Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, February 8, 2019

تعلیمی نظام اور ہماری ذمہ داری۔‎





تحریر ریان داوُد ابن حافظ عبدالمنان داؤد/ صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  
بلا شبہ ہمارا موجودہ نظام تعلیم بے شمار خوبیوں کا حامل انتہائی جامع اور پختہ صلاحیتوں کا ضامن ہے اس کی جامعیت اور تعلیمی نظام میں کارگر ثابت ہونے میں برسہا برس کی جانفشانی سالوں کی عرق ریزی اور مختلف احوال کے تجربات شامل ہیں لیکن سب سے اہم اور پیاری وجہ متعلم اور معلم کے درمیان ربط کا ہونا ہے طلبہ اساتذہ کے مابین یہ خاص تعلق مخلصانہ نسبت مفقود ہوتی نظر آرہی ہے اخلاق وکردار کی گراوٹ استعداد اور علمی لیاقت کے ڈھانچے دن بدن کمزور ہوتے جارہے ہیں اخلاص و للہیت دینی درداورمذہبی حمیت جیسی صفاتِ کریمانہ سے دوری بڑھتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ فراغت کے بعد ہمارے یہ نونہال جب زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو وہ بھی اپنے آپ کو ادھورا محسوس کرتے ہیں اور امت کو بھی ان سے پوراپورا فائدہ حاصل نہیں ہوتا آج ہماری تعلیم اس روح سے خالی ہو چکی ہے ورنہ تو ابھی قریبی دور میں جن علوم کو پڑھ کر امت میں *حجۃ الاسلام حضرت مولانا *قاسم* نانوتوی *امام ربانی حضرت مولانا رشیداحمد* گنگوہی *شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن* دیوبندی *شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد* مدنی *حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی* تھانوی *مفسر قرآن علامہ شبیراحمدعثمانی*  *محدث شیخ عبدالحق اعظمی* رحمۃاللہ علیہم جیسے سینکڑوں ہزاروں علماء پیدا ہوئے جنہوں نے عالم کو سیراب کیا جوآسمان علم و ہدایت کے آفتاب بن کر چمکے تو کیا وجہ ہیکہ اب وہی علوم پڑھ کر ویسی ہی شخصیتیں پیدا نہیں ہوتیں(اللہ تعالی ان بزرگان دین علمائے حق کے علمی وروحانی فیض کو جاری وساری رکھے آمین
شاید کہ طالبعلم علم تو حاصل کررہاہے مگر استاد کے فیض و برکات سے محروم ہے اساتذہ کی قدر و قیمت وہ نہیں ہے جو ہونی چاہئے عزت و احترام تعظیم وتکریم میں کافی کمی پائی جاتی ہے طلبہ استاد کی اہمیت سے نا آشنا استاد تربیت کی ذمہ داری سے بے خبر تربیت صحیح نہ ہونے کیوجہ سے طالبعلم علم تو حاصل کرلیتا ہے مگر اس کی روحانیت سے محروم اور نورالہی سے بے بہرہ ور اپنی منزل مقصود سے ہی دور رہتا ہے اس لئے طالبعلم کو چاہئے کہ وہ اپنی نیت میں خلوص پیدا کرے کیوںکہ کامیاب طالبعلم بننے کے سنہری اصولوں میں سے پہلا ضابطہ یہی ہے کہ طالبعلم اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرے اور تحصیل علم کا مقصد صرف یہ رکھے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کیا جائے اپنی پوری طالبعلمانہ زندگی کو اخلاص و للٰہیت  کیساتھ محض حق تعالی شانہ کی رضا کے لئے وقف کردے تب جاکر یہ دنیا کا سب سے عظیم الشان کام ہے کوئی اس کے برابر نہیں یہ سب سے بہتر اور افضل ہے اور اگر خدانخواستہ مقصود اس سے رضائے الٰہی نہیں دنیا کمانا ہے جیسا کہ اس کا بخوبی مشاہدہ ہے تو پھر دنیا میں اس سے بدتر کوئی کام نہیں اس لئے کی تمام چیزوں میں نیت ہی اصل چیز ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے *إنّماالأعمال بِالنّيات* اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے 
اللہ تعالی ہمارے اندر بھی علم کے حصول کا شوق پیدا فرمائے اور اس کیلئے خوب محنت اور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین