Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, March 11, 2019

خواتین کی عصری تعلیم اور معاشی جدوجہد۔

از / محمد فھد حارث/ صدائے وقت۔
=================
دوست نے خواتین کے لئے عصری تعلیم کے حصول  اور معاشی جدوجہد میں ان کے کردار کی بابت  سوال کیا کہ اسلام اس  متعلق کیا کہتا ہے۔ جس دین کا  آغاز ہی لفظ "اقراء" سے ہوا ہو ، اس کے متعلق آپ کیا قیاس کر سکتے ہیں۔ نبی ﷺ نے بلا اختلاف  جنس مرد و عورت دونوں کو مخاطب کرکے علم حاصل کرنے کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے۔ سیدنا ابو سعید الخدریؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کو تعلیم و تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان  کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے۔  جناب جلال الدین عمری صاحب اپنی کتاب  "مسلمان عورت کے حقوق" میں لکھتے ہیں کہ فقہاء نے تصریح کی کہ عورت کے لئے بنیادی تعلیم کا حصول لازم ہے، عورت اگر اس سے ناواقف ہو تو اسکا شوہر اس کے لئے ایسا انتظام کریگا کہ وہ علم حاصل کرسکے اور اگر شوہر اسکا انتظام نہ کرے  تو عورت خود سے  اس کے حصول کےلئے کوشش کرے گی کیونکہ یہ اسکا قانونی حق ہے، اس کے لئے اگر  اسے گھر سے باہر جانا پڑے تو شوہر اس پر پابندی نہیں لگا سکتا۔
اسی طرح کی اسلامی تعلیمات کا نتیجہ تھاکہ نبی ﷺ  اور خیر القرون کے دور میں اس زمانے کے عصری تقاضوں کے تحت خواتین علم کے شعبوں میں اپنا نام پیدا کررہی تھیں۔ سیدہ عائشہ ؓ کی طب سے متعلق معلومات  سے کون واقف نہیں اور جب عروہ بن زبیرؒ ان سے ان معلومات کا ماخذ پوچھتے ہیں تو وہ ان کو بتاتی ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس مختلف بلاد و امصار سے اطباء آتے تھے سو وہ نبی ﷺ کو مختلف طریقہ علاج بتاتے تھے جن کو میں سن لیا کرتی تھیں۔ گویا موجودہ زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سیدہ عائشہؓ نے میڈیسن کی تعلیم کے حصول کی سعی کی اور اس میں کافی حد تک مہارت بھی پیدا کرلی۔  اسی طرح سے سیدہ ام حرام بنت ملحانؓ اور نبی ﷺ کے خواب کا واقعہ سب کو معلوم ہے جو کہ امام بخاری اپنی صحیح بخاری  کتاب الجہاد میں لیکر آئے ہیں جس میں نبی ﷺ سیدہ ام حرامؓ کو بحری غزوہ میں شامل ہونے کی بشارت دیتے ہیں، گویا  ایک خاتون کا مردوں کے ساتھ جہاد اور وہ بھی سمندر پار کرکے اور آپ ﷺ اس جہاد میں  ام حرامؓ کی شرکت کے لئے  دعا فرماتے ہیں جبکہ جہاد خواتین پر فرض بھی نہیں ہے۔ اس سے اسلام کے  رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ  وہ نہیں چاہتا  کہ عورت اجتماعی سرگرمیوں سے بالکل کنارہ کش رہے اور اپنے دائرہ سے باہر کبھی کوئی کام انجام نہ دے۔
اسی طرح سے نبی ﷺ نے ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ کو تلقین کی کہ وہ سیدہ شفاؓ بنت عبداللہ عدوی سے کتابت سیکھیں۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ کے بارے میں کتب حدیث و سیر میں مذکور ہے کہ وہ  جب سیدنا زبیر بن العوامؓ  کی زوجیت میں تھیں تو ان کے جانوروں کے لئے دانہ پانی اور چارہ کا انتظام خود کرتی تھیں  اور گھر سے نکل کر  مکہ کے قرب و جوار سے اذخر گھاس وغیرہ   گھریلو کاموں کے لئے اکھٹا کرکے لاتی تھیں۔  طبقات ابن سعد میں سیدنا  عبداللہ بن مسعود ؓ کی بیوی جنابہ زینب ؓ کی بابت مذکور ہے کہ وہ صنعت و حرفت سے واقفیت رکھتی تھیں اور سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی مالی تنگی کے سبب وہ اسی ذریعہ سے اپنے خاوند اور بچوں کے اخراجات پورے کرتی تھیں۔ ایک روز وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور استفسار کیا کہ میں ایک کاریگر و ہنرمند عورت ہوں،  مختلف چیزیں بنا کر فروخت کرتی ہوں، جبکہ میرے شوہر اور بچے نادار ہیں ، کیا میں ان پر خرچ کرسکتی ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، تم کو اس پر اجر ملے گا۔ یہی واقعہ صحیح بخاری میں اجمالاً زکوٰۃ کے باب میں بیان ہوا ہے جہاں سیدہ زینبؓ نبی ﷺ سے اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود ؓ پر زکوٰۃ خرچ کرنے کا سوال کرتی ہیں۔ بعینہٖ اسی  سے ملتا جلتا واقعہ سیدنا جابر بن عبداللہؓ کی خالہ  کی بابت سنن ابو داؤد میں مروی  ہے کہ  ان کی خالہ کو جب ان کے شوہر نے طلاق دیدی تو دوران عدت ہی معاشی ضرورتوں کے انہوں نے گھر سے باہر نکل کر کھجور کے پیر کاٹ کرفروخت کرنا چاہے، جس پر ایک صاحب معترض ہوئے تو سیدنا جابرؓ کی خالہ نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بابت استفسار کیا جس پر آپﷺ نے انکو اجازت دی  اور فرمایا کہ کھیت جاؤ اور اپنے کھجور کے درخت کاٹو، ممکن ہے کہ اس رقم سے تم صدقہ و  خیرات اور بھلائی کا کام کرکے اجر سمیٹ سکو۔
ان مذکورہ بالا ان واقعات سے تو یہی  پتہ چلتا ہے کہ اسلام شرعی حدود کے اندر رہتے  ہوئے اور اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی پاسداری کرتے ہوئے خواتین کو نہ صرف تعلیم حاصل کرنے کی رغبت دیتا ہے بلکہ اسکو معاشی جدوجہد سے بھی نہیں روکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین اپنی تعلیم اور قابلیت کو معاشی میدان میں کس طرح استعمال کریں تو اس بابت ہمیں  وہ تجاویز کافی معقول محسوس ہوئیں جو کہ   مشہور صحافی اور کالم نگار جناب ثروت جمال اصمعی نے اپنے مقالہ "عورت، اسلام اور مغرب" کے آخری باب میں پیش کی ہیں کہ   پرائمری اسکول تک تدریس کا سارا کام خواتین کے سپرد کردیا جائے۔ اس کے بعد طلبہ و طالبات کے لیے الگ الگ تعلیمی ادارے ہوں۔ طالبات کے تعلیمی اداروں میں یونیورسٹی اور پیشہ ورانہ کالجوں کی سطح تک خواتین ہی تدریس کا کام انجام دیں۔اسی طرح خواتین کے الگ اسپتال بھی ان کے لیے جداگانہ روزگار کے مواقع مہیا کرتے ہیں۔ معیشت  میں خدمات کے  شعبہ کی اہمیت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔اس شعبہ میں خواتین کے لیے تعلیم اورکام کے مواقع فراہم کیے جانے چاہییں۔ پاکستان میں ویمن بینک کا تجربہ اس سمت میں ایک اچھی مثال تھا ، دیگر شعبوں میں بھی ایسے تجربات کیے جائیں اور انہیں ان کی حقیقی روح کے مطابق آگے بڑھایا جائے تو کامیابی یقینی ہے۔ خواتین کے اپنے بازار مینا بازاروں کی شکل میں کامیابی سے چل رہے ہیں، ان سے نہ صرف خواتین کو روزگار حاصل ہوتا ہے بلکہ خریدار خواتین بھی بسہولت خریداری کرسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں مزید پیش رفت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ بہتر سہولتوں کے ساتھ ایسے بازاروں کو مستحکم بنایا جانا چاہیے اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔خواتین کے انڈسٹریل ہومز کے تجربات بھی بہت کامیاب رہے ہیں۔ کم پڑھی لکھی خواتین بھی مختلف دستکاریوں کی تربیت حاصل کرکے اپنی روزی خود کماسکتی ہیں۔ ان دستکاریوں کی اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی مارکٹنگ کا بہتر انتظام کرکے بہت بڑی تعداد میں خواتین کو محفوظ روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔چین اورجاپان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے اس قسم کا سامان بہت بڑی مقدار میں برآمد کیا جاتا ہے۔ مسلم ممالک کے لیے بھی اس کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے خواتین کے لیے روزگار کے بہت سے نئے مواقع پیدا کردیے ہیں، مناسب تربیت حاصل کرکے مسلمان خواتین ان سے بھرپور استفادہ کرسکتی ہیں اور مخلوط ماحول سے محفوظ رہ کر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی آمدنی اورقومی آمدنی میں معقول اضافہ کرسکتی ہیں۔ پالیسی کے طور پر عام دفاتر یا کارگاہوں میں خواتین کے بیٹھنے اورکام کرنے کی جگہ مردوں سے الگ رکھنے کا اہتمام کیا جائے تو اس سے مجموعی اخلاقی ماحول بہتربنانے میں مدد ملے گی، خواتین زیادہ احساسِ تحفظ پائیں گی جس کے نتیجے میں ان کے کام کے معیار اوررفتار میں بہتری آئے گی۔ انتظامی لحاظ سے ادارے یا دفتر کے کسی ایک یا چند مخصوص شعبوں کاتمام کام صرف خواتین کے حوالے ہوتو توقع ہے کہ مقابلتاً اس شعبہ میں معیار میں بہتری کے ساتھ ساتھ مقدار میں بھی زیادہ کام ہوگا۔
بعض اسلام پسند لوگ جو  مخلوط معاشرے اور دوسری قباحتوں کی بناء پر خواتین کی عصری تعلیم اور معاشرے میں ان کے فعال کردار پر معترض ہوتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب تک آپ خواتین کو  اس قابل نہیں بنائیں  گے کہ وہ خود مختار  ہوسکیں تب تک آپ کس طور سے ان کو مردوں  سے اختلاط سے روک سکیں گے۔ جب تک آپ خواتین کو  میڈیکل کی تعلیم دیکر لیڈی ڈاکٹرز نہیں بنائیں گے تب تک کس طور سے آپ بیمار ہونے یا حاملہ ہونے کی صورت میں اپنی عورتوں کے لئے پردے اور حجاب کی پاسداری کرسکیں گے۔ جب تک آپ بی ایڈ اور ایم ایڈ کے تحت  لیڈی ٹیچرز تیار نہیں کرینگے تب تک آپ  اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں مخلوط نظام تعلیم کیونکر ختم  کرسکیں گے۔ اصل بات یہی ہے کہ خواتین کو ہر شعبہ میں تعلیم دلوائی جائے  تاکہ اس شعبہ  کی پروفیشنل خواتین مردوں  سے  غیر ضروری اختلاط کئے بغیر اپنے سارے کام از خود کرسکیں۔ المختصر اگر آپ کو اپنے معاشرے میں پردے اور حجاب کی قدریں نافذ کرنی ہیں تو لامحالہ آپ کو اپنی خواتین کو عصری تعلیم دلوا کر ان کو مردوں سے الگ لیکن مستقل بنیادوں پر اپنے کام خود کرنے کے لئے تیار کرنا ہوگا۔
محمد فھد حارث