Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, March 13, 2019

اعظم گڑھ۔جامعہ عزیزیہ سہریا کے طلباء کا اختتامی پروگرام بعنوان " تعلیم بیداری۔"

اعظم گڑھ۔۔اتر پردیش۔۔۔۔صدائے وقت۔
رپورٹ:شیخ محمدخالداعظمی.
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اللہ کے کچھ بندے اتنے مقبول ہوتے ہیں کہ جہاں بیٹھ جاتے ہیں مرجع خلائق بن جاتے ہیں.
جہاں سے گزرتے ہیں علم و عمل کی ایک تاریخ چھوڑ جاتے ہیں..
صحراؤں کو بھی گلزار بنادیتے ہیں.
سونے والوں کو بیدار کردیتے ہیں.
مایوسیوں کی مہیب تاریکیوں میں فکر و فن کی قندیل روشن کرجاتے ہیں..
قحط الرجال کے دور میں رجال کار کو جنم دیتے ہیں
اپنے اخلاص،مضبوط قوت ارادی، جہد مسلسل اور سعی پیہم سے ایک انقلاب لاتے ہیں.
ایسے ہی لوگوں میں خطہ اعظم گڑھ کے ایک مقبول  اور جید عالم دین مفتی ذیشان صاحب ہیں جنکے حسن انتظام و انصرام ، حسن تعلم و تربیت، حسن تدبیر و تدبر کی مثال دی جاتی ہے موصوف محترم کا تعلق منگراواں سے ہے.
آج سے تقریباً چار سال قبل پھریہا نظام آباد کے درمیان لب روڈ مغرب کی جانب سہریا گاؤں میں وہ کسی کے یہاں چند بچوں کو پڑھا رہے تھے.
ان کی محنت اور لگن کو دیکھ کر گاؤں والوں نے گاؤں کا مکتب ان کے حوالے کردیا.
اور دیکھتے ہی دیکھتے چار سال کے قلیل عرصہ میں وہ مکتب پرائمری پنجم سے دارالعلوم دیوبند کے منہج تعلیم کے مطابق عربی پنجم تک پہونچ گیا..
اور تعلیمی و تربیتی لحاظ سے اپنا ایک منفرد مقام بنالیا. اور آج وہ جامعہ عزیزیہ کے نام سے ایک مقبول ترین  دینی ادارہ بن گیا. جبکہ ابھی تعمیری اعتبار سے مکتب کی وہی پرانی عمارت ہے 
یوں تو گاہے گاہے اس مدرسہ اور وہاں کی تعلیم و تربیت ،ناظم جامعہ مفتی ذیشان صاحب اور اساتذہ کرام کے باہمی تال میل کی تعریفیں سنتا رہتا تھا لیکن کبھی ان حضرات سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکا اور نہ ہی جامعہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.
9 مارچ بروز اتوار صبح نو بجے سے حسب روایت سابق وہاں تعلیمی بیداری کے عنوان سے طلبہ کا اختتامی سالانہ پروگرام تھا.
میرے کرم فرما ڈاکٹر ارشدقاسمی کے واسطے سے وہاں شرکت کی سعادت میسر ہوئی.
ڈاکٹر ارشدقاسمی کیساتھ ہم لوگوں کا چار نفری قافلہ جب جامعہ عزیزیہ پہونچا تو ناظم جامعہ سمیت تمام اساتذہ کرام کو ہم نے سراپا انتظار پایا کیونکہ پروگرام کا وقت ہوگیا تھا. سامعین کی کافی تعداد پہونچ چکی
عورتوں کیلئے بھی الگ پردے کے اہتمام کیساتھ انتظام کیا گیا تھا. سب لوگ پروگرام کے شروع ہونے کا شدت سے انتظار کررہے تھے
اس لئے ہم لوگوں کے پہونچتے ہی وہاں کی انتظامیہ نے ہمارا پرجوش خیر مقدم کیا
اور بلاتاخیر چاۓ مع واۓسے ضیافت کی اور فوراً ہمیں جلسہ گاہ میں لے جایا گیا.
جلسہ گاہ میں جاتے ہی بلا تاخیر پروگرام کی صدارت کیلئے ڈاکٹر ارشد صاحب کا نام پیش کیا گیا جو پہلے سے طے شدہ تھا.
اعلان صدارت اور تائیدی کلمات کے بعد باضابطہ تلاوت کلام اللہ سے پروگرام کا آغاز ہوا
اس کے بعد بارگاہ رسالت میں انتہائی پرسوز لب و لہجہ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا .
پروگرام کی نظامت کا فریضہ جامعہ کے ایک ہونہار طالب علم انجام دے رہے تھے. اور آخر تک بیحد پر اعتماد،اور پرجوش انداز میں بحسن و خوبی یہ ذمہ داری نبھائی.
پروگرام کئی عناوین پر مشتمل تھا.
جن میں عربی. اردو، ہندی اور انگلش تقریریں تھیں.
کچھ ثقافتی پروگرام تھے.
کچھ مکالمات تھے.
ہر موضوع اور ہر عنوان  اسقدر پرکشش اور معیاری تھا کہ تین چار گھنٹے تک چلنے والے اس پروگرام سے کسی کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی جو جہاں تھا از اول تا آخر اپنی نششت پر جما رہا.
طلبہ کی تیاریوں میں بلا کی خود اعتمادی تھی.
جس سے اندازہ ہورہا تھا ہے کہ اساتذہ کرام نے انتہائی خلوص، دل جمعی جانفشانی اور محنت کیساتھ  طلبہ کو تیار کیا تھا.
سہریا گاؤں، آس پاس اور دور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں آور سامعین نے دل کھول کر طلبہ کی حوصلہ افزائی کی.
جامعہ کے ناظم محترم کے خلوص، نظم و نسق ، وہاں کے اساتذہ کرام کی بے لوث سعی اور باہمی اتحاد ، گاؤں والوں کے تعاون کو دیکھتے ہوئے دل شہادت دے رہا ہے کہ یہ جامعہ عنقریب علاقے کا دارالعلوم بنے گا اور یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے طلبہ قوم و ملت کی قیادت کریں گے ان شاء اللہ..
پروگرام کے آخر میں پروگرام کے صدر ڈاکٹر ارشدقاسمی نے مختصر مگر جامع خطاب کیا.
اور انھیں کی دعاؤں پر جامعہ کے ناظم مفتی ذیشان صاحب نے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا.
جامعہ ابھی بے سرو سامانی کی حالت میں توکل علی اللہ کے سرمایہ کیساتھ بحسن و خوبی اپنا ارتقائی سفر طے کررہا ہے..
جامعہ عزیزیہ سہریا کے تعلیمی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جامعہ عزیزیہ کے طلباء کا ننانوے فیصد داخلہ دارالعلوم دیوبند میں ہوا ہے اس کے اسی معیار کی بدولت طلباء کشاں کشاں چلے آرہے ہیں مجبورا انتظامیہ کو چار ماہ قبل ہی داخلہ بند کرنا پڑتا ہے ۔
جامعہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پڑھنے والے زیادہ تر طلبہ قرب و جوار کے ہیں.
دعا ہے اللہ تعالیٰ جامعہ کو مادی روحانی، ظاہری باطنی، علمی عملی اور تجدیدی دن دونی رات چوگنی ترقیات سے نوازے.
ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد
.