Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 10, 2019

مسلمان ، جائیں تو جائیں کہاں ،؟


معصوم مرادآبادی کی قلم سے۔/ صدائے وقت،
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مودی سرکار سے مسلمانوں کی ناراضگی کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس نے بھگوا بریگیڈ کو ان پر کھلا چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ پونے پانچ سال کے عرصے میں لوجہاد، گھرواپسی اور گئو کشی کے عنوان سے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایاگیا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ حملے گئو کشی کے جھوٹے الزامات لگاکر کئے گئے ہیں جن میں ملک گیر سطح پر درجنوں مسلمانوں کو نہایت سفاکی کے ساتھ ہلاک کیاگیا ہے۔ مسلمان اس حکومت سے اس لئے بھی نجات چاہتے ہیں کہ وہ ملک کے سیکولر جمہوری آئین پر کاربند ہونے کی بجائے ہندوراشٹر کے ایجنڈے کو آگے بڑھارہی ہے اور مسلمانوں کو دوئم درجے کا شہری بناکر چھوڑ دیاگیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کی پالیسی جگ ظاہر ہے اور وہ اپنی مسلم دشمنی کو چھپانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کرتی ہے۔ مسلمان اس منافرانہ سیاست سے چھٹکارا پانے کے لئے ان پارٹیوں کی طرف دیکھتے ہیں جو سیکولر ہونے کی دعویدار ہیں اور مختلف مواقع پر مسلمانوں کے حق میں آواز بھی بلند کرتی رہتی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی پارٹی کانگریس ہے جس نے آزادی کے بعد ملک پر سب سے زیادہ عرصے حکومت کی ہے۔ بی جے پی سے نجات حاصل کرکے مسلمان ایک بار پھر کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی پناہ میں جانے کا شوق ایک بار پھر مسلمانوں پر بھاری پڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس کا آغاز مدھیہ پردیش سے ہوا ہے جہاں حال ہی میں کانگریس نے بی جے پی سے اقتدار چھینا ہے۔ مسلمانوں کو امید تھی کہ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں بی جے پی کا طویل اقتدار ختم ہونے کے بعد اب ان مسلمانوں کو راحت ملے گی جو ان حکومتوں کی مسلم دشمن پالیسیوں کے سبب خوف ودہشت کے ماحول میں جی رہے تھے ۔ لیکن ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کا یہ خیال غلط ثابت ہوا ہے چونکہ ان ریاستوں میں کانگریس حکومتوں نے ’نرم ہندتو‘ کی راہ اختیار کرلی ہے اور وہ بی جے پی کے ایجنڈے پر ہی کاربند ہوگئی ہیں۔ یہاں مسلمانوں کو راحت ملنے کی بجائے کچھ زیادہ پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑرہا ہے ۔ اس کی تازہ مثال مدھیہ پردیش میں تین مسلم نوجوانوں کی گئو کشی کے الزام میںاین ایس اے( نیشنل سیکورٹی ایکٹ )کے تحت گرفتاری کا معاملہ ہے جو کافی بحث ومباحثے کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اتفاق سے یہ تینوں نوجوان آپس میں بھائی ہیں جنہیں گئو کشی کے الزام میں این ایس اے لگاکر جیل بھیج دیاگیا ہے۔ حالانکہ مدھیہ پردیش میں گئو کشی کرنے والوں کے خلاف ایک علیحدہ قانون موجود ہے لیکن ان مسلم نوجوانوں کو این ایس اے میں گرفتار کرکے زیادہ سخت سزا دینے کا انتظام کیاگیا ہے۔
مدھیہ پردیش کے کھنڈوا ضلع میں گزشتہ ہفتے تین بھائیوں ندیم، شکیل اور اعظم کے خلاف این ایس اے کی جو کارروائی کی گئی ہے، اس کی مخالفت خود کانگریسی حلقوں کی طرف سے ہورہی ہے۔ مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اور سینئر کانگریسی لیڈر دگوجے سنگھ کا کہنا ہے کہ’’ ان نوجوانوں پر گئو کشی کے لئے این ایس اے قانون کے تحت کارروائی نہیں ہونی چاہئے تھی بلکہ انہیں گئو کشی کے لئے بنائے گئے قانون کے تحت ہی ملزم بنایاجانا چاہئے تھا۔‘‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مدھیہ پردیش حکومت کی ایک سوچی سمجھی کارروائی ہے اور وہ اس کے ذریعے اپنے ہندو ووٹ بینک کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ یہ کارروائی ان ہی وزیراعلیٰ کمل ناتھ کی چھتر چھایا میں ہوئی ہے جن کا مسلمانوں سے متعلق ایک بیان مدھیہ پردیش اسمبلی چناؤ کے دوران بحث ومباحثے کا موضوع بنا تھا۔ انہوں نے ایک میٹنگ کے دوران یہ کہاتھا کہ’’ مسلمان ہمارا ووٹ بینک ہیں لہٰذا ان پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں پر الیکشن کے دوران ہی خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ ان کے ووٹوں پر ہاتھ صاف کیاجاسکے۔ الیکشن کے بعد انہیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کانگریس گزشتہ کئی انتخابات سے’ نرم ہندتو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس پالیسی کا آغاز گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران ہوا تھا جہاں کانگریس صدر راہل گاندھی نے درجنوں مندروں کے درشن کئے تھے اور اس معاملے میں وزیراعظم نریندر مودی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں سے دوری برقرار رکھنے کی غرض سے ان کے علاقوں میں جانا بھی گوارا نہیں کیا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے اپنے تمام ووٹ کانگریس کی جھولی میں ڈال دیئے چونکہ وہ بی جے پی کوووٹ نہیں دے سکتے تھے۔ کانگریس مسلمانوں کی اس مجبوری کو بخوبی جانتی ہے، اسی لئے وہ انہیں استعمال کرکے کوڑے دان میں پھینک دیتی ہے۔
گجرات اسمبلی انتخابات کے بعد کرناٹک اسمبلی چناؤ میں بھی کانگریس نے نرم ہندتو کا سہارا لیا اور اس کے بعد مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی اسی فارمولے کو بروئے کارلایاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے’ نرم ہندتو‘ کی پالیسی کو آگے بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کھنڈوا کے تین مسلم نوجوانوں کے خلاف گئو کشی کے الزام میں این ایس اے کے تحت کارروائی اسی مقصد کے تحت کی گئی ہے کہ کانگریس بی جے پی کو اسی کے ایجنڈے سے مات دینے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ بی جے پی کے ہندتو کی کاٹ اسی کے میدان میں اترکر اور اسی کی حکمت عملی اختیار کرکے کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس حکمت عملی سے بی جے پی کی ہندو ووٹوں کی صف بندی کی کوشش پر لگام لگ سکتی ہے۔ مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ سرکار نے یکے بعددیگرے جس قسم کے فیصلے کئے ہیں وہ کانگریس کی نرم ہندتو کی شبیہ کومضبوطی فراہم کرتے ہیں۔ مدھیہ پردیش سرکار نے آئندہ چار ماہ کے دوران ایک ہزار گئو شالائیں کھولنے کا اعلان کیا ہے جس کا سارا خرچ صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔ گایوں کے تحفظ کے لئے مہنگی کاروںپر ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ گئو شالاؤں کے ذریعے روزگار دینے کا منصوبہ بھی بن رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی مدھیہ پردیش حکومت تیرتھ درشن اسکیم کے تحت صوبے کے 3600 لوگوں کو یوپی کے پریاگ راج میں جاری کنبھ اسنان کے لئے بھیجنے جارہی ہے۔ اس کے لئے صوبے میں چار شہروں سے خصوصی ٹرینیں چلیں گی۔ ان مسافروں کی آمدورفت ، رہن سہن اور کھانے پینے کے اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔ خود وزیراعلیٰ کمل ناتھ بھی آئندہ 22فروری کو کنبھ اسنان کے لئے جانے والے ہیں۔ پریاگ میں مدھیہ پردیش سرکارکا ایک منڈپ بھی لگا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مندروں میں کام کرنے والے پجاریوں کی تنخواہیں تین گنا بڑھادی گئی ہیں۔ اس کے برعکس کمل ناتھ نے الیکشن کے دوران جن مسلمانوں کو اپنا ووٹ بینک قرار دیا تھا ان کی فلاح وبہبود یا جان ومال کے تحفظ کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایاگیا ہے بلکہ انہیں بی جے پی حکومت کی طرز پر ہی گئو کشی کے الزامات کے تحت نشانہ بنایاجارہا ہے۔
کانگریس پارٹی مسلمانوں کے تعلق سے کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ حال ہی میں نئی دہلی میں منعقدہ اقلیتی کنونشن میں راہل گاندھی نے جو تقریر کی اس میں انہوں نے سارا وقت وزیراعظم نریندرمودی اور سنگھ پریوار کو نشانہ بنانے میں خرچ کردیا ۔ انہوں نے اس کنونشن میں مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے پارٹی کے منصوبوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں وزیراعظم نریندرمودی اور سنگھ پریوار کے لیڈروں کو بزدل قرار دیتے وقت یہ نہیں سوچا کہ الیکشن کے میدان میں خود کانگریس بی جے پی کے ہندتو سے اتناخوف کیوں کھاتی ہے اور وہ بی جے پی کے خوف سے مسلمانوں کا نام لینے سے بھی کیوں ڈرنے لگی ہے۔ اقلیتی کنونشن میں کانگریس کی خواتین سیل کی صدر سشمیتا دیو نے کہاکہ’’ کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ طلاق ثلاثہ سے متعلق مودی سرکار کے قانون کو ختم کردے گی۔‘‘ لیکن اسی روز شام کو کانگریس ترجمان سندیپ سرجے والا نے یہ کہہ کر اس بیان کی ہوا نکال دی کہ’’ ہم خواتین کی مساوات کے حامی ہیں اور تین طلاق کے چلن کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘