Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 16, 2019

رقص شیطانیت۔

از/ شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
کہا جاتا ہے ایک شیر کسی آبشار پر پانی پی رہا تھا اچانک اس کی نظر ایک بکری کے بچے پر پڑی جو نشیبی حصے میں اپنی پیاس بجھا رہا تھا۔
شیر نے دہاڑتے ہوئے کہا۔
تمہاری جرأت کیسے ہوئی میرے پانی کو جھوٹا کرنے کی۔
بچے نے عرض کیا حضور،
آپ مجھ سے بہت اوپر ہیں'اور میں بالکل نیچے ہوں،پانی آپ سے ہوکر میرے پاس آرہاہے۔پھر کس طرح جھوٹا ہوسکتا ہے۔
شیر نے یہ سن کر بلند آواز سے چیخا۔گستاخ ،
زبان درازی کرتاہے،یہ کہ اسے ہڑپ گیا۔
یہ کہنے کو ایک قصہ ہے'لیکن اپنے اندر بہت سے پیغامات اور عبرتوں کے خزانے رکھتاہے، اس وقت عالمی طاقتوں کا جو سلوک امت مسلمہ کے ساتھ ہے'اس پر یہ قصہ مکمل طور سے صادق آتا ہے'۔
اس دنیا میں ہر دور میں طاقتوں کی اجارہ داری قائم رہی ہے آج بھی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ قائم ہے'۔
دنیا کے قوانین،ضوابط ،اصول وسسٹم کے ہنگامے کاغذی
پھولوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، روئے زمین پرانسانوں نے کبھی انسانی حقوق کو انسانیت کی بنیادوں پر نہیں دیا جب بھی یہ حق فراہم ہوا طاقت کی بنیاد پر ہوا کہ دنیا مظلوموں کی زبان سے ناآشنا ہے'یہ صرف طاقت کی زبان جانتی ھے
وسائل و ذرائع اور طاقتوں کے اسباب سے جب تک ملت لیس رہی،ایک مرکز پر متحد رہی ساری دنیا انصاف وعدل کی دہائی دے رہی تھی۔
مگر جب ملت کا شیرازہ بکھرا، امت مسلمہ خزاں کے پتوں کی طرح منتشر ہوئی ،اسلام دشمن طاقتیں مضبوط ہوئیں،خود ساختہ قوانین کے علمبرداروں کے ہاتھوں میں عالمی زمام اقتدار آیا،  تو عدل وانصاف کی حقیقتوں کو بدل دیا گیا۔ انسانیت کے پیمانے تبدیل کردئیے گئے،  عالمی مساوات اور انسانی حقوق ایک خاص قوم کے لئے مخصوص ہوگئے۔
انسانیت کے تحفظ کے لئے اقوام متحدہ،ہیومن رائٹس،وجود میں آئیں مگر ان کا کام اس سے زیادہ نہیں تھا کہ مغربی طاقتوں کی جارحیت کے لئے راستہ ہموار کردیں۔
آج نیوزیلینڈ میں جو المناک حادثہ پیش آیا ہے'،جس طرح منصوبہ بندی سے کرائسٹ چرچ کے علاقے میں موجود مساجد میں نہتے مسلمانوں پر گولیوں کی بارش کرکے انہیں خاک وخون میں نہلا دیا گیا ہے،اور اس وحشیانہ درندگی کے ذریعے انسانیت کے دامن کو تار تار کیا گیا ہے۔
اس پر عام طور سے پوری دنیا کے حکمرانوں اور تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی درحقیقت اسی طاقتوں کے عدم توازن کا نتیجہ ہے، جس کا نصب العین اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کو روئیے زمین سے ختم کردیا جائے،یا انہیں بالکل بے دست وپآ کردیا جائے،
ورنہ آج دنیا کا یہ دہرا پیمانہ نظر نہیں آتا کہ صرف شک کی بنیادوں پر پورے ملک پوری سلطنت کو زیر وزبر کرنے والی قوتوں کی پیشانیوں پر اس المناک قتل کے بعد قاتل کے اعلانیہ ثبوت کے بعد بھی رنج کی علامت دکھائی دیتی ہے'نہ ہی اسے دہشت گردی کا معاملہ نظر آتا ہے'۔
انہیں اچھی طرح معلوم ہے'کہ یہ قوم ہماری دست نگر ہے'،ان کے پاس دفاع کے لئے کچھ نہیں ہے،یہ اپنی معاش سے لیکر تحفظ تک ہمارے محتاج ہیں'،
اس لیے اگر ہمارا ہر عمل اور رد عمل ان کے حق میں ایک قانون کی طرح ہے'اور انہیں اسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے تو یہ دستورِ دنیا ہے'جس پر کوئی تعجب نہیں ہے۔
لیکن ایک عام آدمی اس عمل کو دیکھ کر حیرت کے حصار سے کیوں کر باہر آئے کہ انسانی حقوق کی چیخوں اور میڈیا پر علمبردار ہونے کے دعوے کے باوجود یہ کیسی منافقانہ روش،اور کیسی دہری پالیسی ہے'کہ پوری دنیا میں اگر کہیں مسلمان اپنے حق کے آواز اٹھائیں تو دہشت گرد اور مغرب پوری سلطنت اور بیک وقت چار چار سو بچوں کو قتل کردے تو وہ انسانیت کا محافظ۔
ملت اسلامیہ کے علاوہ اقوام عالم میں ہمیشہ انصاف ودیانت مادی قوتوں کی کنیز رہی ہے،
یہاں بھی وہی تاریخ دہر دی جائے گی،اور قاتل کی دہشت گردی،اور اس کے پیچھے ساری منصوبہ بندیوں کے نیٹ ورک کو ذھنی توازن کا معاملہ قرار دے کر اندھیروں میں غرق کردیا جائے گا۔
اور مغربی میڈیا سے لیکر ملکی ذرائع ابلاغ تک اسے ایک سرسری خبر دے کر خاموش ہوجائیں گے۔
کہ مرنے والی قوم مسلم ہے'،اور اس وقت مسلمانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے، کہ غیروں کے سامنے قیمت منوانے کے لیے کرداروں کی ضرورت ہوا کرتی ہے'
اور ملت کا دامن اس سرمائے سے یکسر خالی ہے،
ستم یہ ہے'کہ اس زوال کے اسباب،اور مظلومانہ حالت کے راز ہائے سربستہ کو جاننے کے لئے بھی وہ روادار نہیں ہے۔