Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 23, 2019

ہریانہ کا گروگرام( گڑگاو) ،، اور مولانا حسین احمد مدنی !!!


ابو سعد چارولیہ/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
کل سے دل و دماغ پر عجیب و غریب کیفیت طاری ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا، ہریانہ کے گڑگاؤں میں کسی مسلم فیملی کو فرقہ پرستوں نے گھر میں گھس کر بے دردی سے مارا، عورتوں کی فریادیں سن کر کلیجہ کانپتا ہے، تین سال کے بچے تک کو نہیں چھوڑا گیا،انٹریو اتنا درد ناک تھا کہ مجھ سے سنا نہیں گی.
حیرت ہے کہ گھر میں پانچ چھ مرد موجود تھے، اگر یہ سب مل کر کسی ایک فسادی کو پیٹ دیتے تو جوابا وہ صرف اچھی خاصی مارکھاتے، جو وہ یوں بھی کھانے والے تھے، مگر آئندہ کے لیے فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوجاتے اور یہ قربانی عامۃ المسلمین کے لیے بڑی سود مند ثابت ہوتی.
ہریانہ کے اس واقعے کو سن اور پڑھ کر فورا شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی وہ للکار و صدا یاد آگئی جو اس مردِ قلندر نے آزادی کے بعد پھوٹ پڑنے والے فساد کے دوران دیوبند کی جامع  مسجد سے مسلمانانِ ہند کے نام بلند کی تھی اور جس نے ڈرے سہمے مسلمانوں میں ہمت و حوصلے کی روح پھونک دی تھی، پڑھیے اور محسوس کیجیے کہ لفظ لفظ اور حرف حرف میں ہمت و حوصلے اور جرات و بصیرت کا کیسا طوفان بپا ہےاور اُس دور کے حالات اور آج کے حالات میں کس قدر مماثلت ہے! پڑھیے اور اُس فقیرِ خدا مست کی روح کو سلام کیجیے جو "قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید" کا مصداق تھا
شیخ الاسلام فرماتے نہیں للکارتے ہیں:
مسلمانو! اگر تم حالات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لو اور اللہ پر بھروسہ کرکے فسادیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑے ہوجاؤ تو اپنے وطن اور عوام کو تباہی کے اس جہنم سے نکال سکتے ہو.
مسلمانو! آج خوف اور بزدلی کا جو عالم ہے اس کے تصور سے بھی شرم آتی ہے، گھروں میں بیٹھے ہوئے ڈرتے ہو! راستہ چلتے ڈرتے ہو! اپنی بستیوں میں رہتے ڈرتے ہو! کیا تم انہیں بزرگوں کے جانشین ہو جو اس ملک میں گنی چنی تعداد میں آئے تھے جب یہ ملک دشمنوں سے بھرا ہوا تھا؟ آج تم چارکروڑ کی تعداد میں اس ملک میں موجود ہو، یوپی میں تمہاری تعداد پچاسی لاکھ ہے، پھر بھی تمہارے خوف کا یہ عالم ہے کہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ رہے ہو! آخر کہاں جارہے ہو؟ کیا تم نے کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ لی ہے جہاں موت تم کو نہیں پاسکتی؟ جُبن، بزدلی اور خوف کو اپنے دل سے نکال دو، اسلام اور بزدلی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، صبرواستقلال کے ساتھ مصائب کا مقابلہ کرو، *کبھی فساد کی ابتداء مت کرو، *اگر فسادی خود تم پر چڑھ آئیں *تو ان کو سمجھاؤ، لیکن اگر *وہ نہ مانیں اور کسی طرح باز نہ آئیں تو پھر تم معذور ہو، *بہادری کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرو اور اس طرح مقابلہ کرو کہ *فسادیوں کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے،تمہاری تعداد خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو، مگر قدم پیچھے نہ ہٹاؤ اور اپنی غیرت و حرمت کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے دو، *یہ عزت اور شہادت کی موت ہوگی*، اس ملک کو تم نے خون سے سینچا ہے آئندہ بھی اپنے خون سے سینچنے کا عزم رکھو، یہی ملک سے حقیقی وفاداری ہے، اس ملک پر تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے باشندے کا.
وفاداری کے اظہار کا جو ڈھنگ تم نے اختیار کررکھا ہے وہ نہ مفید ہے اور نہ ضروری، آج ملک کے ساتھ وفاداری یہ ہے کہ ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ فرقہ پرستی کے جراثیم کا خاتمہ کردو، وفاداری کے پرانے طور رفیق اب بدل چکے ہیں، اب افسرانِ حکومت یا حکومت کے ساتھ وفاداری کے کوئی معنی نہیں، جب تک اس ملک میں جمہوریت کا نام و نشان باقی ہے حکومت ہم خود ہیں،وزرائے حکومت کو ہم نے اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے بھیجا ہے، تاکہ وفاداری کے ساتھ ملک اور اہلِ ملک کی خدمت کریں، یہ ثابت کرنا ان کا فرض ہے کہ وہ عوام کے وفادار اور ملک کے سچے خیر خواہ اور خادم ہیں، ہم کو ان سے باز پرس کا حق ہے، پھر اس غلامانہ وفاداری کا کیا مطلب؟
بلاشبہ ملک کے ساتھ وفاداری ملک میں ہر بسنے والے کا قومی فریضہ ہے، لیکن اس وفاداری کا معیار کسی خاص مذہب یا نظریے کی پیروی نہیں ہے، کیا ہندوستان کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے خون نہیں بہایا؟ کیا یہاں رہنے والے سب اس ملک کے وفادار رہے ہیں؟
اس لیے مسلمانو! ڈرو نہیں، حق کے ساتھ رہو اور بہادری و ہمت سے حالات کا مقابلہ کرو اور ضرورت پڑنے پر مقابلہ کرتے ہوئے جان دینا پڑے تو دے دو کہ یہی ملک وملت کے ساتھ وفاداری کا تقاضا ہے
(مآثرِ شیخ الاسلام)