچکی ہے  ۔
دوسرے لڑکی کے گھر گئے تو وہاں بھی صرف ماں تھی انہیں ان کی لڑکی کے بارے میں اطلاع دینے کے بعد معلوم ہوا کہ لڑکی  کی ماں ہندو ہے  لیکن ان کا مسلمان شوہر اس لڑکی کی پیدائش کے پانچ سال بعد انہیں چھوڑ چکا ہے اور اس کے بعد ماں نے کسی طرح نوکری کرکے لڑکی کو اس لائق بنایا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہے ۔اس کا نام تو انجم ہے لیکن وہ اپنے مسلمان باپ کے مذہب سے برائے نام ہی واقف ہے ۔
ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جسے فتنہ ارتداد کہتے ہیں ممکن ہے اس کے پییچھے کچھہ واقعات میں سازش بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہمارا مسلم معاشرہ بغیر دینی تربیت کے غیر مسلم معاشرے کے رابطے میں آیا ہے انٹر کاسٹ شادیاں ہوتی رہیں گی اس کا کوئی حل ناممکن ہے ۔کالجوں میں سوسائٹیوں میں کال سینٹر بیوٹی پارلر بیئر بار فلم انڈسٹری اور کارپوریٹ اداروں میں مسلم اور غیر مسلم لڑکے لڑکیاں بلا  جھجھک ایک دوسرے کے رابطے میں آرہے ہیں۔روز مرہ کے  اخراجات کے بوجھ اور بچیوں کے جہیز کا مسئلہ گلیمر اور تصنع پسند معاشرہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسلم بچیاں حجاب اتار دیں ۔دلی ممبئی حیدرآباد اور چنئی جیسے شہر تو دور کی بات لکھنئو جیسے چھوٹے شہروں کی بیشتر شادیوں میں بمشکل دوچار نقاب پوش عورتیں بیوقوفوں  کی طرح کہیں کونے میں دبک کر بیٹھی ہوئی ملیں گی ورنہ شرارے اور گرارے میں پورے میک اپ کے ساتھ مسلم عورتیں اپنی اور  اپنے مردوں کی مرضی سے  ہیروئنوں  کی طرح  عام مردوں کے سامنے مظاہرہ کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔
کیا یہی اسلام اور مسلمانوں کی تہذیب  ہے ؟
اس کے باوجود ہم فتنہ ارتداد کو سازش کہتے ہیں اور فکر مند ہیں!
تعجب ہے ؟
ایسا کیوں ہوا اور کیوں ہورہاہے اگر میں کھول کر لکھوں تو لوگ مجھ سے حوالے مانگیں گے ۔تحریک گزیدہ کہیں گے ۔عبداللہ حاذق صاحب فروری میں عمر فراہی کا مزاج نہیں بدلہ ہے صرف مزاج بدلنے کیلئے شوقیہ شاعری کرلیتا ہوں !!