Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 14, 2019

بابری مسجد، تاریخ کے مختلف مراحل میں۔۔


حبیب الرحمن اعظمی
استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند / صدائے وقت۔
 .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .

1 ) مسجد کی تعمیر اوراس کی تاریخی حیثیت

تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ ”بابر“ کے دور میں اودھ کے حاکم ”میرباقی اصفہانی“ نے۹۳۵ھ /۱۵۲۸ء میں تعمیر کرائی تھی، مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے، صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی، اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سو مصلی نماز ادا کرسکتے تھے۔

مسجد کے درمیانی مرکزی در کے اوپر دو میٹر لمبی اور پچپن سینٹی میٹر چوڑی پتھر کی تختی کا ایک کتبہ نصب تھا، جس کی پہلی اوپر سطر میں ”بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ ثقتی“ خوشنما بیلوں کے درمیان لکھا ہوا تھا، اور نیچے کی تین سطروں میں یہ اشعار تھے۔

بنام آنکہ او دانائے اکبر                          کہ خالق جملہ عالم لامکانی

درود مصطفی بعد از ستائش                        کہ سرور انبیاء زبدہ جہانی

فسانہ درجہاں بابر قلندر                          کہ شد در دور گیتی کامرانی

چنانکہ ہفت کشور در گرفتہ                      زمیں را چوں مثالے آسمانی

درآں حضرت یکے میرِ معظم                   کہ نامش میر باقی اصفہانی

مشیرِ سلطنت تدبیر ملکش                       کہ ایں مسجد حصار ہست بانی

خدایا درجہاں تابندہ ماند                         کہ چتر و تخت و بخت و زندگانی

دریں عہد و دریں تاریخ میموں کہ نہ صد پنج و سی بودہ نشانی

تمت ہذا التوحید ونعت ومدح وصفت نور اللہ برہانہ بخط عبدالضعیف نحیف فتح اللہ محمدغوری۔

اس بڑے کتبہ کے علاوہ اندرونِ مسجد منبر کی دونوں جانب ایک ایک کتبہ نصب تھا، ۲۷/مارچ۱۹۳۴ء کے ہنگامہ کے موقع پر جوگاؤکشی کے عنوان کا بہانہ بناکر برپا کیاگیا تھا، مسجد میں گھس کر بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی، جس میں یہ دونوں کتبے بھی اٹھالے گئے تھے، بعد میں ”تہور خاں ٹھیکیدار“ نے منبر کی بائیں سمت والے کتبہ کی نقل تیار کراکے اسی پہلی جگہ پر اسے نصب کرادیا، داہنی جانب کے کتبہ کی ایک نقل سید بدرالحسن فیض آبادی کے پاس محفوظ تھی، اس لئے اس کتبہ کی عبارت بھی دستیاب ہوگئی۔

بائیں سمت کا کتبہ حسب ذیل اشعار پر مشتمل تھا۔

بفرمودئہ شاہ بابر کہ عدلش                     بنائیست با کاخ گردوں ملاقی

بناکرد ایں مہبط قدسیاں را                        امیر سعادت نشاں میر باقی

بود خیر باقی و سال بنائش                          عیاں شد چوں گفتم بود خیر باقی

داہنی جانب والے کتبہ کے اشعار یہ تھے۔

بمنشائے بابر خدیو جہاں                          بنائے کہ با کاخ گردو عناں

بنا کرد ایں خانہٴ پائیدار                            امیر سعادت نشاں میر خاں

بماند ہمیشہ چنیں بانیش                                            چناں شہر یارِ زمیں و زماں

ابتدائے تعمیر سے بابری مسجد میں نماز پنج گانہ اور جمعہ ہوتا رہا ہے، عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب یعنی ۱۸۵۸ء سے ۱۸۷۰ء تک اس مسجد کے امام و خطیب ”محمد اصغر“ تھے،۱۸۷۰ء تا ۱۹۰۰ء کی درمیانی مدت میں مولوی ”عبدالرشید“ نے امامت کے فرائض انجام دئیے،۱۹۰۱ء سے ۱۹۳۰ء کے عرصہ میں یہ خدمت مولوی عبدالقادر کے سپرد رہی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۹ءمسجد کے قرق ہونے کی تاریخ تک مولوی عبدالغفار کی اقتداء میں مسلمان اس مسجد میں نماز پنج وقتہ اور جمعہ ادا کرتے تھے۔

بابری مسجد کے مصارف کے واسطے عہد مغلیہ میں مبلغ ساٹھ روپے سالانہ شاہی خزانے سے ملتے تھے، نوابان اودھ کے دور میں یہ رقم بڑھا کر تین سو دو روپے تین آنہ چھ پائی کردی گئی تھی، برطانوی اقتدار میں بھی یہ رقم بحال رہی، پھر بندوبست اول کے وقت نقد کی بجائے دو گاؤں بھورن پور اور شولاپور متصل اجودھیا اس کے مصارف کے لئے دئیے گئے، غرض کہ اپنی ابتداء تعمیر ۹۳۵ھ/ ۱۵۲۸ء سے ۱۳۶۹ھ / ۱۹۴۹ء تک یہ مسجد بغیر کسی نزاع و اختلاف کے مسجد ہی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک مقدس و محترم عبادت گاہ رہی اور مسلمان امن وسکون کے ساتھ اس میں اپنی مذہبی عبادت ادا کرتے تھے۔

﴿۲﴾

مسجد،مندر قضیہ کا آغاز

مستند تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے صدیوں پہلے مسلمان اجودھیا میں آباد تھے، اور یہاں کے ہندو مسلم پوری یک جہتی اور یگانگت کے ساتھ رہتے سہتے تھے، ۱۸۵۵ء/ ۱۲۷۲ھ سے پہلے کسی مذہبی معاملہ میں یہاں کے باشندوں کے درمیان کوئی تنازعہ رونما ہوا یا باہمی ٹکراؤ کی نوبت آئی ہو صحیح تاریخوں اور مذہبی نوشتوں سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، لیکن جب اس ملک پر انگریزوں کا منحوس سایہ پڑا اور ان کا یہاں عمل دخل شروع ہوا تو انھوں نے اپنی بدنام زمانہ پالیسی ”لڑاؤ اورحکومت کرو“ کے تحت یہاں کے لوگوں میں باہمی منافرت اور تصادم پیدا کرنے کی غرض سے مسجد، مندر، جنم استھان وغیرہ کا خود ساختہ قضیہ چھیڑ دیا جس کے نتیجہ میں ۱۸۵۵ء/ ۱۲۷