Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 11, 2019

۔ بابری کیس ۔۔۔مصالحت کاروں میں روی شنکر کی شمولیت حیرت انگیز

پیس فاونڈیشن آف انڈیا کے جنرل سکریٹری مفتی اعجاز احمد قاسمی کا بیان۔
نئی دہلی:۱۱؍مارچ(صداۓوقت)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
واضح دلائل اور مضبوط موقف کے ساتھ بابری مسجد کا مسئلہ عدالت عظمی میں زیر سماعت ہے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین سینئر وکلا کی مدد سے قانونی جنگ کو انجام تک پہنچانے کے لیے شب وروز کوشاں ہیں، دریں اثنا عدالت عظمی کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ثالثی کمیٹی کی تشکیل ملک کے مفاد میں ہے اور ہم سب اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اگر ملک میں امن وسلامتی اور باہمی رواداری کی فضا کو خوش گوار بنانے کے لیے گفت وشنید کے ذریعہ یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو بہت اچھی بات ہوگی۔ان خیالات کا اظہار پیس فاؤنڈیشن آف انڈیا کے جنرل سکریٹری مفتی اعجاز ارشد قاسمی نے پریس کو جاری اپنے ایک بیان میں کیا، انہوں نے بطور ثالث شری شری روی شنکر کے انتخاب پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی وکالت کرتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں ملک گیر سطح پر وہ مہم بھی چلا رہے ہیں؛ ایسے میں ان کا ثالثی کردار بھلا کیسے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہوسکتا ہے۔ بطور روحانی پیشوا شری شری کی عالمی شخصیت سے انکار نہیں ہے؛ لیکن ایودھیا تنازعہ میں ان کا رویہ ایک فریق کے تئیں ہمیشہ منفی رہا ہے؛ اس لیے بطور ثالت انہیں خود ہی اس کمیٹی سے الگ ہوجانا چاہیے۔ ثالثی کردار کے لیے دونوں فریق کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔بہت سی مسلم تنظیموں نے شری شری پر بابری مسجد کے تعلق سے بے اعتمادی کا اظہار کیا ہے،ایسے میں بات چیت کی کوشش سبو تاز بھی ہوسکتی ہے۔مفتی اعجاز ارشد قاسمی نے کہا کہ شری شری سے خود ان کی بارہا ملاقات رہی ہے اور انہوں نے کبھی بھی بابری مسجد کی تعمیر نو کے تعلق سے دلچسپی نہیں دکھائی ہے ، بلکہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے نظر آئے ہیں کہ وہ بابری مسجد سے دستبردار ہوجائیں۔آج مولانا سلمان ندوی جس طرح رام مندر کی تعمیر کے حق میں ہیں، وہ دراصل شری شری کی ہی جادوئی شخصیت اور محنت کا نتیجہ ہے۔اور اس طرح کی مہم وہ پوری مضبوطی کے ساتھ ملک کے علماء اور دانشوران کے درمیان چلا رہے ہیں؛ اس لیے ان سے بابری مسجد کے تعلق سے غیر جانب دارانہ رویہ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
مفتی اعجاز ارشد قاسمی نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت پر رضامندی کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہ بابری مسجد کے تعلق سے مسلمانوں کے اجتماعی موقف سے کسی بھی طور پر انحراف کیا جائے گا۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، جس میں انصاف ومساوات کے ساتھ مذہبی آزادی ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ بابری مسجد کی شہادت آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے اور اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر انصاف کا خون اور ملک کے سیکولر نظام کو مجروح کرنا ہوگا؛ جو اس ملک کے ہر انصاف پسند شہری کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔بابری مسجد سے دست برداری کا مطالبہ کرنے والوں کو یہ جاننا ہوگا کہ مسجد کی جگہ’’ وقف‘‘ ہے، جسے بیچنے یا کسی کو تحفہ میں دینے کی اجازت نہ تو اسلامی قانون دیتا ہے اور نہ ہی ملک کے قانون میں اس کی گنجائش ہے۔جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، وہ پہلے ملک کے آئینی نظام کو سمجھیں اور پھر وقف ایکٹ کا بغور مطالعہ کریں۔