Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 17, 2019

ہاں! میں کشمیری ہوں۔


نازش ہما قاسمی / صدائے وقت۔
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .
جی! کشمیری، سری نگر کا رہنے والا، پلوامہ میں پالتو و خونخوار بھیڑیوں سے خوف کھایا ہوا، کشتواڑ میں کشت وخوں دیکھنے والا، کٹھوعہ میں پروان چڑھنے والا، راجوری میں ظلم و جور سہنے والا، اودھم پور میں فرقہ پرستوں کی ادھم و دھینگا مشتی دیکھنے پر مجبور، پونچھ میں ظلم پر کسی کے ذریعے آنسوں پونچھے جانے کا انتظار کرنے والا، لداخ جیسے سرد علاقے میں ایمانی حرارت سے یخ بستہ رات گزارنے والا، اننت ناگ میں انسان نما ناگوں کے ذریعے ڈسا جانے والا، بانڈی پورہ کا مظلوم، بارہ مولہ کا ستایا ہوا، کپواڑہ کا باسی، شوپیاں کا مجبور کشمیری ہوں۔جی ! درد سے چور، مظلوم، مجبور، محصور، غموں کا ستایا ہوا، اپنی آنکھوں کے سامنے بہنوں کی عزتیں لٹتا دیکھتا ہوا مجبور، ماؤں کو شِیر خوار بچے کی لاش پر تڑپتا دیکھتا ہوا غم و الم سے چور، بہنوں کو بھائی کی لاش پر سر پٹختا دیکھتا ہوا بے بس، سہاگنوں کو ان کے سہاگ پر آنسو بہاتا دیکھتا ہوا لاچار کشمیری ہوں۔ ہاں! میں وہی کشمیری ہوں جو کبھی پیلٹ گن کا شکار ہو کر اپنی بینائی کھورہا ہے، جو کبھی فوجیوں کے ذریعے گاڑیوں پر بٹھا کر ذلیل کیاجارہا ہے، جو کبھی فوجی وردی میں ملبوس انسانوں کی گولی کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جارہا ہے۔ ہماری درد و الم میں ڈوبی ہوئی طویل داستاں ہیں، جس میں صرف خون ہی خون ہے۔ ہاں! میں وہی کشمیری ہوں جو کبھی بوڑھے باپ کی لاش اُٹھا رہا ہے، کبھی جواں بیٹے کی موت پر ماتم کناں ہے، کبھی انسانی بھیڑیوں کے چنگل میں اپنی پاکیزہ ماؤں و بہنوں کو ذلیل و رسوا ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ ہاں میں جنت ارضی میں رہنے والا جہنمی ہوں جو روز آگ کے شعلوں میں اپنوں کی لاشوں کو جلتا دیکھتا ہوں۔
ہاں! میں اُن ہی عظیم کشمیریوں کی اولاد ہوں جنہوں نے ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱ کو سری نگر جیل کے سامنے اذان کی تکمیل کے لیے ’اللہ اکبر ‘ کی پہلی صدا سے لے کر ’لا الہ الاللہ‘ کے آخری الفاظ تک ۲۲ جانوں کا نذرانہ پیش کرکے دنیا کو اسلام پر مر مٹنے کا عظیم پیغام دیاتھا۔ ہاں!  میں وہی کشمیری ہوں جس کے ۷۵؍ افراد کو ۱۹۹۳ میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا، جسے مشہور و معروف انگریزی رسالہ ’ٹائم میگزین‘ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے ’خونی لہر میں اضافہ‘ قرار دیا تھا۔ اسی سانحے میں بس میں بیٹھی مجبور ماں کی گود سے اس کے بچے کو چھین کر آگ میں بھون دیا اور پھر گولی مار کر اس مجبور ماں کی مجبوری کا مذاق اڑایاگیا۔ ہاں! میں وہی کشمیری ہوں جب ۲۴؍ فروری ۱۹۹۱ کی درمیانی شب کنن پوشہ پورہ ہندواڑہ پر فوجی وردی میں ملبوس بھیڑیے نما انسان زانی حملہ آور ہوئے تھے، جہاں مردوں کو گاؤں خالی کرنے کا حکم دیا تھا اور پھر ہماری ۳۲ پاکیزہ و مقدس ماؤں اور بہنوں جس میں ۱۳؍ سال کی کمسن و معصوم بچی کے ساتھ ساتھ ۹۰ سال کی بوڑھی عورتوں کی عصمت سے کھلواڑ کر کے ہمیں زندگی بھر کا روگ دیا گیا۔ اس دلدوز سانحے کی شکار ستر سالہ بزرگ خاتون کہتی ہیں:  ’’رات کے گیارہ بج چکے تھے اور میں حسب معمول گھر میں اکیلی نفل نماز ادا کررہی تھی، اسی دوران چار فوجی وردی میں ملبوس افراد ہمارے گھر کی کھڑکی توڑ کر کمرے میں گھس گئے اور میرے کپڑے پھاڑ ڈالے میں کافی چیخی، چلائی؛ لیکن سب بے سود رہا، سیتا ماں کی حرمت و عفت کے لیے مرمٹنے والے سیتا ماں کے ہی دیش میں سیتا ماں جیسی مقدس ناریوں کی عصمت لوٹنے میں مشغول رہے، ان ظالموں نے میرے منہ میں کپڑا ڈال کر میری آواز بند کردی اور میرے بے ہوش ہوجانے تک یکے بعد دیگر گھنٹوں انسانیت کو شرمندہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیتا ماں کی مقدس حرمت کو پامال کرتے رہے، میرا بیٹا کشمیر پولس میں تعینات تھا اور اس قیامت خیز رات کو ڈیوٹی پر تھا جب اسے پتہ چلا تو وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا اور آج تک ٹھیک نہیں ہوپایا‘‘۔
میں آج ایک کشمیری ہونے کے ناطے انسانیت کا ڈھونگ رچنے والے حکمرانوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا ہماری مائیں بہنیں انسانیت سے خارج ہیں؟  آخر کیوں نہیں ہماری عصمت و عفت ہمارے جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنایا جارہا ہے، کیوں ہمیں چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پیسا جارہا ہے۔
ہاں! میں وہی کشمیری ہوں  جسے ۲۰ مارچ۲۰۰۰ سے لے کر ۳؍اپریل ۲۰۰۰تک اسلام آباد کے چھٹی سنگھ پوری گاؤں میں تقریباً ۱۴ دنوں تک اپنے سکھ بھائیوں کی ۴۹ لاشیں اُٹھانی پڑیں، مجرمین کی نشاندہی ہوئی، لیکن آج تک ہمارے ہم وطن بھائیوں کو انصاف نہیں ملا۔ اس قتل عام میں قاتلوں کی گولیوں سے بچ نکلنے والے نانک سنگھ نامی کہتے ہیں: ’’وہ فوجی وردی میں ملبوس تھے، ہم نہیں جانتے کہ وہ کون تھے، جب وہ وہاں سے گئے تو جائے واردات پر انسانی لاشوں اور چند شراب کی آدھی بھری یا خالی بوتلوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا، جائے واردات سے کچھ ہی دور راشٹریہ رائفلز فوجی اہلکاروں کا کیمپ ہے، مگر اُنہوں