Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, March 12, 2019

یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا۔!!!


ہندوستان کے دستور کو مرتب کرنے کے بعد *ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر* نے کہا تھا کہ؛؛؛
*اس دستور کے ذریعے سے صرف وہی قومیں اپنے حقوق حاصل کر سکیں گی جو حکومت میں حصےدار رہیں گی*
________________________
          |  (صداۓوقت)|
اس وقت ہندوستان میں عام انتخابات بالکل قریب آچکے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب و ذاتیں اپنے زیادہ سے زیادہ افراد کو کس طرح کامیاب کریں اس فکر میں لگے ہوئے ہیں -
الگ الگ مقامات پر الگ الگ ذات اور سماج کے لوگ مختلف سیاسی پارٹیوں اور انکے لیڈران کے ساتھ بیٹھ کر بارگینگ پاور Bargaining power کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں -
اس کی ایک سادہ مثال مہاراشٹر میں پرکاش امبیڈکر کی ہے ایک وقت تھا جب انہیں آکولہ کی ایک سیٹ سے زیادہ دینے کے لئے کانگریس تیار نہ تھی لیکن انہوں نے سیاسی دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے، مسلم، دلت، دھنگر ،آدیواسیوں کو ساتھ ملا کر ایک سیاسی پلیٹ فارم بہوجن ونچت آگھاڑی قائم کرکے کانگریس کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا - کل تک جو کانگرس انہیں ایک سیٹ سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھی وہ ہی اب چار سے پانچ سیٹ آفر کر رہی ہے لیکن پرکاش امبیڈکر بارہ سیٹ پر اڑے ہے، یہ ہوتی ہے بارگینگ پاور اور ایسی ہوتی ہے لیڈر شپ -
سات فیصد یادو اور اکیس فیصد دلت ایک ہوکر آدھی آدھی سیٹ بانٹ لیتے ہیں اور بائیس فیصد مسلمان ہونے کے باوجود سپاSP اور بسپاBSP کے رحم و کرم پر ٹکے ہوئے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ زیادہ سیٹ حاصل کرنے سے بھی محروم رہے جائے...
وجہ صاف ہے کہ ہماری ملی، سماجی اور ذمہ دار تنظیمیں اس اہم ترین وقت میں ملت کی سیاسی رہنمائی کرنے اور اتحاد کی کوششیں تیز کر کے اپنی وقعت اور قیمت کو بڑھانے کے بجائے اپنے آپ میں مگن ہیں، اس میں شدید غفلت مذہبی جماعتوں کے بشمول ہر طرح کی دیگر جماعتیں بھی شامل ہیں ۔
جہاں ایک طرف جماعت اسلامی کشمیر میں پابندی اور فرقہ پرست اینکر ارنب گوسوامی کے ریمارکس کو لیکر پریشان ہے تو مسلم پرسنل لا بورڈ بابری مسجد اور تین طلاق سے آگے نہیں بڑھ پارہا ہے - جمعیت علماء حسبِ معمول جلسے جلوس میں مگن ہے وہیں دوسری تنظیموں کا ذکر نہ ہی کریں تو بہتر ہے -
انفرادی طور پر کچھ افراد کو چھوڑ دیں تو باقیوں کا حال بھی ملی تنظیموں سے مختلف نہیں ہے، علما کا تو جیسے ایک ہی کام بچا ہیکہ وہ یا تو  سلمان ندوی کے بیان پر تبصرہ کریں یا اپنے اپنے حلقوں کی افضلیت ثابت کرنے میں اپنی توانائی ضائع کریں، دوسرا عصری طبقہ ہے وہ یا تو عیش و مستی میں ہے اور اگر کچھ لوگ ان میں ذرا سمجھدار ہیں تو کوئی مندر مسجد تو کوئی فرضیکل اسٹرائک Furzical strike ہی میں الجھا ہوا ہے -
کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ
*جو اعلیٰ سوچ کے حامل ہوتے ہیں وہ نظریات Idias کو  ڈسکس کرتے ہیں، جو درمیانی سوچ رکھتے ہیں انکی گفتگو کا محور حالات ہوتے ہیں، اور نچلی ذہنیت ہمیشہ شخصیت پر بات کرنا پسند کرتی ہے*
آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسوقت ہر شعبے میں ہماری اجتماعیت سے لیکر انفرادیت تک کی ذہانت کا معیار کیا ہے -
حالات کا بہتر طریقہ سے مقابلہ کرنے کے لیے نہ ہماری تنظیموں کے پاس کوئی آئیڈیا ہے نہ فرد کے پاس - اور جن کے پاس کچھ روڈمیپ اور صالح جذبات ہیں تو وہ زندگی جیتنے کی جنگ میں ہی پریشان ہیں، وسائل ان سے بہت دور ہیں،
یہ ہندوستان ہی کے لیے نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی تاریخی موڑ ہے، تاریخ کے فیصلہ کن موڑ کو پڑھیں اور آج کے حالات کا جائزہ لیں،
اگر آج کچھ نہ کیا تو یہ وقت گذر جائے گا پھر..
حالات کا رونا روئیے..
احتجاجی جلسے منعقد کیجئے..
جلوس نکال کر اپنی توانائی خرچ کریں...
فسادات کے بعد چندے کرئیے..
لیکن ان سے حالات نہیں بدلیں گے - آپ کے خلاف لوک سبھا سے لیکر ودھان سبھاؤں  میں بل پاس ہوتے رہیں گے اور آپ کچھ نہیں کر سکو گے، کیوں کہ بقول شاعر..
*یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا*
اب بھی وقت ہے ہوش کی دوا کی جائے، عارضی، جذباتی اور حلقہ جاتی مسائل سے اوپر اٹھ کر قومیت کا خالص قومیت کا جائزہ لیجیے_
جس وقت یہ تحریر لکھ رہا تھا اسی وقت ہمارے بلڈانہ ضلع کے ڈونگر کھنڈالا گاؤں میں شیواجی کی مورتی کے ہٹانے پر پولیس اور مراٹھا سماج میں ٹکراؤ ہو گیا جس میں ایس، ڈی ایم،SDM تھانیدار، ڈی، وائے، ایس، پی DYSP, تحصیل دار سمیت بائیس پولیس والے زخمی ہوگئے ہیں لیکن نہ کوئی گولی چلی نہ ابھی تک کسی کو گرفتار کیا گیا بلکہ خاصدار پرتاپ راؤ جادھو سمیت تمام مراٹھا لیڈران فساد کے لئے پولیس کو موردِ الزام قرار دے رہے ہیں - یہ سیاسی طاقت کا نتیجہ ہے ورنہ اگر اس واقعہ میں مسلمان ملوث ہوتے تو کیا ہوتا یہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے...