Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 25, 2019

قوم پرستی و فسطائیت عالمی سماجی بیماریوں کا حصہ ہیں!!!


عمیر کوٹی ندوی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
قوم پرستی، نسل پرستی،مذہبی منافرت، فرقہ پرستی، فسطائیت اور اس قسم  کی دیگر جتنی بھی چیزیں ہیں یہ  عالمی سطح پر پھیلی ہوئی سماجی بیماریاں ہیں۔ یہ  کسی بھی خطہ اور علاقہ تک محدود نہیں ہیں یہ بات دیگر ہے کہ  خطہ اور علاقہ کی مناسبت اور ضرورت کے اعتبار سے بسا اوقات ان کی شکلیں جدا جدا اور گاہے متضاد نظر آتی ہوں لیکن واقعہ یہی ہے کہ ان سب کے دھاگے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں یا یہ سب ایک ہی دھاگے میں پیوست ہیں۔ حالیہ معاملہ  کو ہی لیں ،نیوزی لینڈ کی وزیرِاعظم جاسنڈا آرڈرن نےبی بی سی کے نامہ نگار کلائیو مائری کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ "سفید فام قوم پرستی پوری دنیا کا مسئلہ ہے"۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ عالمی سطح پر سفید فام قوم پرستوں کی موجودگی بڑھی ہے ساتھ ہی یہ بھی کہاہے کہ "حملہ آور نے نشانہ نیوزی لینڈ کو بنایا ہے لیکن ان کے خیالات کی تشکیل کہیں اور ہوئی تھی"۔ اپنی گفتگو میں ملزم کے "خیالات کی تشکیل کہیں اور ہونے" کی بات کرنا بذات خود مسئلہ کے بڑھے ہوئے دائرے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ طویل عرصہ سے مذکورہ سماجی بیماریوں سے خود ہمارا ملک بھی جوجھ رہا ہے۔ اس مسئلہ نے یہاں کے باہم شیر وشکر  اور ایک دوسرے میں پیوست سماجی تانے بانے کو توڑنے کی اپنی بھرپور کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس  مسئلہ  سےملک کا ایک طبقہ متاثر ہے جب کہ شہریوں کی اکثریت  اب تک غیر متاثر ہے لیکن موجودہ صورت حال سےپریشان ہے۔
سماجی بیماریوں کے اس قدر متنوع، دراز اور پر تشدد ہوجانے کے پیچھے جو  تحریک کارفرما ہے وہ حد سے بڑھی ہوئی خود غرضی، مفاد پرستی اور نفس پرستی  کی غلامی سے عبارت ہے۔ دولت، اقتدار اور مفادات کسے عزیز نہیں ہوتے لیکن ان کے لئے حد سے بڑھی ہوئی خواہش ایک بیمار زدہ ذہن کے اندر سے انسانیت کو ختم کردیتی ہے۔ پھر یہ ذہن اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے ہر حد سے گزر جاتا ہے اور ہر چیز کو اپنے لئے استعمال کرلیتا ہے۔ انسانی دنیا کا یہ ایک خطرناک پہلو ہے جو اسے عملا بہائمی نظام کا حصہ بنا دیتا ہے۔ یہاں کی دنیا شکاری اور شکار تک محدود ہوتی ہے، طاقت ور شکاری بن جاتا ہے اور کمزور شکار ہوجاتا ہے۔ اس نظام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ طاقت کے ختم یا کم ہوتے ہی شکاری کو خود شکار بنتے دیر نہیں لگتی ۔ اس بات کو سمجھتے ہوئے حقیقت میں وہ ہمیشہ ہی ایک خوف کی زندگی جیتا ہے لیکن خود کو بے خوف ظاہر کرتے ہوئے دوسروں پر خوف طاری رکھے رہنا یا کم از کم انہیں اس وہم میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا سچ لوگوں کے سامنے آئے اس لئے وہ اس سچ سے لوگوں کو دور رکھنے پر پورا زور صرف کردیتا ہے اور اس کے لئے ہر تدبیر استعمال کرتا ہے۔ مسئلہ یہیں سے پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ نیوزی لینڈ واقعہ میں "آسٹریلوی شدت پسند" اور " ہلال اور صلیب کے درمیان معرکہ آرائی" کی بات زباں پر آئی تو سچ کا اعتراف اور عذر خواہی کرنے کی جگہ آسٹریلیا کی طرف  سے سچ کہنے والی زباں کو ہی فوراً "غیر ذمہ دار"، "پست" اور "اہانت آمیز" گردان دیا گیا۔
اس وقت خود ہمارے ملک میں جو ہو رہا ہے وہ اس سے مختلف نہیں ہے۔ فرقہ پرستی اور  فسطائیت سچ کو ہر صورت دبائے رکھنا چاہتی ہے۔  وہ نہیں چاہتی ہے کہ یہ کسی صورت باہر آئے ۔ اس نے سچ کو سامنے لانے کے اہم ذریعہ میڈیا کو خرید لیا ہے، گود لے لیا ہے اور جو اس کے لئے تیار نہیں ہے اس  کی آواز کو کچل دیا ہے۔ جو صحافی زرخرید اور گودی میڈیا کا حصہ بننے کو تیار نہیں  ہیں ان میں سے کچھ کی جان لے لی گئی، کچھ کا سیاسی بائیکاٹ کیا گیا اور ایک بڑی تعداد کی ملازمتیں چھین لی گئیں۔  تازہ ترین واقعہ پنیہ پرسون باجپئی کا ہے جو 'آج تک 'پھر' اے بی پی نیوز' سے نکالے جانے کے بعداب اپنی ملازمت کے محض 38 دن کےبعد بڑی تیزی سے مقبول ہوتے ہوئےاپنے پروگرام"جے ہند" میں سچ کو سامنے لانے اور سوالات کرنے کے جرم میں'سوریہ سماچار'چینل سے بھی اپنی پوری ٹیم کے ساتھ نکال دیے گئے ہیں۔ پنیہ پرسون باجپئی نے ٹویٹ کیا ہے کہ" 25کروڑ کی ڈیل…"جے ہند"۔ یہ اشارہ ہے نیوز چینل اور ان لوگوں کے درمیان سودے بازی کی طرف جو نہیں چاہتے کہ سچ سامنے آئے اور اس کے لئے وہ کسی بھی حد سے گزرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہی طاقتیں اس وقت  اپنےزرخرید  میڈیا کے ذریعہ نفرت کا کاروبار کررہی ہیں۔ وہ لوگوں کا رد عمل کا حامل ذہن (reactionary mentality) بنانا چاہتی ہیں۔ وہ اپنوں کا ذہن  اس طرح تیار کرنا چاہتی ہیں کہ  وہ اپنے علاوہ ہر ایک  کو غیر سمجھیں اور انہیں دیکھتے ہی چراغ پا ہوجائیں، ہر قسم کی تکلیف پہنچانے اور فنا کردینے کے درپے ہوجائیں۔ جنہیں وہ غیر تصور کرتے ہیں ان کے اندر اس قسم کے ردعمل پر مبنی ذہن تیار کرنا چاہتے ہیں جو مذکورہ عمل پر فوراً اپنا ردعمل ظاہر کرے ،  تشدد پر مبنی ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ جب یہ صورت حال ہو تو قرآن مجید یہ راہ بتا تاہے کہ " اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ، یا کم از کم برائی سے در گزر کرو، تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے"(النساء-149)۔"جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے، تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے"(الشوریٰ-43)۔