Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 30, 2019

سنجیدہ اداکارہ، ملکہُ جذبات،مشہور شاعرہ " مینا کماری کے یوم وفات 31 مارچ کے موقع پر خراج عقیدت۔

تاریخ وفات۔۔ ٣١/ مارچ / ١٩٧٢*
*سنجیدہ عظیم اداکارہ، ملکہِ جذبات، المعروف ملکہِ غم، مشہور شاعرہ ” مینا کماری نازؔ  ...*
. . . . . . .  صدائے وقت . . . . . . . . . . 
اپنی سنجیدہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں کو چھو لینے والی عظیم اداکارہ *مینا کماری* حقیقی زندگی میں *’’ملکہِ جذبات‘‘* کے نام سے مشہور ہوئیں لیکن  وہ چھ ناموں سے جانی جاتی تھیں۔ وہ ممبئی میں *یکم اگست 1932* کو ایک درمیانے طبقے کے مسلم خاندان میں *مینا کماری* جب پیدا ہوئیں تو باپ *علی بخش* اور ماں *اقبال بانو* نے ان کا نام *’’ماہ جبیں‘‘* رکھا۔بچپن کے دنوں میں مینا کماری کی آنکھیں بہت چھوٹی تھیں اس لئے خاندان والے انہیں *’’چینی‘‘* کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ایسا اس لئے کہ چینی لوگوں کی آنکھیں چھوٹی ہوا کرتی ہیں ۔ تقریبا ًچار سال کی عمر میں ہی *مینا کماری* نے فلموں میں اداکاری کرنی شروع کر دی تھی۔ پرکاش پکچرس کے بینر تحت بنی فلم *’’لیدر فیس‘‘* میں ان کا نام *بیبی مینا* رکھا گیا۔اس کے بعد مینا نے *’’بچوں کا کھیل‘‘* میں بطور اداکارہ کام کیا۔ اس فلم میں انہیں *’’ مینا کماری‘‘* کا نام دیا گیا۔
*مینا کماری* کو فلموں میں اداکاری کرنے کے علاوہ شعرو شاعری کا بھی بے حد شوق تھا۔ اس کیلئے وہ *’’ نازؔ ‘‘* تخلص لکھتی تھیں۔ مینا کماری کے شوہر کمال امروہی پیار سے انہیں *’’منجو‘‘* کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ اپنی سنجیدہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں میں خاص جگہ بنانے والی مینا کماری نے *31 مارچ 1972* کو دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ اپنی بہترین اداکاری سے شائقین کا دل جیتنے والی *’’ملکہ جذبات‘‘* مینا کماری کو ان کے والد بیٹے کی چاہ میں ہوتے ہی یتیم خانے چھوڑ آئے تھے۔ 1939 میں بطور چائلڈ سٹار مینا کماری کو وجے بھٹ کی فلم ’’لیدر فیس ‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔1952 میں مینا کماری کو وجے بھٹ کی ہدایت میں ہی *’’بیجو باورا ‘‘* میں کام کرنے کا موقع ملا۔فلم کی کامیابی کے بعد مینا کماری بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئیں
*معروف شاعرہ مینا کماری نازؔ کے منتخب اشعار..*
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
-----
*آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا*
*جب میری کہانی میں وہ نام نہیں ہوتا*
-----
عیادت کو آئے شفا ہو گئی
مری روح تن سے جدا ہو گئی
-----
ہنسی تھمی ہے ان آنکھوں میں یوں نمی کی طرح
چمک اٹھے ہیں اندھیرے بھی روشنی کی طرح
-----
کہیں کہیں کوئی تارہ کہیں کہیں جگنو
جو میری رات تھی وہ آپ کا سویرا ہے
-----
تیرے قدموں کی آہٹ کو یہ دل ہے ڈھونڈتا ہر دم
ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے
-----
*عیادت  ہوتی  جاتی  ہے  عبادت ہوتی  جاتی  ہے*
*مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے*
-----
یوں تیری رہگزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے۔