Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 11, 2019

جان بچی لاکھوں پائے !!! زہرناک صورت حال کی آپ بیتی۔!!!

تحریر/سمیع اللہ خاں/صداۓوقت/١٠مارچ/٢٠١٩۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ٹرین کھچاکھچ بھری ہوئی تھی، ہم جالندھر ایکسپریس سے سفر کررہے تھے، گرچہ ٹرین میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی ہر کھڑا بیٹھا، اور لٹکا شخص فکر معاش اور فکر حیات کا مارا دکھائی دے رہا تھا، ہر چہرہ تکان اور ڈپریشن کی نمائندگی کررہاتھا
غالباﹰ ہم غازي آباد کے آس پاس ہوں گے کہ اچانک بھنبھناہٹ شور میں بدل گئی، عوام کی  گفتگو نے روہت سردانا اور ارنب گوسوامی کے چینل کا منظر پیش کرنا شروع کردیا، موضوع تھا ہمارا دیش اور اس پر پاکستان کی دہشتگردی، ہمارے وزیراعظم اور ان کی سرجیکل اسٹرائیک، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی تھیں ہر مسافر نے گویا اس موضوع کو ہی 'پلوامہ کے ہلاک جوانوں " کے لئے تعزیت اور شردھانجلی کا " مہورت " سمجھ لیا اور اس میں شریک ہوگئے، بات نکل کر وِکاس اور کانگریسی دور پر چلی گئی، پھر موجودہ انڈیا پر آگئی کہ مودی جی کے دور میں اصلی وکاس ہورہاہے، طرح طرح کے کام گنائے جارہے تھے، درمیان میں چارجنگ کے طور پر کانگریسی اور کیجریوالی پارٹی کے اہلخانہ کو دعائیں دے دیتے تھے، *غرض کہ  ٹرین پوری طرح سے " ارنب گوسوامی " اور "روہت سردانا " کے شو کا پُرشور اکھاڑہ بن چکی تھی، اینکرنگ کرنے والے پوری طرح سے ارنب کے ہونہار اور بدبخت شاگرد معلوم ہورہے تھے  کہا جانے لگا کہ اصل تکلیف مودی جی سے پاکستانیوں اور جہادیوں کو ہے،ہندو جنتا کی پارٹی سے دقت مسلمانوں کو ہے کیونکہ وہ یہاں سے بھگوان رام کو نکال کر الله کو لانا چاہتےہیں اور پاکستان والا جہادی اس میں سپورٹ کررہاہے جگہ جگہ دیش میں ان کے لیے فنڈنگ ہورہی ہے تاکہ رام جی کے رَتھ کو روکا جائے، زور سے آواز بلند ہوئی کہ ارے جب ان مادر…… مسلمانوں نے پاکستان لے لیا ہے اپنا الگ سے تو یہاں کاہے مررہے ہیں ہم ہندوﺅں کو جینے ہی نہیں دیتے، اس پر اب دیش بھر میں ان جہادی ملاؤں کے وِرودھ / مخالفت میں بات ہونی چاہیے…… اسی دوران ایک شخص ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے پکار اٹھا ۔ "ارے یہ دیکھو ایک پاکستانی تو یہیں بیٹھا ہے" اب ہم چوکنا ہوگئے اور اس کی طرف دیکھ کر پھر اپنی سیٹ پر اپنے کام میں مصروف ہوگئے، دوسری طرف شور بلند ہونے لگا کہ پاکستانیوں کو مارو، جہادیوں کو ٹرین سے باہر پھینک دو، رام جی کے شَترو / دشمن کو آگ لگادو پربھو خوش ہوگا، کچھ لوگ ہماری سیٹ کے پاس بڑھنے بھی لگے تب ہمارے دل نے کہا چلو بھئی آج تمہاری باری بھی آہی گئی،  ماب لنچنگ کی فہرست میں ایک اور نام بڑھے گا، ہم نے بھی دل میں سوچ لیا کہ مرنا ہی ہے تو مارتے ہوئے لڑکر مرینگے، ہم نے خاموشی سے اسطرح اپنی نشست بنائی کہ دفاع کرسکیں اپنا اور ہماری نظریں کوئی سخت اوزار تلاش کرنے لگیں، اس دوران وہاں سے گالیوں، نعروں اور بدتمیزیوں کا غلغلہ بلند رہا،* جب کچھ لوگ سیٹ سے قریب ہوگئے اور راست مجھے مخاطب کرکے غلاظت بکنے لگے اور للکارنے لگے تو اسی وقت اگلی سیٹ کے درمیان سے ایک لحیم شحیم مضبوط اور کافی توانا جسم کا ایک شخص کھڑا ہوگیا اور سب کو زور زور سے ڈانٹنے لگا کہ دور ہوجاؤ یہ غلط ہے ہاتھ، پیر نا چلاؤ جو بات کرنا ہے زبان سے بولو کسی کو مارو مت، اتنے میں پیچھے سے کسی نے آگے والے کے کان میں بھی کچھ کہا، جس کے بعد اس خونی بھیڑ کے عزائم میں کچھ نرمی واقع ہوئی، وہ تین چار شیطان جو ہمارے ہی  کوچ میں غازی آباد کے پاس سے سوار ہوئے تھے اور گفتگو کا رخ زہریلا کردیا تھا، جس کے بعد متعصب عوام کے اندر بھگوان کو خوش کرنے کے لیے ایک مسلمان خون کی پیاس جاگی تھی وہ لوگ ایک دو اسٹیشن آگے اتر گئے، پتا نہیں کہاں سے اور کیوں ہمارے ہی ڈبے میں یہ شیطان سوار ہوئےتھے، خیر بھنبھناہٹ جاری رہی، ہم جان بچی لاکھوں پائے، سوچتے ہوئے خدا کا شکر بجالائے_
ٹرین سے اترنے کے بعد یہ سبق ملا کہ اولاً اس زہریلے ماحول میں تنہا سفر کرنا ہی نہیں چاہیے، اور جب خاص طورپر، دہلی، ہریانہ، اترپردیش وغیرہ کے ان علاقوں سے گزر ہو تو ہم جیسوں کو ہرگز تنہا نہیں ہونا چاہیے، ٹرین کا سفر اب ان علاقوں میں کرنا بھی ہو تو سلیپر اور جنرل ڈبوں سے بچنا چاہیے،
اس حادثے نے ہمارے حواس پر ایسا مضبوط اور سیکولر اثر ڈالا ہیکہ اس کو بیان کیا کریں! کوئی تبصرہ نہیں کرینگے جو بڑے فرماتےہیں وہی ہم بھی کہیں گے، اور محفوظ ترین بڑے فرماتےہیں کہ: ہندوستان مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں سب سے پرامن اور محفوظ ملک ہے، اب چونکہ خواب آور گولیاں مل چکی ہیں اسلیے آپس میں لڑتے مرتے رہیں، ایکدوسرے کو ذبح کرتے رہیں، سر پر سوار اپنی قوم کے خونخوار دشمن کو چھوڑ کر اس محفوظ ملک میں صرف وقت گزاری کرتے رہیں، لیکن اتنا ضرور یاد رکھیں کہ وقت بار بار نہیں جھنجھوڑتا، بھیڑ کی زبان پر اور ہندوتوا کے سفاک استعمار کو آپکا خون لگ چکاہے، آج ہم بچ گئے، لیکن اگر صورتحال تبدیل نہیں ہوئی تو اب یقین ہے کہ کل نہیں بچیں گے_