Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, March 15, 2019

نمازیوں کی شہادت کے ذمے دار نسل پرست حکمراں !!!!


تحریر/شکیل رشید
(صداۓوقت)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
نیوزی لینڈ کی دومسجدوں میں شہید اور زخمی ہونے والے پچاس سے زائد نمازی ’چارلی ہیبڈو‘ کے شاتمین رسولؐ تو ہیں نہیں کہ ان کی شہادت پر سارا یوروپ، ساری دنیا متحد ہوکر ایک مرکز پر جمع ہو، اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف آواز بلند کرے! ان گورے حملہ آوروں میں سے کسی کا نام سعید اور شریف کوچی نہیں ہے کہ انہیںبھی ساری دنیا دہشت گرد کہے۔ اور یہ مسلمان بھی نہیں ہیں یہ تو عیسائی ہیں ، لیکن ساری دنیا، جس طرح تشدد کے  معمولی سے معمولی واقعے پر بھی صرف شک کی بنیاد پر ’مسلم دہشت گرد‘ یا ’مسلم دہشت گردی‘ کا شور بلند کردیتی ہے، انہیں نہ ’عیسائی دہشت گرد‘ کہے گی اور نہ ہی ’عیسائی دہشت گردی‘ کا شور مچائے گی۔ یہ تو اللہ کے آگے سربسجود مسلمان تھے، ان پر اندھا دھند گولی باری کرنا تو ’وائٹ سپریمسٹوں‘یا ’سفید فام تفوق پسندوں‘ کا ’پیدائشی حق‘ ہے!
جی ہاں! یہ گولی باری نہ ہوتی اگر رنگ اور نسل کے نام پر اپنی بالا دستی کےلیے عراق، افغانستان، لیبیا، یمن اور شام وفلسطین کو کھنڈر بنادینے والی ’اقوام سفید‘مسلمانوں کے خلاف ساری دنیا میں نفرت کی ہوا پھیلانے پر اپنا سارا زور نہ لگادیتی اور داڑھی، ٹوپی او رکرتے پائجامے میںملبوس ایسے مسلمانوں کی جو دین ومذہب کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں، شبیہ ایک شدت پسند، کٹر، انتہا پسند اور دہشت گرد کی نہ بنادیتی۔ اور ساری دنیاکو ’اسلاموفوبیا‘ میں مبتلا نہ کردیتی۔
جی ہاں! نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں میںجمعہ کے روز اپنے رب کے حضور سربسجود مسلمانوں پر یہ گولی باری قطعی قطعی نہ کی جاتی اگر دنیاکی حکومتیں سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی زہر افشانیوں کو، نفرت کی زبان کو اور شرپسندوں کی  مسلمانوں پر حملے کے لیے اُکسانے والی پوسٹوں کو ’بلاک‘ کردیتیں، انہیں پلیٹ فارم نہ دیتیں او رایسے زہریلے اور خطرناک مواد کو نشر اور شیئر کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرتیں۔پر ساری ’اقوام سفید‘ اور ان کے ساتھ ہی تیسری دنیا کے ممالک بھی ’اظہار رائے کی آزادی‘ کے نام پر نسل پرستوں، دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کو ’چھوٹ ‘ دئیے ہوئے ہیں۔ یہ وہ چھوٹ ہے جس سے ’چارلی ہیبڈو‘ اور اسی جیسے دوسروں کو رحمت اللعالمین ﷺ پر زبان درازی کی ناپاک  جسارت حاصل ہوتی ہے۔ لہذا اگر یہ کہاجائے کہ ’اقوام سفید کے دہشت گردوں کے ہاتھوں پچاس سے زائد نمازیوں کی شہادتکے قصور وار رنگ اور نسل کے نشے میں چور سربراہان مملکت ہیںتو غلط نہ ہوگا۔ جب ’چارلی ہیبڈو‘ کی مذموم شرانگیزی پر سعید اور شریف کوچی نے فائرنگ کرکے اس کے عملے کے گیارہ افراد کو ہلاک کیا تھا تب مسلم ممالک نے اظہار رائے کی آزادی کے نام پرحضرت محمدﷺ پر سب وشتم کی مذمت تو کی تھی لیکن دہشت گردی کے خلاف پیرس میں دنیا کے دوسرے سربراہوں کے ساتھ وہ بھی شریک تھے۔ لیکن نیوزی لینڈ میں پچاس سے زائد مسلمان شہید کردئیے گئے ہیں اور دنیا اس بحث میں جٹی ہے کہ یہ ’دہشت گردی‘ ہے یا ’گولی باری‘ ! حالانکہ نیوزی لینڈ کی خاتون سربراہ جیسنڈا آرڈرن نے بھی اور آسٹریلیا کی حکومت نے بھی اس دردناک واردات کو ’دہشت گردی‘ ہی کہا ہے لیکن ابھی بھی ان کے لبوں پر جو دنیا کے سفیدوسیاہ کے مالک ہیں، خاموشی ہے۔  امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا تو حملہ آور ’شیدائی‘ ہے! جی ہاں ! اس نے ٹرمپ سے بہت کچھ سیکھا ہے، نفرت بھی۔
مسجدالنور پر حملہ کرنے والے برینٹن ٹارنٹ نے باقاعدہ سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف زہریلا مواد پھیلا رکھا تھا۔ اس کے مواد سے اس کے ’ارادے‘ خوب عیاں تھے۔ وہ اپنے سرپر کیمرہ لگا کر مسجد کے اندر داخل ہوا تھا تاکہ گولی چلانے کی ویڈیو بناسکے۔ ویڈیو باقاعدہ وائرل ہورہی تھی، اس نے ’پارٹی شروع ہوئی‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ اس نے عورتوں، بچوں اور ضعیفوں تک پر گولیاں برسائیں۔ یہ گولی باری کیوں کی گئی؟ اس سوال کا جواب بہت مشکل نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کو ایک پیغام ہے، ’اقوام سفید‘ کا، نسل پرستوں اور دہشت گردوں کا، فرقہ پرستوں اور تفوق پسندوں کا، جنہیں Skin Keadsبھی کہا جاتا ہے کہ ، تم کہیں بھی محفوظ نہیں ہو۔ ’آئس لینڈ‘ کو دنیا میں امن وامان کی برقراری والے ملکوں میں پہلا مقام حاصل ہے او رنیوزی لینڈ کو دوسرا ۔ مسلمان ایسے ملکوں میں بھی اب امن وچین سے نہیں رہ سکتے، یہ پیغام حملہ آور اور اس کے ساتھیوں نے دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان ممالک میں جو امن کے معاملے میں نیوزی لینڈ سے بہت پیچھے ہیں مسلمان اب مزید ’نشانہ‘ بن سکتے ہیں۔ یہ ’دائیں بازو‘ کے نظریات رکھنے والو ںکا وہ ’گروہ‘ ہے جو ان دنوں ساری دنیا میں سرگرم ہے۔ ہندوستان میں بھی ۔ جی ہاں! برینٹن ٹارنٹ جیسے لوگوں کی ہندوستان میں کمی نہیں ہے۔ یہاں بھی آوازیں اُٹھی ہیں اور لوگوں کو اکسایا گیا ہے کہ مسلمانوں پر گولی باری کردو۔ ساری دنیا کے سامنے یہ سوال ہے کہ اب وہ کیا کرے گی؟ کیا ہمیشہ کی طرح خاموش رہے گی یا دائیں بازو کے دہشت گردوں کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بناکر دہشت گردی کے خاتمے کےلیے سرگرم ہوجائے گی؟ ویسے اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے؛ جیسے پیرس میں ’چارلی ہیبڈو‘ پر حملے کے خلاف ساری دنیا متحد ہوئی تھی، ویسا کوئی اتحاد نظر نہیں آئے گا،اور تو اور مسلم ممالک بھی اس حملے کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوسکیں گے۔