Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 15, 2019

ایودھیا تنازعہ۔۔۔۔۔۔سردار پٹیل کا موقف کیا تھا۔


تحریر:اُروِش کوٹھاری
ترجمہ:نایاب حسن قاسمی۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
جب کبھی مسئلۂ کشمیر پر بات ہوتی ہے،تو کچھ ہندستانی حسرت و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سردار پٹیل کو یاد کرتے ہیں کہ اگر وہ مزیدزندہ رہتے یاو زیر اعظم ہوتے ،تومسئلۂ کشمیر حل ہوجاتا،مگر جب بات ایودھیاتنازع کی ہوتی ہے،اس وقت یہ لوگ سردار پٹیل کو شاید و باید ہی یاد کرتے ہیں۔
ایسے وقت میں ،جبکہ عدالتِ عظمی نے رام مندر۔بابری مسجد تنازع کو سلجھانے کے لیے مصالحت اور ثالثی کی شروعات کی ہے،ایسے میں ہمیں یہ بھی جاننا اور یاد کرنا چاہیے کہ آزاد ہند کے پہلے وزیر داخلہ و نائب وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل بھی اس تنازع کو ’’پرامن طریقے سے اور ہندومسلم دونوں طبقات کے باہمی تحمل و برداشت اور خیرسگالی کے جذبے کے ساتھ‘‘ حل کرنا چاہتے تھے۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ سابق وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے ہم خیال تھے،سردارپٹیل جنھیں ایک ہندوہردے سمراٹ کے طورپر جانا جاتاہے،جس نے سومناتھ مندر تعمیر کروایا،وہ ایودھیا تنازع کو سیاسی ایشو بنائے جانے کے خلاف تھے؛بلکہ درحقیقت وہ اس معاملے کو مسلمانوں کی رضامندی کے بغیرحل ہی نہیں کرنا چاہتے تھے۔(Sardar Patel146s Correspondence, Edited by Durga Das, Vol.9)
قبرستان کا واقعہ:
یہ تنازع دراصل نومبر 1949ء میں شروع ہوا،جیسا کہ’’ہریجن‘‘میں اس کے ایڈیٹر اور سینئر گاندھیائی فلاسفر کشور لال مشرووالانے واضح طورپر بیان کیاتھا،انھوں نے اس سلسلے میں اکشے برہمچاری کا تفصیلی حوالہ دیا تھا،برہمچاری ایودھیا کے سادھو اور ضلع کانگریس کمیٹی کے سکریٹری تھے۔ان کے بیان کے مطابق13؍نومبر1949ء کوایودھیا کے قبرستان کی کچھ قبریں اکھاڑدی گئیں،وہ خود جاے واقعہ پر پہنچے۔’’قبرستان کے بیچوں بیچ ایک عمارت تھی،جسے مسلمان قناطی مسجد کے نام سے جانتے تھے،وہاں ایک سٹیج بنادیا گیا تھا‘‘۔ (Harijan, August 19, 1950, p. 212. Muslims of Ayodhya, K. G. Mashruwala)
مسلمانوں نے اس معاملے میں سٹی مجسٹریٹ سے معمولی شکایت کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،برہمچاری بھی مجسٹریٹ سے ملے،مگر ان کی شکایت پر ضلع انتظامیہ کی جانب سے کوئی احتیاطی کارروائی تو نہ ہوئی،البتہ15؍نومبر کو گھرکے اندراکشے برہمچاری پر جان لیوا حملہ کردیاگیا۔
قبروں کے اکھاڑے جانے کے بعد وہاں پر مسلسل نو دن تک راماین کاجاپ کیاگیا،اس کے بعد کئی دنوں تک بابری مسجدکے سامنے میلہ لگارہا،لوگوں کو جمع کرکے دعوتیں کی گئیں،کھانے تقسیم کیے گئے۔برہمچاری کے بیان کے مطابق’’ اس وقت لوگوں کو مسجد کے پاس اکٹھاکرنے کے لیے جارحانہ پروپیگنڈہ کیاگیا،تقریریں کی گئیں،جن میں یہ بتایاگیا کہ بابری مسجد کو توڑ کر رام مندر بنایاجائے گا،اس کے بعد مزید کئی قبروں اور مذہبی عمارتوں کو توڑکر وہاں مورتیاں نصب کی گئیں‘‘۔(Harijan, 19 August 1950, p. 212. Muslims of Ayodhya, K.G. Mashruwala)
باوجودیکہ شہر میں دفعہ144؍نافذتھی،مجسٹریٹ نے برہمچاری کو23؍دسمبر1949ء کو اشارتاً بتایاکہ’’گزشتہ رات بابری مسجد کے اندررام کی مورتی رکھ دی گئی ہے، جس کی اسے خبر ہے اور اگر وہاں سے مورتی کو ہٹاگیا تو حالات آسانی سے بگڑ سکتے ہیں‘‘۔
اگلے دن نہایت زوروشور سے اعلانِ عام کیا گیا کہ بابری مسجد کے اندربھگوان رام پرکٹ ہوئے ہیں اور لوگوں کو درشن کے لیے بلایاگیا،لوگ جمع ہوئے اور اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاکہ’’چوں کہ پاکستان میں ایک بھی مندر نہیں چھوڑاگیاہے؛اس لیے ہم لوگ بھی ایودھیا میں ایک بھی مسجد یا قبرستان نہیں رہنے دیں گے‘‘۔ان کی تقریروں میں مہاتما گاندھی،نہرو اور کانگریس حکومت کو بھی نشانہ بنایاگیا۔برہمچاری اپنے بیان میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس ہنگامے کو بھڑکانے میں کئی پرانے کانگریسی بھی شامل تھے۔’’بلکہ کانگریس کے کئی ممبرانِ اسمبلی بھی اس قسم کی غیر ذمے دارانہ باتیں کررہے تھے‘‘۔(Harijan, 19 August 1950, p. 212. Muslims of Ayodhya, K. G. Mashruwala)
ایودھیاتنازع پر سردار پٹیل کا خط:
اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرونے یوپی کے وزیر اعلیٰ جی بی پنت کو ٹیلی گرام بھیجا،ساتھ ہی انھیں اس وقت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سردارپٹیل نے بھی ایک خط لکھا،ان کی ہدایات بالکل واضح تھیں،نہرو کے ٹیلی گرام کا ذکر کرنے کے ساتھ انھوں نے خط میں ان واقعات کی ٹائمنگ کے سلسلے میں اپنی تکلیف کا اظہار کیا؛کیوں کہ تقسیم کے زخم ابھی بھرناشروع ہی ہوئے تھے کہ یہ سلسلہ شروع ہوگیاتھا۔انھوں نے واضح طورپر لکھاکہ ’’کسی بھی گروپ کی طرف سے اس معاملے کو سیاسی مفادکے لیے استعمال کیاجانا نہایت بدقسمتی ہوگی‘‘۔انھوں نے لکھا کہ’’یہ مسئلہ ہندواور مسلمانوں کے باہمی بھائی چارے،تحمل و برداشت اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت حل کیاجانا چاہیے‘‘۔
پٹیل نے اپنے خط میں وضاحت کے ساتھ لکھاتھا کہ’’ اگر ہم مسلمانوں کو کھلے دل کے ساتھ اپنے ساتھ شریک کریں،تو یہ مسئلہ یقینی طورپر باہمی رضامندی سے حل ہوجائے گا،طاقت کے ذریعے اس کو حل کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے،تو پھر لااینڈآرڈرفورسزکے ذریعے ماحول کو پرامن رکھنے کے لیے ہر قدم اٹھایاجائے،زیادتی و زبردستی پر مبنی کوئی بھی عمل برداشت نہیں کیاجائے گا‘‘۔(Sardar Patel146s Correspondence, Edited by Durga Das, Vol.9, p. 310-11)
سردار پٹیل اس مسئلے کو ایک’’زندہ موضوع‘‘بنانے کے سراسر خلاف تھے،مگر وہ اس کے پسِ پردہ چلنے والی رام مندر تحریک کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے یا اس کی انھیں بھنک نہیں لگ سکی۔اکشے برہمچاری نے اس طرح کی صورتِ حال کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے22؍اگست 1950ء سے مون برت شروع کردیا،جو32؍دنوں کے بعد یوپی کے وزیر اعلیٰ جی بی پنت،ونوبابھاوے اور کشور لال مشرووالا کی حالات پر قابو پانے کی یقین دہانی کے بعد ختم ہوا۔ (Harijan, September 30, 1950, p. 262, Shri Akshaya Brahmachari146s Fast)
اس وقت کے یوپی کے وزیر داخلہ لال بہادر شاستری نے برہمچاری جی کو لکھا’’حکومت نے ایودھیاکے حالات کو قابو کرنے کے سارے اقدامات کیے ہیں،اگر اب بھی کوئی کسر ہوگی،تو ہم اسے دور کرنا چاہیں گے،اس میں ہر شخص کے تعاون اور مدد کی ضرورت ہے،سب سے ضروری یہ ہے کہ وہاں ایسا ماحول بنایاجائے کہ تمام شہری اپنی زندگی پرامن طریقے سے،بھائی چارے کے ساتھ گزاریں ،انھیں کوئی خطرہ نہ لاحق ہو‘‘۔(Harijan, September 30, 1950, p. 262)
ایودھیااب ایک سیاسی ایشوہے،مذہبی نہیں:
گزشتہ سالوں کے دوران فرقہ وارانہ سیاست کی اُٹھان نے رام مندر کے ایشوکومبینہ طورپر ہندونشاتِ ثانیہ کی علامت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کا ذریعہ بنادیاہے۔جب کچھ گاندھی وادیوں(جن میں گجرات کے مشہور صحافی رمیش اوجھا بھی شامل تھے)نے 1990ء میں مدھولمے جیسے ممتاز سوشلسٹ لیڈرکی رہنمائی و تعاون سے اس تنازع کے مثبت اور تعمیری حل کی تحریک شروع کی،تو اس وقت بی جے پی کے سینئر رہنما لال کرشن اڈوانی نے انھیں کہاتھا کہ وہ اپنا وقت برباد نہ کریں؛کیوں کہ رام مندر کوئی مذہبی ایشو نہیں ہے،یہ ایک سیاسی ایشو ہے۔انھوں نے یہ بھی کہاتھا کہ یہ ملک کے ہندووں کو فرقہ وارانہ خطوط پر مجتمع کرنے کا اچھا موقع ہے،جسے ہم گنوانا نہیں چاہتے۔ (Sunday supplement, Sandesh, 10-3-19, p.8)
گجراتی میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ:رام کے نام سے پتھر بھی تیرنے لگتے ہیں۔یہ مقولہ ہمیں رام مندر۔بابری مسجد کے تنازع کے ذیل میں بھی اچھی طرح سمجھ میں آتاہے کہ اس کی آڑ لے کر کتنے ہی لوگوں نے اپنا سیاسی کرئیر بنایا اورمسلسل اس موضوع کو اچھال کر قومی سطح کے لیڈر بن گئے۔
(اصل مضمون دی پرنٹ ڈاٹ اِن پر شائع ہوا ہے)