Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 25, 2019

تصوف سے مناسبت۔!!!!


از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ / صدائے وقت / بذریعہ ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
بعض لوگوں كے لئے  اہل تصوف كے افكار ونظريات  پرميرى تنقيديں  گرانى كا باعث ہيں، ميرے شاگرد ، دوست اور ساتهى مجه سے كہتے رہتے ہيں كه  ان حضرات كو آپ كے خيالات كا صحيح علم نہيں، اس لئے مجهے اس موضوع پر وضاحت سے كچه لكهنا چاہئے،  ميرے كرم فرما مولانا مسعود عزيزى صاحب كا اصرار ہے كه  ميں  ان  مشايخ  كے نام بهى  لكهوں جن سے مجهے تصوف  كے طرق وسلاسل ميں اجازت حاصل ہے ، ميرے ايك دوسرے كرم فرما مولانا ظہور حسينى صاحب بهى اس خيال  كے مؤيد ہيں، غور وفكر كے بعد مناسب معلوم ہوا كه اس خير خواہانه مشوره كو قبول كيا جائے اور   اس موضوع پر اپنے تجربات و آراء من وعن پيش كر ديئے جائيں:
ميرا تعلق  ہندوستان ميں جمدہاں نامى ضلع جونپور كے ايك گاؤں سے ہے، جونپور ايك زمانه ميں سہرورديوں، شطاريوں اور چشتيوں كر مركز رہا ہے، بعد ميں بالخصوص سيد احمد شہيد رحمة الله عليه كے زير اثر نقشبندى سلسله بهى يہاں پهيلا، بيسويں صدى كے شروع ميں پورے ہندوستان كى طرح يوپى كے مشرقى اضلاع پر بهى مولانا رشيد احمد گنگوہى اور مولانا اشرف على تهانوى رحمة الله عليهما كے  اثرات پڑے، ميرے گاؤں سے قريب مانى كلاں ميں مولانا گنگوہى كے تلميذ رشيد علامۂ وقت مولانا ماجد جونپورى متوطن تهے،  مولانا تهانوى كے تين جليل القدر خلفاء نے اس علاقه ميں عظيم اصلاحى وتربيتى  كوششيں كيں، ايك مولانا محمد عيسى اله آبادى، دوسرے مولانا شاه عبد الغنى پهولپورى، تيسرے مولانا شاه وصى الله فتحپورى رحمة الله عليهم ، شاه عبد الغنى صاحب نے سرائے مير ميں مدرسه بيت العلوم قائم كيا تها، جہان ميرے پهوپها عالم صالح ومتقى مولانا عبد القيوم صاحب بكهراوى رحمة الله عليه مدرس تهے، اور وہيں ميرے عم بزرگوار  اور والد محترم مد ظلهما العالى نے قرآن كريم حفظ كيا تها، مجموعى طور پر اس خطے ميں شاه وصى الله صاحب فتحپورى ثم اله آبادى   رحمة الله عليه كا اثر زياده تها، ان كے خليفۂ اجل مولانا عبد الحليم صاحب رحمة الله عليه نے مانى كلاں كے مدرسۂ ضياء العلوم كو ترقى دى تهى، بعد ميں انہوں نے گورينى ميں مدرسۂ رياض العلوم كى تاسيس كى، ميرے گاؤں كے مفتى محمد حنيف صاحب رحمة الله عليه  نے  بغرض تعليم وتدريس تقريبا بيس سال شاه صاحب كى صحبت ميں  گزارے تهے، ان كو شاه صاحب سے خلافت بهى حاصل تهى، گاؤں كے كئى لوگ شاه صاحب سے بيعت تهے اوراسى سلسله ميں اله آباد ان كى آمد ورفت تهى، ان ميں ميرے والد صاحب بهى شامل تهے۔
گهر ميں اور گاؤں كى جامع مسجد ميں تصوف كى اہم كتابيں تهيں جن كا  ميں نے مطالعه كيا، حكيم الامت مولانا اشرف على تهانوى اور مصلح الامت شاه وصى الله فتحپورى كى تصنيفات بار بار پڑهيں، مولانا تهانوى كى بہشتى زيور مستقل مطالعه ميں رہتى تهى، اور ميں اپنے گهر ميں اسے پڑهكر سناتا بهى تها، ابتدائى فارسى وعربى كى تعليم مدرسه ضياء العلوم ميں ہوئى جہاں تصوف كا چرچا تها، وہيں تصوف كے  احوال  ورسوم ومقامات كى معلومات حاصل كى،  مولانا تهانوى كى تعليم الدين ہمارے نصاب ميں داخل  تهى، جسے اچهى طرح پڑها، اور تصوف كى اصطلاحات سے  مزيدواقفيت ہوئى۔
ندوه آنے كے بعد فضيلت كے سالوں ميں شايد سنه 1982 يا اس كے آس پاس رائے بريلى جاكر اپنے دوست آفتاب عالم ندوى صاحب كے ساته حضرت مولانا ابو الحسن على ندوى سے بيعت كى، حضرت مولانا نے  امام غزالى كى كيميائےسعادت، اور مولانا تهانوى كى تربيت السالك پڑهنے كى تاكيد كى، كيميائے سعادت سے مناسبت نہيں پيدا ہوئى،  البته تربيت السالك ميں دل لگا، شايد مولانا تهانوى كى تصنيفات ميں سب سے زياده مؤثر تربيت السالك  ہے، اور آج تك ميرے مطالعه ميں ہے، انقلاب انگيزى ميں اس پايه كى بہت كم كتابيں ہيں، حضرت مولانا رحمة الله عليه كے انتقال كے بعد آپ كے جانشين برحق استاد محترم حضرت مولانا سيد محمد رابع حسنى ندوى دامت بركاتہم سے استرشاد كا تعلق استواركيا۔
ندوه ميں قيام كے دوران مولانا محمد احمد پرتاپگڑهى  رحمة الله عليه سے بهى استفاضه كى نسبت قائم كى، مولانا كے ديوان كا مطالعه كيا، ان كى ايك نظم كا عربى مين ترجمه كيا ، يه ترجمه "الرائد "ميں شائع ہوا،  اس كے بعدمجهے مولانا نے ايك گرامى نامه بهى تحرير فرمايا اور اپنى دعاؤں سے نوازا، كئى بار مولانا كے يہاں اله آباد حاضرى ہوئى، ندوه كے قيام كے دوران مولانا ابرار الحق رحمة الله عليهم سے بهى فيضيابى كا موقع ملا،  بار بار ہردوئى جانا ہوا، آكسفورڈ ميں قيام كے بعد بهى انگلينڈ اور مكه مكرمه ميں مولانا كى مجلسوں ميں شركت كى۔
آكسفورڈ ميں تقريبا بيس سال ہندوستان كے علماء ومشايخ كے حالات اور سلاسل تصوف پر تحقيق كى، بحث وتحقيق كے اس سفر سے تصوف كى علمى معرفت حاصل ہوئى، اور خدا كا شكر ہے كه اس موضوع پر عربى، فارسى، اردو اور انگريزى ميں ہزاروں صفحات كا مطالعه كيا۔
ميں نے كثرت سے مشرق ومغرب كے علماء ومشايخ سے اجازتيں ليں، بعض حضرات نے تصوف كے سلسلوں كى بهى اجازت دى، جن لوگوں نے متعين طور پر تصوف ميں اجازت دى ان ميں نماياں ترين ہيں: بر صغير سے 1-  حضرت مولانا شاه عون احمد قادرى رحمة الله عليه، 2- مولانا مولى بخش لاشاري سندهى، جن كو سيد العارفين الحافظ محمد صديق البرجوندوي السندي سے، اور مفسر قرآن مولانا  احمد على لاہورى كے شيخ تاج محمود أمروتى سندى سے اجازت حاصل ہے، 3-  مولانا جلال الدين جمالي سندهى، جن كو مولانا احمد على لاهورى كے شيخ مولانا حماد الباليجوي سے اجازت حاصل ہے، شام سے: 4-   شيخ محمد مطيع الحافظ ، 5-  شيخ محمود محمد الدرة شيخ الطريقة الرفاعية ، نائيجيريا سى:  6-  شيخ أبو الفتح أحمد علي (شيخ الطريقة التيجانية ،خليفة شيخ الإسلام إبراهيم بن الحاج عبد الله إمام الطريقة التيجانية في إفريقيا) ، 7-  اور شيخ محمد أبو بكر غرب ،جن كو اجازت حاصل ہے الشيخ التيجاني بن الشيخ عبد الهادي سے۔
تصوف كے سلسله ميں ميرے خيالات ميں زياده تبديلى امام ابن الجوزى رحمة الله عليه كى صيد الخاطر اور تلبيس ابليس پڑهكر ہوئى، امام ابن حزم ظاہرى اور امام ابن تيميه  رحمة الله عليهما كى تصنيفات كے مطالعه نے تصوف كى كمزوريون كو بے نقاب كرديا، اور اس سلسله ميں كسى غلو سے محفوظ كرليا، مولانا حميد الدين  فراہى رحمة الله عليه كے زير اثر قرآن كريم سے ايك ربط قائم ہوا، اور اس ميں الحمد لله اضافه ہى ہے، كتاب ربانى  كے سامنے كسى انسانى تعليم كى كوئى حقيقت نظر نہيں آتى۔
اس ميں شك نہيں كه خيالات ميں اس تبديلى كے باوجود  مجه پرتصوف كى كتابوں كے مطالعه اور اعلام تصوف كى ہمنشينى كا اثر اب تك باقى ہے،  مثنوى مولانا روم اور مولانا تهانوى كى تصنيفات سے ميرا رشته مضبوط ہے، اور اب بهى اہل علم وصلاح صوفيه سے استفاده كى كوشش كرتا ہوں۔
تصوف كى حقيقت زہد ہے، ليكن افسوس كه آج كل اكثر  دعويداران تصوف اسى وصف سے محروم ہيں، اور كس كو انكار ہوسكتا ہے كه تصوف كے مقامات (صدق، زہد، صبر، توكل، تسليم ورضا وغيره) تصوف پر  موقوف نہيں؟ اگر انسان كو قرآن كريم اور سنت كے اتباع سے يه مقامات حاصل ہوجائيں تو تصوف كى كوئى ضرورت نہيں، اور تصوف كے احوال ورسوم كا قرب الہى ميں كوئى دخل نہيں، بلكه ان رسوم نے بدعات ومحدثات كے وه دروازے كهول ديئے ہيں جن كا بند كرنا بہت مشكل ہے۔
ميرى تنقيديں تصوف كے مقامات پر نہيں، بلكه رسوم واحوال پر ہيں، ميرے خيال ميں غالى صوفيه كے شطحات كا اسلام سے كوئى تعلق نہيں، اور خاص طور سے وحدت الوجود كے نظريه نے الحاد وكفر كو جس طرح خدا كے مقدس اور پاك دين كا جز بناديا ہے اس پر كوئى صاحب غيرت مسلمان خاموش  نہيں ره سكتا، استاد محترم شيخ الحديث حضرت مولانا  محمد يونس صاحب مظاہرى رحمة الله عليه وحدت الوجود كے قائلين كے خلاف تيغ برہنه تهے، اور ان كى تكفير ميں كسى رعايت كے روادار نہيں تهے۔
آخر ميں الله تعالى سے دعا ہے كه ہميں تعصب اور اندهى تقليد سے محفوظ ركهے،  ہميں ايمان واسلام كى دولت سے نوازے، قرآن كريم وسنت كو ہمارا امام بنائے، اور ہميں اپنى خوشنودى كا طالب بنائے، آمين۔