Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, March 9, 2019

سپریم کورٹ، ثالثی، قانونی، سماجی مطالبات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک تجزیہ۔


تحریر/توقیربدرقاسمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
حالیہ"بابری مسجد "تنازع پر عدالت عظمٰی نے جو ثالثی کا سجھاٶ دیا ہے.وہ ملک بھر میں اچھا خاصا بحث کا موضوع بنا ہوا ہے.عوامی قاٸدین سے لیکر قانونی ماہرین تک سبھی بول رہے ہیں.مدیران اخبار سے لیکر نیوز چینل کے اینکرز سبھی اپنی اپنی سی لکھ اور کہہ رہے ہیں.رہ گیی بات سوشلتان پر ڈٹے نام نہاد ہوشیاروں کی،تو انکا کہنا ہی کیا؟ان سب کو دیکھ،سن اور پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ بہتر تو یہی ہوتا کہ اتنی مدت و بحث و مباحثے نیز مطلوب وقت کے بعد عدالت عظمی اپنا فیصلہ ہی سنا دیتی،تاکہ ایک طرف دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا وہیں دوسری طرف مجرم اور امن پسند دونوں کا کردار نکھر کر سامنے آجاتا.ایسا اس لیے بھی تاکہ جن لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر ایک قایم و آباد مسجد پر حملہ کرکے اسے مجرمانہ طور پر منہدم کیا،ملک اور اپنے مذہب کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی کروای،ساری دنیا میں جن کی پہچان ایک مجرم criminal کی بنی،انہیں انکی مجرمانہ عمل کی سزا ملتی،ساری دنیا میں عدالت عظمی کا وقار نہ صرف بلند ہوتا،بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے ایک مثالی و آییڈل روپ میں یاد کیا جاتا!جبکہ مصالحت و مفاہمت کے اسٹیج پر جاکر یہ عین ممکن ہے کہ پانسا ہی پلٹ جایے،یہی نہیں یہ سوچ کر ہی جھر جھری سی آجاتی ہے،کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دادا گیری کے زعم میں جن ہاتھوں نے دندناتے ہویے دن کے اجالے میں میڈیا کی آنکھوں میں قید ہوکر مسجد کو شہید کیا،وہ اسے اس ثالثی والے سمجھوتے کے دروازے سے ہتھیانے میں کہیں کامیاب نہ ہوجائیں اور انکے جرم پر وہ پردہ پڑے کہ میدان حشر میں ہی وہ ان سے اٹھے!اس لیے سبھی منتظر انصاف یہی چاہتے تھے کہ کاش فیصلہ ہوجاتا! پر اب تک ایسا نہیں ہوپایا!
رب ہی جانے ایسا کون سا فلسفہ ہے کہ معاملہ فیصلے کی ہاتھوں سے پھسل کر"ثالثی" کی زنبیل میں جاگرا ہے.
اب دیکھیے اس زنبیل سے نکلتا کیا ہے؟
اسی حوالے سے آج کا کالم آپ کی خدمت میں پیش ہے.
جیسا کہ بتایا گیا"بابری مسجد ورام جنم بھومی"تنازع پر'عدالت عظمی' کی طرف سے مقرر کردہ عمل ثالثی"Mediation"کی نگرانی میں ایک پائیدار حل تک پہونچنے کی بات ہورہی ہے.اس کافلسفہ بتاتا ہے کہ عموما ثالثی کا طریقہ اس وقت اپنایا جاتا ہے، جب فریقین کے حق میں 'فیصلے'سے بہتر 'سمجھوتے'کو ہی سمجھاجاتا ہے.
ہمارے قانونی دفعات میں ثالثیMediaton ،پنچایتیArbitration یا مصالحتیConciliation کا نظام الگ سے مستقل کویی علیحدہ دستور نہیں رکھتا ہے،بلکہ یہ دفعہ 89 جو ہے جو "conciliation مصالحت" اور "arbitration پنچایتی" کے ساتھ ساتھ"Mediation ثالثی"کو بھی پیش کرتا ہے.
اسکی نوعیت،تفصیل و تعیین اور طریقہ کار اسی دفعہ کے ذیلی دفعات میں موجود ہیں.
اس "Mediation(ثالثی)پر متذکرہ بالا تنازع کے تناظر میں تجزیاتی گفتگو کرنے سے قبل عدالت عظمی"Supreme Court"کا ایک بیان یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے.ماہرین قانون کہتے ہیں کہ عدالت عظمی نے Efcon infrastructure
پر دایر مقدمے کی سماعت جب کی تھی تو اس وقت جب نوبت فریقین یعنی مدعی اور مدعی علیہ کے مابین ثالثی کرانے کی آیی،تو اسے لیکر سن دوہزار دس2010 میں عدالت عظمی نے خود یہ بیانStatement جاری کیا تھا کہ جس معاملے سے کثیر تعداد میں افراد کا مفاد وابستہ ہو،اس میں ثالثیMediaton نہیں کرای جاسکتی، کیونکہ ثالثی میں فریق کی رضامندی لازمی ہوتی ہے اور اتنی تعداد میں نوٹس جاری کرکے سبھی سے اسکی رضامندی کی سند حاصل کرنا ممکن نہیں!
اب یہاں اس جاری کردہ بیان کو دیکھیے اور حالیہ تنازع میں فقط کثیر ہی نہیں کبیر تعداد میں فریقین کی نزاکت کو سامنے رکھیے!پھر فیصلہ کیجیے کیا کروڑوں لوگوں کے عقیدے سے جڑے متذکرہ بالا حساس معاملے میں ایسا ہوپانا ممکن ہوگا؟یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا سوال خود ہی ہے!
چلیے کچھ دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ بات"Mediation ثالثی"کی شروع ہو بھی جاتی ہے تو اسکے لیے"آٹھ ہفتے کی مدت"جو طے کی گئی ہے،کیا وہ پندرہ ہزار صفحات پر مشتمل الہ آباد کورٹ کے صرف فیصلے کو پڑھنے کے لیے کافی ہے؟اس پر لاکھوں صفحات پر مشتمل الگ الگ زبانوں میں دستاویزات اور اسکے تراجم کا بھنڈار کسی پہاڑ سے کم نہیں!اسکا کیا ہوگا؟ہاں ایک کام قابل تحسین ضرور ہوگا یہ وہ کہ اس صورت میں اسی دوران جنرل الیکشن اس قضیے کو چھیڑے بغیر ہوپانا ممکن ہو جایگا.
اس کے بعد آگے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ قانونی طور پر "ثالثی کے موثر و مفید ہونے کے لیے"دونوں فریق کا رضاکارانہ طور پر آگے آنا ایک فطری کشش قانون مسلم ہے.بغیر فریقین کی رضامندی کے نہ تو کویی ثالثی ثالثی ہوسکتی ہے اور نہ کسی پائیدار حل پر پہونچنا ممکن ہوتا ہے.اب اس فطری کشش اور مسلّم قانون کی روشنی میں یہ بھی دیکھیے کہ اس قضیے میں واقعیت و حقایق کا اس کشش اور مسلّم قانون سے کس قدر لگاؤ ہے؟آپ سبھی جانتے ہیں کہ اگر مسلم فریق کے سبھی خاص اور بڑے نمایندے اگر متفقہ طور پر مان بھی لیتے ہیں.واضح رہے"خاص اور بڑے نمایندے"اس لیے لکھنا پڑ رہا ہے،تاکہ چھوٹے اور عام نمایندے و عوام اس سے خارج رہیں،کیونکہ اب تک سبھی کی تان اسی پر آکر ٹوٹ رہی ہے کہ جب"یہی سب"کرنا تھا تو پھر قوم کے جذبات سے ستائیس سالوں تک کیوں کھیلا گیا؟انکے بیچ جذباتی بھڑکیلے بیان داغ کر کیوں اربوں روپے کا چندہ کیا گیا؟ان غیر محسوب وغیرمحتسب رقومات پر اپنی اپنی قیادت کی برانڈگ کیوں کی گئی؟انہیں مذہب کے نام پر وکیلوں کی فیس میں پانی کی طرح کیوں بہایا گیا؟اسی طرح سے چھوٹے موٹے اس سانحے سے متعلق براہ راست یا بالواسطہ فسادات کیوں برپا ہویے؟اور پھر اس بہانے چندے کا ایک لامتناہی سلسلہ بار بار کیوں شروع ہوتا رہا؟آخر ان پیسوں سے قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے کے لیے سماجی رفاہی اور تعلیمی میدان میں دیر پا و پُراثر کام کیوں نہیں کیے گئے؟ملک بھر میں ماڈرن اسلامی اسکول و کالجز ،ہسپتال و میڈیا ہاؤسز سے محروم ہم کیونکر رہے؟ہم اب تک ان سبھی ذرایع کے لیے دوسروں کے بنے بنایے نظام العمل میں دست نگر ہم کیوں ہیں؟اور تو اور بالآخر ہمیں وہ دن دیکھنا پڑا کہ تاریخ کا پہیا ایسا گھوما کہ گھومتا ہی چلا گیا. کل مسجد توڑی گیی آج تعلیم گاہوں کے راستے ہمارے گھر کی عزت محفوظ نہیں!!عوامی و عام نمایندے کی بات تو اور بھی بہت ہیں،انہیں آج کے دور میں سوشل میڈیا پر دیکھ پانا کویی مشکل امر نہیں،تاہم اگر ان سب کے باوجود اس مسلم فریق کی طرف سے بات بن بھی گیی تو دوسرے فریق جو رام للّہ کے وکیل خواہ ہندو مہا سبھا ہو، وشو ہندو پریشد ہو، بجرنگ دل یو یا یوپی سرکار! آخر ان سبھی کا کا کیا جایے؟کیونکہ یہ سبھی تو ابھی تک اس عمل ثالثی Mediation سے انکاری ہی ہیں.
یہی نہیں بات عقیدے اورآستھا کی ہے،لہٰذا اس مقدس جذبے کی بنیاد پر ہر ایک اپنے اپنے دعوی پر اٹل ہی رہیں گے، اسے بتانے کی ضرورت نہیں،جبکہ ثالثی کے اندر مفاہمت و مصالحت میں "لو اور دو Give&take" والی منطق کام کرتی ہے. یعنی اپنے اپنے دعوی سے دستبردار ہونا یہ اس میں طے ہوتا ہے.اس پہلو سے بھی اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ عمل ثالثی کسی ٹیڑھی کھیر سے کم نہیں!
ثالثی کروانے والے ثالث جنہیں عدالت یا پارٹی مقرر کرتی ہے،ان میں خود مندرجہ ذیل شرطیں بھی قانونی طور سے پای جانی لازمی اور ناگزیر ہیں.اول یہ کہ ثالث خود کسی فریق کا طرفدار نہ ہو.ثانی ثالث کا خود اپنا مفاد اس متعلقہ معاملے میں دور دور تک نہ دکھتا ہو،ثالث:یہ کہ اس ثالثی کروانے والے کی متعلقہ معاملے کی مہارت پوری رکھتا ہو.رابع:اس پر کویی مقدمہ نہ ہو اور نہ ہی کسی مقدمے میں ماخوذ ہوا ہو.دیکھیے
اب قانونی ماہرین ہی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہاں ریٹائرڈ جج جسٹس خلیف اللہ کلیم اور معرف ہندو راہنما لیونگ آف آرٹ کے سرپرست سری سری روی شنکر کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے.یعنی یہ حضرات کس حد تک مسجد و مندر کے لیے طرف دار ہوسکتے ہیں یا ہیں؟اسے اپنے اپنے طور پر دیکھنے کے بعد زیادہ دماغ سوزی کی ضرورت نہیں!جبکہ دہلی میں ایک پروگرام کے انعقاد کے بعد ماحولیات کے چھیڑ چھاڑ کے الزام میں سری سری روی شنکر خود ایک ہر جانے کے مقدمہ کا سامنا بھی کررہے ہیں!چنانچہ قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے قضیے میں موقع مناسب کو دیکھتے ہوئے ثالثی کا کردار نبھانے کے لیے کسی ملحد،دہریے اور مذہب سے دور کسی فطرت پسند Naturalist کو مقرر oppiont کیا جاتا تو یہ بہتر ہوتا،بصورت دیگر مسلم چہرہ مسجد کے پس منظر میں اورروی شنکر جی مندر کے حوالے سے اس ثالثی میں کس حد تک فٹ بیٹھتے ہیں؟یہ آنے والے دنوں موضوع بحث بن سکتا ہے.
ثالثی کا طریقہ کار:
اولا ثالثی کرانے والے دستاویزات اور دعوی کے پیش نظر اپنا ایک عام بیان دیتے ہیں،ثانیاً پھر فریق کو الگ الگ رکھ کر ملتے ہیں انکا عندیہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے متعلقہ دستاویزات کو فریق کے بیان کی روشنی میں دیکھتے ہیں.ثالثاً پھر دونوں فریق کو سامنے رکھ کر انکی رضامندی سے اپنا بیان بطور نتیجہ و قابل قبول فیصلے کے طور پر رکھتے ہیں.جسے دونوں فریق مان لیں تو بہتر ہے،ورنہ بات پھر عدالت اور کورٹ میں ہی جا پہونچتی ہے.ایسا بالکل نہیں ہے کہ دونوں فریق کی بیٹھک ہویی اور ایک دو میٹنگ میں بات چیت کی کوشش کی گئی.پھر ایک نے دعوی چھوڑا دوسرے نے ملکیت ثابت کی اور بات ختم!
اگر ایسا ہو تو پھر کورٹ اور عدالت بے معنی ہوکر رہ جایے گی.دعوی اور ثبوت سبھی کو لیکر کورٹ کا رخ کرنا اور پھر کورٹ کا ثالثی کا سجھاو دینا یہ سبھی فعل عبث کا اظہار نامہ ہی ہوگا.
چناچہ اب لازمی ہے کہ اگر فریقین تمام شرطوں کے ساتھ ثالثی کے بینچ پر آکر بیٹھنا لازم سمجھیں تو قومی سلامتی کے پیش نظر ضرور بیٹھیں!ثالثی کے کردار بھی بہتر ہوں. اسکی یقین دہانی کرلیں! بات رضامندی سے بنا کسی دھونس ورعب کے ہو،اسکا تیقن کرلیا جایے! اور انصاف سے پر پایدار حل کی طرف پیش قدمی کی جایے.مجرم کسی بھی صورت بچنے نہ پایے. دنیا اسی کی منتظر ہے.بصورت دیگر یہ حل "ثالثی"کے نام پر نہ صرف ایک بھونڈا مذاق اور انتہائی بودا کردار ثابت ہوگا،بلکہ یہ بودا عمل مستقبل میں مجرموں کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بن سکتا ہے،جو آیندہ کبھی بھی کہیں بھی کسی کی بھی عزت و پراپرٹی پر انہی بھونڈی مثالوں اور حوالوں کے بل پر ٹوٹ پڑیں گے،جسے تاریخ میں نہ جانے کن الفاظ میں یاد رکھا جایے گا؟ہم فی الحال بتا نہیں سکتے!