Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, March 12, 2019

ہم بہت مطمئن ہیں!!!!!!یہ اطمنان ایک بہت بڑی آزمائش کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بہت مطمئن ہیں!!!!!!

۔___________[صداۓوقت]
خورشیدانورندوی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
حالات کی ناہمواری بھی ایک بہتر موقعہ ہوتا ہے. ان کی سنگینی اپنے صحیح موقف کی تعیین اور خود احتسابی میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتی ہے. اس ادراک کے آپ عادی ہوں نہ ہوں عادی ہونا پڑے گا یہی آپ کے شخصی اور ملی وجود کی کسی حد تک ضمانت بن سکتا ہے. فرد یا قوم اپنے آس پاس کے علاوہ کچھ نہیں. حالات اور ماحول ایک ہی چیز کا نام ہے. جہاں آپ کے تشخص کو چیلنجز درپیش ہوں گے دیر سویر آپ کے وجود کو بھی خطرات لاحق ہوں گے.. بدقسمتی سے ہم نے دینداری کو الگ اور آس پاس کے ماحول سماجی تقاضوں اور اجتماعی ضرورتوں کو الگ کر رکھا ہے. ہم نے باور کرلیا کر لیا ہے کہ ملک کے اندر مسلمان قوم پر کہیں کچھ گزرجائے کوئی بات نہیں، انتخابات ہوں نتائج کچھ آئیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے. مسلمان اداروں اور تنظیموں پر نظر رکھی جائے اور ان کی جی کھول کر ہراسانی ہو اس سے دین کہاں متاثر ہوتا ہے.. افراد کے ساتھ بےرحمی ہو، خواتین کے ساتھ بدسلوکی ہو، چادر اور چہار دیواری کا تقدس پامال ہو کوئی زبانی ردعمل بھی عافیت طلبی کی دلیل سے ظاہر نہ کیا جائے.. یہی طرز عمل عام ہے اور افسوس کہ ادارے چلانے والے علماء کرام کا رویہ اور بھی زیادہ بے حسی کا شکار ہے.. مصلحت اور حکمت کی چادر دلآویز ہی ہوتی ہے لیکن آگ لگتی ہے تو کیا بچتا ہے.
پچھلے کچھ دنوں سے بہت کچھ  ڈھکا چھپا کھل چکا ہے.. اب کم و بیش سب سوچنے پر مجبور ہیں اور سوچنے والے سبھی لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ ہم نے حالات کا اندازہ لگانے میں دیر بھی کی اور غلطی بھی. ہم گھروندہ بچانے کی تدبیر کرتے رہے لیکن اس طوفان کی تندی اور تیزی کا ادراک نہیں کرسکے جو اب سر پر آن پہنچا ہے. جس سمت پناہ کی تلاش میں دیکھو وہ کمین گاہ ہے. ہر ملنے والا موقعہ آخری موقعہ بنتا جارہا ہے. وقت جتنا کم ہو تدبیر اتنی ہی چوبند ہونی چاہیے لیکن کہاں ہے؟ صورتحال یہ ہے کہ کسی ایک چیلنج کو بھی کسی کسائی حکمت عملی کے ساتھ ہم ایڈریس کرنے میں پوزیشن میں نہیں.. پے درپے ایشوز برسائے جارہے ہیں اور ہماری مشکیں کسی جارہی ہیں..
تین طلاق کا مسئلہ پرسنل لاءمیں کھلی مداخلت کا عنوان ، بابری مسجد، مسلمان ہند کو نیچا دکھانے اور ہندوتوا کی اپنی من مانی تہذیبی برتری کی علامت، آسام کے مسلمانوں کی شہریت بل کے ذریعہ جبری بے دخلی اور قومیت سے انخلاء، ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مسلم نوجوانوں پر بات بے بات دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتاری، کشمیر کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے سارے ملک میں کشمیری طلباء  تاجروں اور مسافروں پر بے پناہ تشدد اور پھر ایک پلان کے تحت پوری بےخوفی کے ساتھ ویڈیو گرافی اور کلپنگ اور سوشل میڈیا پر اس کی متواتر گردش یہ سب کیا ہے؟
آپ بڑے سادہ ہیں اگر ان کے مضمرات نہیں سمجھ پارہے ہیں، اندیشہ ہے کہ یہ سادگی ایک بڑی آزمائش کا پیش خیمہ نہ بن جائے.
ٹی وی شوز میں آجکل انتہاء پسند ہندو قوم پرستوں کی بہار آئی ہوئی ہے. کوئی قدغن نہیں براہ راست ریلے میں بڑے بڑے اپوزیشن لیڈرس کے ساتھ گستاخانہ بلکہ بدتمیزانہ سوالات کا طومار ہے چار چار ڈیبیٹرز ایک آواز ہوکر دوسری آواز کو زیر کررہے ہیں.. لیکن میں ششدر رہ گیا ایک انتہائی متعصب ریٹائرڈ جنرل GD Bakhshi کی ویڈیو کلپ دیکھ کر جس میں وہ اسٹوڈنٹس کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ
ہمارے دشمن ہم پر آٹھ سو سال حکومت کرگئے اور ہماری ماں بہنوں کو کابل اور بخارا کے بازاروں میں بیچتے رہے،، تف ہے تم پر اور تم اہنسا (عدم تشدد) کی بات کرتے ہو
یہ اس جنرل کے الفاظ ہیں اور کالج کے بچوں کے سامنے ہیں جس کی پوسٹنگ کشمیر میں رہی ہے جو ٹی وی پر ہذیانی کیفیت میں بات کرتا ہے، روتا بھی ہے، اور ملٹری آپریشنز کے علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے لئے غیر محدود اور ناقابل احتساب اختیارات کا طلبگار ہے..
یہ حالات ہیں اگلے الیکشن تک ان کا ٹمپر دانستہ طور پر اور بڑھایا جائے گا اور ہم کبھی تبلیغیوں کی آہک پاشی میں لگے ہوئے ہیں، کبھی ندوہ دیوبند لیکر بیٹھے ہیں تو اہل حدیث اور حنفی کی خانہ بندی کررہے ہیں... پہلے تو ایسا نہیں تھا..
جو حالات ہیں ان کو الیکشن کے پس منظر میں نہ دیکھا جائے یہ سنگین غلطی ہوگی ایک طویل المیعاد بہت محتاط لیکن مضبوط منصوبہ بندی کے ساتھ میدان عمل میں آنا ہوگا... ورنہ بیس پچیس کروڑ حوصلہ مندوں کو سجدے کی اجازت ہی رہے گی اور کچھ نہیں...