Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, March 13, 2019

ایک مظلومہ مطلقہ کا گھر دوبارہ کیسے بنا۔؟


تحریر/ مقبول احمد سلفی/ صدائے وقت۔
(بشکریہ:مولاناطاہرمدنی)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سوشل میڈیا نے فاصلہ کم  کر دیا، پیغام رسانی نہایت آسان تر کردیا، روابط کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کردیا۔ آج ایک جگہ تنہائی میں بیٹھا شخص دنیا کے کونے کونے تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے ، جس سے چاہے لمحوں میں رابطہ کرسکتا ہے اور اس تک اپنی بات برق جیسی تیز رفتاری کے ساتھ پہنچا سکتا ہے ۔ یہ سوشل میڈیا کی حیرت انگیز قوت وطاقت ہے ۔ اس سے ساری دنیا فائدہ اٹھارہی ہے ، سیاست داں سے لیکر عام آدمی تک اپنے اپنے مقاصد کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کررہا ہے ۔ یہ کمال ہی تو ہے کہ ایک مظلوم جس کی کوئی سننے والا نہیں تھا، خصوصا مظلوم جب مسکین ولاچار ہو تو اس کی آواز صدا بصحراءثابت ہوتی مگر آج سوشل میڈیا نے مظلوموں کی آواز دور دور تک پہنچائی حتی کہ اب اس کی گونج سیاسی ایوانوں سے لیکر عوامی حلقوں میں سنائی دی  جاتی ہے۔ایک ایسی ہی مظلومہ کی دکھ بھری ایک داستان آپ کو سنانے لگا ہوں جس کا اجڑا گھر بسنے میں تین سال لگ گیا۔ کہانی ہے پاکستان کی ایک دکھیاری سمیرا رحمن کی جس کا نکاح 24/ مئی 2015 کو ہوا اور تقریبا پانچ ماہ بعد عدالت کے ذریعہ شوہر کی طرف سے طلاق کا ایک نوٹس ملا جس پہ 15/10/2015 کی تاریخ مرقوم ہے اور اس میں لکھا ہے کہ آئے دن جھگڑا کی وجہ سے من مقر اس فیصلے پر مجبور ہے کہ اپنی بیوی کو شریعت محمدی کے مطابق طلاق ثلاثہ دیتا ہے ۔
طلاق کے بعد بہت کم لوگ ہوں گے جو پچھتاتے نہ ہوں ، اکثریت افسوس کرتی ہے مگر جس کے یہاں امام متعین کی اندھی تقلید ہو اور کسی نے اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دے دیا ہوں اس کے یہاں پچھتانے اور افسوس کرنے کے علاوہ نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔اسی سبب سماج پر طلاق ثلاثہ کے بھیانک نتائج واثرات مرتب ہیں ، طلاق ثلاثہ کا قہر میں نے اپنے ایک مضمون میں بیان کیا ، اس داستان خونچکاں کو پڑھنے والا میرے بلاگ میں قہر والا مضمون ضرور پڑھے ۔ 
یہاں پر مجھے ہندوقوم کی قدیم تہذیب ستی یاد آتی ہے جس تہذیب میں مظلوم بیوہ کوشوہر کے آگ میں زبردستی جھونک دی جاتی ہے ، بیوہ تکلیف در تکلیف پر روتی، بلبلاتی، چیختی اورچلاتی ہے اور تہذیب کے علمبردار اس چیخ کو عورت کی رسم اورآگ میں پھینکنے کو دین ومذہب سمجھتے ہیں ۔ ٹھیک اسی کیفیت میں مطلقہ ثلاثہ پہ حلالہ کا جبر ہوتا ہے ، عورت چیختی ہے ، مدد کی گہار لگاتی ہے مگر تقلید کے علمبردار حلالہ کرکے ہی دم لیتے ہیں اور تقلیدپر کسی طرح آنچ نہیں آنےدیتے ہیں بلکہ ایسے  ہی جبر سے تو تقلید کو قوت وحفاظت نصیب ہوتی ہے ۔ واہ رے ستی کے علمبردار اور حلالہ کے ٹھیکیداروچوکیدار۔
میری  اس کہانی میں شوہر کو اپنے کئے پر افسوس ہوتا ہے اوروہ اپنی بیوی کے پاس لوٹ کر آنا چاہتا ہے ۔ بیوی حد درجہ اپنے شوہر سے محبت کرتی ہے اوروہ بھی  پھر سے اپنا گھر بسانا چاہتی ہے ۔شوہر نامدار حنفی علماء سے فتوی پوچھتے رہے ، ان کی طرف سے جواب آتا رہاکہ اب اس بیوی کی طرف لوٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ، ہاں ایک حیلہ اختیار کروحلالہ کا تو پھر واپس بیوی کے پاس جاسکتے ہو۔ واقعی حلالہ ایک حیلہ ہے جس سے عورت کی عزت وناموس تارتار کیا جاتا ہے ۔ غیرت مند مرد اور غیرت مند عورت کبھی اس حیلے سے عزت نیلام نہیں کرتے ۔ انہیں غیرت مندوں میں سے اس کہانی کا مرد اور اس کہانی کی عورت بھی ہے۔شوہراپنے مسلک کے علماء سے فتوی پوچھتے پوچھتے طلاق پہ تین سال کا لمبا عرصہ گزر گیامگر گھر بسنے کا کسی نے راستہ نہیں بتلایا۔
ادھر مظلومہ مطلقہ کی داستان بڑی دلخراش ہے ، اس کے پاس ایک شادی شدہ بہن ہے ، کینسر کی مریض والدہ ہے ، بچپن میں والد فوت ہوگیا، گھر میں نہ بھائی اور نہ کوئی مرد۔ خالو ہیں جو کبھی پریشانی میں دیکھ سن لیتے آجاتے ہیں ۔جب اس عورت کو طلاق ہوئی تو میکے چلی آئی ، اس لڑکی کی ماں نے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کرلی تھی ، جب طلاق کے بعد جوان بیٹی گھر آئی تو اس مرد کو جلن ہونے لگا، اپنی بیوی کو بے عزت کرنے لگااور اسے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی ، ماں آخر کار ماں ہوتی ہے وہ جوان بیٹی کو بھلا گھر سے کیسے بھگائے گی اور وہ مظلوم بیٹی ابھی سہارے کے قابل ہے نہ کہ مزید اس پہ ظلم کرنے کے ۔افسوس کہ معاشرے میں طلاق کے بعد عورت گھرکا بوجھ اور سماج کا طنز وتمسخر بن کر رہ جاتی ہے ۔ گھر سے لیکر باہرتک تکلیف دہ باتوں سے مطلقہ کا دل چیرا جاتا ہے ، عورت ہی ہے کہ اس قدر کانٹوں بھرے لمحوں میں بھی صبر کا پہاڑ بن جاتی ہے ،مردوں سے ایسا صبر محال ہے ۔
بہرکیف! لڑکی کی ماں نے اپنے دوسرے شوہر کودوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ میرے ساتھ رہنا ہو تو رہو ورنہ میرے پاس سے چلے جاؤ،میری بیٹی کہیں نہیں جائے گی ، یہیں میرے ساتھ رہے گی۔ شوہر کب اپنی بے عزتی برداشت کر سکتا ہے وہ بھی کمزور صنف یعنی عورت سے ۔ شدید غصے کا اظہار کرتا ہے،آدھی رات میں بیوی کو مارتا ہے اور بیوی ایک غمگسار ماں بن کر دکھیاری بیٹی کے لئے غم غلط کرنے کا سامان مہیا کرتی ہے ۔ بزدل مرد نے بیوی کو مارا، بیٹی کی طرف چھری لیکر دوڑا،اسے بھی مارا، بہت ہی لعن طعن کیا اورسارے رشتے توڑکر گھر سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا۔قربان جائیں ماں کی ممتا پہ، ایک ماں نے مظلوم بیٹی کا سہارا بننے کے لئے اپنا گھر اجاڑ لیا۔اللہ نے ماں کے دل میں رحم کا جذبہ کس قدر موجزن کیا ہے؟سبحان اللہ 
دوسرے شوہر کے جانے کے بعد ماں نے بیٹی کو سہارا دیا، بیٹی اپنا گھر بسانے کے لئے دن رات اللہ سے دعائیں کرتی رہی،اللہ سے نیک آدمی سے ملاقات کی دعا کرتی جس کے ذریعہ اس کا معاملہ درست ہوجائے ۔ وہ دیر تک ماں پہ بوجھ نہیں بننا چاہتی اور سماج کے طعنےسے بھی کافی خوف زدہ ہوچلی تھی ، باپ کے چلے جانے کا طعنہ ، ماں کی طرح دوسری شادی کرے گی اس بات کا طعنہ۔ لڑکی کہتی ہے کہ وقت اتنا سنگین تھا اگر والدہ نہ ہوتی تو میری بہن بھی  شایدمیرا سہار انہ بن پاتی۔
وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ تین سال گزرگئے ۔ اتفاق سے لڑکی کی ہمنام سہیلی کے ذریعہ اسے  میرا واٹس ایپ نمبر ملا،اس نے طلاق نامہ بھیجا اور اپنا مسئلہ بیان کیا اور مجھ سے اس کا حل پوچھا ۔ میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ آڈیو میں صرف ایک طلاق واقع ہونے کا ذکر کیا اور بتلایا کہ وہ اپنے سابق شوہر سے نکاح کرکے دوبارہ اس کے پاس جاسکتی ہے ۔میری بات پہ بہت ہی اطمینان ہواجیسےاندھیرے کے مسافرکوشمع مل گئی ہو۔ جب اپنےسابق شوہر سے ملنے کی امید جاگی تو والدہ سے بات کی جس کے دل میں بھی یہ خیال گھر کرگیا تھا کہ میری بیٹی دوبارہ اپنا گھر نہیں بسا سکتی ہے ۔ لڑکی نے اپنی ماں کومیرا آڈیو میسج سنایا تو انہوں نے مجھ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی ، میں نے ایک وقت طے کیا اور اس وقت لڑکی کی ماں نے واٹس ایپ کال پہ مجھ سے رابطہ کیا۔ آواز میں مدد کی آہ سنائی دے رہی تھی ، گوکہ مجبور ماں پنجابی زبان میں اپنی داستان سنارہی تھی اور میں سمجھنے سے قاصر تھا مگر میری باتیں پوری سمجھ رہی تھی، میری باتوں پہ ان کا دل مطمئن ہوگیااور اب ماں کو بھی اپنی بیٹی کا گھر بسنے کی  امید نظرآئی ۔فرط محبت میں بولی بیٹا اگر کچھ لکھ کر دیتے تو کسی کو دکھا سکتی ، میری بات کون مانے گا۔ میں نے بھی اسی وقت اپنے دعوہ سنٹرکے لیٹرہیڈ پہ فتوی تیار کیا اور واٹس ایپ پر بھیج دیا۔اب بچے تھے سابق شوہر جو تین سال سے علمائے احناف کے فتوؤں تلے دبے تھے، اس بوجھ سے اوپر اٹھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔ لڑکی سے ہوئی میری بات اس نے پوری سنی اور فتوی پر بھی غوروخوض کیا۔ اب شوہر نے بھی مجھ سے بات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ایک دن  بعدظہر کی اذان کے وقت مجھ سے رابطہ کیا اس نے سے تین سوالات مجھ سے کئے۔
اس نے کہا کہ میں حنفی ہوں اورتین سال سےاس مسئلے کا حل اپنے علماء سے پوچھ رہاہوں سبھی نے کہا کہ اب اس بیوی کے پاس ہم نہیں جاسکتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ میں نے کہا کہ اس کی ایک ہی وجہ ہے وہ ہے ان علماء کا حنفی ہونا ، اگر وہ حنفیت سے باہر آکر کتاب وسنت کی روشنی میں فتوی دیں تو پھر ان کا بھی وہی فتوی ہوگا جو میں نے دیا ہے اور آپ پاکستان میں کسی بھی اہل حدیث عالم کے پاس جائیں وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں وہی جواب دیں گے جو میں نے دیا ہے ۔
اس نے دوسرا سوال کیا کہ اگر میں نے اپنی بیوی سے دوبارہ نکاح کرلیا تو آخرت میں کوئی پکڑ تو نہیں ہوگی ؟ میں نے کہا کہ اگر قرآن وحدیث پر عمل کرنے سے آخرت میں پکڑ ہوگی تو ان سارے علماء کی پکڑ ہوگی جو ایسا فتوی دیتے ہیں ، خود میری بھی پکڑ ہوگی ۔ اگر آپ کی پکڑ ہوئی تو میں آخرت میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔
تیسری سوال یہ تھا کہ اگر میں ایک مسئلے میں آپ کے مطابق عمل کرتا ہو ں تو کیا حنفیت پر کوئی فرق پڑے گا  یا میرے اوپر کوئی پابندی ہوگی ؟ میں نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کی بات کی طرف بلایا ہے ، اللہ اور اس کے رسول کی بات پر عمل کرنے والا اللہ کے نزدیک بہترین انسان ہے ۔ ہاں آپ کو علمائے احناف یا حنفی عوام کی طرف سے طعنہ سننا پڑ سکتا ہے ، آپ پر ظلم بھی ہوسکتا ہے ۔ آپ لوگوں سے یہ کہیں کہ جس طرح امام ابوحنیفہ ؒ کے شاگرد امام محمد ؒ نے اپنے استاد کے سیکڑوں مسائل کو نہیں مانا ہے اور اپنے استاد کے خلاف فتوی دیا ہے ،میں بھی اسی طرح احناف کی ایک بات پہ مطمئن نہیں ہوں اور اس مسئلے میں قرآن وحدیث کی پیروی کرتا ہوں ۔
اتنی باتیں ہوئیں اور وہ بھی مطمئن ہوتے محسوس ہوئے ۔ یہ ساری باتیں  لڑکی کے خالو کو بھی معلوم ہوئیں ، ان کو بھی اس معاملے میں حل نکلتا نظر آیا۔ آخر کار 11/مارچ 2019 کولڑکی کے خالواس کے شوہر کے ساتھ اس کے گھر جمع ہوئے ، سبھی کا دل اس بات پہ مطمئن ہوچکا ہے کہ یہ ایک طلاق ہوئی ہے ، خالو نے بھی کچھ جگہوں سے بذات خود اس بات کی تصدیق کی بلکہ شوہر نے صاف دل ہوکر کہا کہ مجھے تو اطمینان ہوچکا ہے اسی لئے تمہارے گھر آیا ہوں ۔اس بیٹھک میں طے پاگیا کہ 21/ 22 مارچ کو دوبارہ نکاح ہوجائے گا اور لڑکی اپریل میں اپنا گھر بسانے سسرال چلی جائے گی ۔ ان شاء اللہ
ادھر رات یہ فیصلہ ہوا ، رات بھر لڑکی کے گھر خوشی سے کسی کو نیند نہیں آئی ، لڑکی سویرا ہونے کا انتظار کررہی تھی کہ سب سے پہلے وہ مجھے اس کی خوشخبری سنائے ، صبح جب میں فجر کی نماز کے بعد واٹس ایپ کھولتا ہوں تو اس کی خوشخبری سن کر آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑتے ہیں ۔ اس نے دعاؤں کے ساتھ بیٹھک کی بہت ساری مزید باتیں بیاں کی ، یہ بھی کہی کہ میرے گھر بسنے کا سب سے پہلا کریڈٹ آپ کو جاتا ہے اس لئے اپنوں میں سب سے پہلے آپ کو خبر دے رہی ہوں ، اب اس بہن کو خبر دیتی ہوں جس نے آپ کا نمبر دےکر مجھ پر نہ بھولنے والا احسان کیا ہے ۔
  اس طرح اللہ کی توفیق سے ایک مظلومہ مطلقہ کا گھرجو تین برس سے سونا پڑارہا ، اب وہ آباد اوربسنے جارہا ہے ۔الحمد للہ ثم الحمد للہ
اللہ سے دعا ہے کہ بغیرکسی رکاوٹ کے جلد سے جلد اسلامی بہن کا گھر آباد کردے، میاں بیوی میں زندگی بھر محبت قائم رکھے، انہیں دین پر استقامت نصیب فرمائے، گھر کی ساری مشکلات دور فرمائے ، دنیا میں جہاں بھی ایسی مظلوم بہن ہے اس کی غیبی مدد فرمائے ، اس کی والدہ کو صحت وتندرستی دے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے ۔ آمین