شہاب مرزا کی قلم سے/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
فلموں میں اداکار جنگ کرتا ہے مارنے اور مار کھانے کی اداکاری کرتا ہے کبھی سوفٹ کی چھلانگ لگاتا ہے کبھی اداکار حزب مخالف بیس بیس لوگوں کو ایک ہی فائٹ میں روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑا دیتا ہیں دیکھنے والے اسی کو اپنی محنت کی کمائی کا پیسہ خرچ کر کے دیکھتے ہیں اور انکے شیدائی بن جاتے ہیں لیکن پردے کے پیچھے کی حقیقت اس منظر سے مکمل طور پر منافی ہوتی ہے آپ کی جیب سے گاڑھے پسینے کے اربوں کھربوں روپے کی کمائی میں مارنے والا اور مار کھانے والا یعنی کامیاب اداکار اور حزب مخالف برابر کے شریک
ہوتے ہیں
نا مارنے والا مارتا ہے اور نا ہی مار کھانے والا مار کھاتا ہے دولت سب کماتے ہیں لیکن نقصان آپ کی جیب کا ہوتا ہے اس جمہوری تماشے کا بھی یہی حال ہےسیاست اس تماشے کی زیراکس کاپی
ہے
مثلاً مہاراشٹر پارلیمانی انتخابات میں فسطائی قوتوں کو شکست دینے کے نام پر سیکولر طاقتوں نے ٹکٹ خرید کر انتخابات میں کھڑے ہیں دونوں میں جذبات کو اشتعال دلانے والے بیانات اور باہمی اختلافات کی شدت ذات پات اور مذہب کے تحفظ کی قسمیں، سیکولر ازم اور دستور ہند کی پاسبانی کے اہداف غرض ایک طوفان بدتمیزی میں سارے ووٹرس کو بے وقوف بنا کر اقتدار کے مزے لوٹنے کی دوڑ لگی ہے حتا کہ مہاراشٹر میں کانگریس، این سی پی اور بی جے پی شیوسینا اتحاد کے مابین زبردست معرکہ جاری ہےیعنی یہ پہلے ہی طے ہو چکا ہے کہ کونسا امیدوار کس سیٹ سے جیت حاصل کرنے والے ہے اس پورے سیاسی منظر کے پیچھے ایک انتہائی خطرناک پس منظر ہے یعنی یہ پردے کے پیچھے کی کہانی پوشیدہ ہےاگر اس پس منظر پر ہماری نظر پڑجائے تو آنکھیں پھٹ کر رہ جائیں گی اور ہمارے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والوں کے چہرے بے .
نقاب ہو جائیں گے
کانگریس شیوسینا کے ساتھ اور این سی پی، بی جے پی کے ساتھ سودے بازی میں شامل ہے کانگریس کے کئی لیڈر اپنا اقتدار بچانے کی خاطر بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں اور سیکولرزم سے توبہ کرکے ہندوتوا کے گنگا میں نہاکر اپنا شدھی کرن کر چکے ہیں کانگریس سے بی جے پی میں آ کر اقتدار کا مزہ لوٹ کر اب دوبارہ کانگریس میں آکر ہندوتوادی چولہ اوڑھ کر سیکولر ازم کا نقاب چہرے پر جڑ دیا ہے
بانوے، دانوے کھانوے کانگریسی لیڈروں کے اندرونی مدد لے کر اپنے عزیز و اقارب بہنوئی ،خسر، داماد، سالے، اور قریبی رشتے داروں کو اقتدار تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں نہ نقاب در نقاب کے اس کھیل میں بیچاری عوام سیکولر ازم اور فاشزم کا خونی کھیل میں پھنس گی ہے غرض کیے سیکولر ازم اور فاشزم اقتدار کی چکی کے دو ایسے پاٹے ہی جس میں بے قصور عوام پیسی جا تی ہےغرض کے نہ کوئی سیکولر ہے نہ کوئی ہندوتوادی بس ایک کھیل نقاب در نقاب کا اور اس کا پس منظر میں عوام کے حقوق کا گلا گھونٹنے کا کام جاری ہے 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں پورے ہولناکی کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جائیں گا اور ان میں کامیابی انہیں حاصل نہیں ہوگی جنھیں عوام اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے بلکہ کامیابی انہیں حاصل ہوگی جنہوں نے عوام کے سامنے ایسے حالات تشکیل دیے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی عوام مجبوراً انہی کو ووٹ دیں جنھیں اقتدار کے پجاری چاہتے ہیں عوام صرف ووٹ دے سکتی ہے اپنا نمائندہ اپنی مرضی سے منتخب نہیں کر سکتی اور نہ ہی ان کی مرضی پر اقتدار پر کوئی فائز ہو سکتا ہےعوام سبھی پہلو پر نظر رکھتی ہے اور سمجھتی بھی ہے لیکن یہ اقتدار کے پجاری غریب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اقتدار حاصل کر لیتے ہے سبھی سیاسی تماشے کو دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی بولنے کے لئے تیار نہیں سب پوشیدہ کھیل سے اس طرح کا لا تعلق ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہوں بہرکیف انتخابات کے نتائج بتائیں گے کہ اس کھیل میں کون کون ملوث ہے کس نے کونسا رول ادا کیا اس کے لیے نہ پہلے آواز اٹھئ اور نا آگے اٹھنے کی امید ہے سیاسی حمام میں سبھی ننگے ہیں بس اپنی برہنگی کو چھپانے کے لئے ایک دوسرے پر جھوٹ کا پردہ ڈالتے ہیں یہ کھیل زیادہ عرصے سے چل رہا ہے اور اسی طرح چلتا رہے گا صرف چہرے بدل جائیں گے کام وہی ہوگااس لیے اب یہ باتیں محض ایک فلمی داستان ہو چکی ہے جسے دیکھ کر عوام اپنی جیبیں اپنا دماغ اپنا شعور اور اپنا جگر پردے پر نظر آنے والے منظر کو نچھاور کر رہے ہیں لیکن وہی ہو رہا ہے جو پردے کے پیچھے ہے…