Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, March 13, 2019

اے اللہ ظالموں کو صاف کردے ، ہماری روحوں کو پاک کردے۔

(صداۓوقت)
________________________
مدثر احمد(شیموگہ)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
تاریخی کتابوں میں لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف اسلامی سلطنت کا معروف بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ظالم حکمران بھی تھا ، اس کی ظلم کی داستان سابقہ صدی کے ہٹلر کی داستان سے بدترین تاریخ کہی جاتی ہے ، کہا جاتا ہے کہ جہاں محمد بن قاسم اسلامی اخلاق و کردار اور ہمت کے ساتھ دنیا فتح کرنے میں لگے ہوئے تھے اسی دوران حجاج بن یوسف نے کوفے میں اپنی دارالحکومت میں بیٹھ کر روزانہ ہزاروں قیدیوں کو قتل کردیا کرتا تھا ، اسی دور میں ایک تابعی حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے کے دوران کہا کہ حجاج بن یوسف ظالم بادشاہ ہے ۔ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ھیں تو آپکو دربار میں بلا لیا اور پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا ہاں  بالکل تو ایک ظالم شخص ھے۔ یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ھو گیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کر دیے۔ جب آپ کو قتل کیلیے دربار سے باہر لے کر جانے لگے تو آپ مسکرا دیے۔حجاج کو ناگوار گزرا اسنے پوچھا کیوں مسکراتے ھو تو آپ نے جواب دیا تیری بےوقوفی پر اور جو اللہ تجھے ڈھیل دے رھا ھے اس پر مسکراتا ھوں۔ حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے زبح کر دو، جب خنجر گلے پر رکھا گیا تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا:  اے اللہ میرے چہرہ تیری طرف ھے تیری رضا پر راضی ھوں یہ حجاج نہ موت کا مالک ھے نہ زندگی کا۔جب حجاج نے یہ سنا تو بولا اسکا رخ قبلہ کی طرف سے پھیر دو۔ جب قبلہ سے رخ پھیرا تو آپ نے فرمایا: یااللہ رخ جدھر بھی ھو تو ھر جگہ موجود ھے. مشرق مغرب ھر طرف تیری حکمرانی ھے۔ میری دعا ھے کہ میرا قتل اسکا آخری ظلم ھو، میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا۔ جب آپکی زبان سے یہ جملہ ادا ھوا اسکے ساتھ ھی آپکو قتل کر دیا گیا اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ھو گیا۔ ایک سمجھدار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ھے جب کوی خوشی خوشی مسکراتا ھوا اللہ کی رضا پر راضی ھو جاتا ھے۔س کے دور میں مسلمان مجاہدین، چین تک پہنچ گئے تھے، حجاج بن یوسف نے ہی قران پاک پر اعراب لگوائے، الله تعالی نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا حجاج حافظ قران تھا. شراب نوشی اور بدکاری سے بچتا تھا. وہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا. مگر اسکی تمام اچھائیوں پر اسکی ایک برائی نے پردہ ڈال دیا تھا اور وہ برائی کیا تھی ؟ ظلم" حجا ج بہت ظالم تھا، خود الله کے بندوں،اولیاں اور علما کے خوں سے ہولی کھیل رہا تھا. حجاج نے ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کو قتل کیا ہے ،اس کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں اسی اسی ہزار قیدی ایک وقت میں ہوتے جن میں سے تیس ہزار عورتیں تھیں. اس نے جو آخری قتل کیا وہ عظیم تابعی اور زاہد و پارسا انسان حضرت سعید بن جبیر رضی الله عنہ کا قتل تھا۔انہیں قتل کرنے کے بعد حجاج پر وحشت سوار ہو گئی تھی، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا، حجاج جب بھی سوتا، حضرت سعید بن جبیر اس کے خواب میں ا کر اسکا دامن پکڑ کر کہتے کہ اے دشمن خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا، میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟ جواب میں حجاج کہتا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا ہے۔۔؟اس کے ساتھ حجاج کو وہ بیماری لگ گئی زمہریری کہا جاتا ہے ،اس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی ،وہ کانپتا تھا ،آگ سے بھری انگیٹھیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اسکی کھال جل جاتی تھی مگر اسے احساس نہیں ہوتا تھا، حکیموں کو دکھانے پر انہوں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہے ،ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا۔تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب نسل کے کیڑے چمٹے ہوئےتھے اور اتنی بدبو تھی جو پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر پھیل گی۔ درباری اور حکیم بھی بھاگنے لگا، حجاج بولا تو کدھر جاتا ھے علاج تو کر۔۔ حکیم بولا تیری بیماری زمینی نہیں آسمانی ہے۔ اللہ سے پناہ مانگ حجاج، جب مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ الله علیہ کو بلوایا اور انسے دعا کی درخواست کی۔وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا ،مگر تو باز نہ آیا …آج حجاج عبرت کا سبب بنا ہوا تھا. وہ اندر ،باہر سے جل رہا تھا ،وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔حضرت بن جبیر رضی الله تعالی عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی موت ہو گئی تھی۔جب دیکھا کہ بچنے کا امکان نہیں تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آئے۔ وہ بولا میں مر جاوں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ھو تو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا کیوں کہ لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہیں چھوڑیں گے۔
اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی موت واقع ہوئی۔ آج وطن عزیز ہندوستان میں بھی یہی حالات ہیں ، ملک میں ہر طرف ظلم کا پیمانہ لبریز ہورہاہے ۔ مسلمانوں پر گائے کے نام پر تشدد ہورہاہے ، کہیں مسجدوں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں تو کہیں نمازوں کو پڑھنے سے روکا جارہا ہے ،کہیں عورتوں کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ ہورہاہے تو کہیں ہماری داڑھیوں کو نوچا جارہاہے ۔ ایسے میں ہم جو ظالم حکمران مسلط ہیں ان کا بھی حشر یقینی طور پر ایسا ہی ہوگا مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو مسلمان بن کر رہنا ہوگا ۔ یقینا ہم نمازیں پڑھ رہے ہیں ، عبادتیں کررہے ہیں لیکن ان عبادتوں اور دعائوں میں اخلاص کی کمی ہے ۔ ہماری زبانوں سے جو دعائیں نکل رہی ہیں اس میں تاثیر ختم ہورہی ہے کیونکہ ہم اپنی عبادتوں کو انجام دینے سے پہلے وضو و غسل تو کررہے ہیں لیکن اپنی روح کی صفائی کا خیال نہیں رکھ رہے ہیں ۔ ہماری مسجدیں تو پاکیز ہ ہیں لیکن ان مسجدوں میں جانے والے ہم مسلمان سود خوری ، بے ایمانی ، رشوت خوری کی آمدنی کھا کر عبادتگاہوں کا رخ کر رہے ہیں ایسے میں ہماری دعائیں کیسے قبول ہونگی اور کیسے اللہ ہمیں ظالم حکمرانوں کے ظلم سے نجات دے گا ، اگر واقعی میں اللہ کی رحمت ہم پر نازل ہونا ہوتو ہمیں اپنے آپ کو صاف کرنا ہوگا پھر ظالموں کو اللہ اس دنیا سے پاک کریگا ۔ اللہ ظالم کی رسی دراز ضرور کرتاہے لیکن جب ظالم سے حساب لیتا ہے تو، فرشتے بھی خشیت الہی سے کانپتے ہیں، عرش ہل جاتا ہے۔اللہ ظالموں کے ظلم سےہم سب کو محفوظ رکھے۔۔آمین ۔
۔______________________
مضمون نگارکی راۓسے"صداۓ"وقت کااتفاق ضروری نہیں!قارٸین اپنےتبصرے/مراسلےبراۓاشاعت بھیج سکتےہیں۔