Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, April 6, 2019

مسلمان کب کریں گے ووٹنگ ،، خود جیتنے کے لئیے؟؟؟

ستر سالوں سے مسلمان کسی کو جتانے اور کسی کو ہرانے کیلئے ووٹنگ کررہے ہیں ،خود جیتنے کیلئے کب کریں گے حق رائے دہی کا استعمال--

شمس تبریز قاسمی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
آزاد ہندوستان میں کل 16 انتخابات ہوچکے ہیں ۔17 واں لوک سبھا انتخاب ہمارے سامنے ہے۔ 1952 میں ہوئے پہلے لوک سبھا انتخابات سے لیکر اب تک کی تاریخ کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری ہمیں صفر نظر آتی ہے ۔ کبھی مسلمانوں نے پنڈٹ نہرو کا ساتھ دیا ۔کبھی اندرا گاندھی کو انہوں نے اقتدار تک پہونچایا ۔کبھی جے پرکاش نارائن نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ شامل کیا ۔کبھی ملائم سنگھ یادو ،کبھی لالو پرسادیادو ،کبھی مایاوتی ،کبھی نتیش کمار او رکبھی رام ولاس پاسوان کا مسلمانوں نے بھر پور ساتھ دیا لیکن اس پورے سترسالہ سفر میں مسلمانوں نے خود اپنے لئے کیا کیا ؟۔کیا کبھی مسلمانوں کو سیاسی بالادستی نصیب ہوئی ؟کیاکبھی حکومت میں حصہ داری دی گئی ؟۔کیا کبھی مسلمانوںنے کنگ میکر بننے کے بجائے خود کنگ بننے کی کوشش کی ؟۔ کیا کبھی مسلمانوں نے کسی کو جتانے اور کسی کو ہرانے کے بجائے خود جیتنے کی کوشش کی ؟ ایسا نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں کیلئے ممکن نہیں ہے ۔مسلمان خود جیت نہیں سکتے ہیں ؟ مسلمان سیاسی بالادستی حاصل نہیں کرسکتے ہیں ؟ لیکن مسلمانوں نے تجربہ نہیں کیا۔ خوف اور دہشت سے نکلنے کی کوشش نہیں کی ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد سے زائدہے ۔ آسام اور بنگال میں 34 فیصد مسلم آباد ی ہے ۔یوپی میں 17 فیصد مسلم آبادی ہے ۔ بہار میں 18 فیصد مسلم آبادی ہے ۔ کسی بھی ایک کمیونٹی کی ایک انتی بڑی تعداد اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کافی ہے ۔ خاص طور پر بنگال اور آسام میں تنہا مسلمان اپنی حکومت بناسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہورہاہے۔ برہمن ، یادو اور دلتوں کے ساتھ مسلمانوں نے رہنا پسند کیا خود ان کو اپنے ساتھ شامل کر کے سیاسی بالادستی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
ماضی میں اس طرح کی جب بھی کوئی کوشش ہوئی ۔کسی مرد مجاہد نے ہندوستان کے آئین اور دستور کے مطابق کوئی سیاسی پارٹی بنائی ۔سیاسی سطح پر مسلمانوںدلتوں اور دیگر برادارن وطن تک اپنی پہونچ بنانے کی کوشش کی تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت خود مسلمانوں نے کی ۔ علماءدانشوران سمیت سبھی طبقے نے ایسے لوگوں کو مسلما ن مخالف اوربی جے پی کا ایجنٹ قرار دیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ ایسی تحریکوں کو روکنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ہندوستان کے سارے ہندو متحد ہوجائیں گے ۔معاملہ کمیونل ہوجائے گا ۔ووٹ پولرائزڈ ہوجائے گا ۔مسلمان تنہا بچ جائیں گے ۔
میر ی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ ووٹ کیسے پولرائزڈہوجاتاہے۔ یادو برادری کی علاحدہ پارٹی ہے ۔ سنہیوں کی علاحدہ پارٹی ہے ۔ پاسوانوں کی علاحدہ پارٹی ہے ۔ دھوبیوں کی علاحدہ پارٹی ہے ۔دلتوں کی علاحدہ پارٹی ہے ۔کانگریس اور بی جے پی پر پہلے برہمنوں کا قبضہ ہے ۔ سبھی اپنی کمیونٹی کی قیادت والی پارٹی کو وٹ دیتے ہیں اور ان میں سے جو مسلمانوں کو لبھانے میں کامیاب ہوجاتاہے وہ اقتدار تک پہونچ جاتاہے ۔ کبھی نہر و پریوار نے مسلمانوں کا سہار الیکر اقتدار حاصل کیا ۔یوپی میں ملائم سنگھ اور مایاوتی نے مسلمانوں کا ساتھ حاصل کرکے حکومت بنائی ہے ۔بہار میں لالو پرساد اور نتیش کمار نے یہی کیاہے ۔ ایک مرتبہ رام ولاس پاسوان نے یہی کرنے کی کوشش کی تھی ۔ بنگال میں ممتامسلمانوں کے ووٹ پر حکومت کررہی ہے ۔آسا م میں کانگریس نے کبھی ایک مسلمان کو وزیر اعلی تک نہیں بنایا اور اب وہاں ایک مسلمان کی قیادت والی پارٹی سرگرم ہوئی ہے تو کانگریس پہلی فرصت میں اسے ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔
سبھی کمیونٹی نے اپنی منزلیں طے کرلی ہے ۔ سبھی نے اپنے راستے کا انتخاب کرلیاہے ۔ بھٹکا ہوا صرف مسلمان ہے جنہیں ستر سالوں کے بعد بھی یہی لگ رہاہے کہ اگر ہم نے سیاسی پارٹی بنائی ۔ مسلم لیڈر شپ کو تسلیم کرلیاتو آر ایس ایس ہمارا قتل عام کردے گی ۔ بی جے پی حکومت بنالے گی ۔ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوجائے گا ۔
یہ خوف اور ڈر سترسالوں سے دن بہ دن مسلمانوں کے درمیان گہرا کیاجارہاہے اور مسلمان اس کے شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ جب کانگریس کے دور حکومت میں دہشت گردی کے نام پر صرف مسلمانوں کی بے جاگرفتاریاں ہوتی ہے ۔ مسلم کش فسادات ہوتے ہیں تو الزام بی جے پی پرعائد کردیاجاتاہے ۔ بی جے پی حکومت میں ماب لنچنگ ہوتی ہے تو اس کیلئے بھی ذمہ دار بی جے پی ہوتی ہے اور پھر کانگریس کی واپسی کی دعا ئیں کی جاتی ہے۔
کانگریس نے مولانا ابواالکلام آزاد کو رامپور الیکشن لڑنے کیلئے بھیجا ۔ مسلمانوں کو انہیں حلقوں سے امیدوار بنایاجاتاہے جہاں مسلم ووٹ اکثریت میں ہوتے ہیں ۔اب تو المیہ یہ ہے کہ مسلم اکثریتی حلقوں میں بھی مسلم امیدوار نہیں اتارے جارہے ہیں ۔ دربھنگہ اور پورنیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ کبھی بھی کوئی پارٹی کسی مسلمان کو ایسے حلقہ سے امیدوار نہیں بناتی ہے جہاں مسلما ن ووٹرس قابل ذکرتعداد میں نہیں ہوتے ہیں ۔نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلم ووٹوں کی بنیاد پر جیت حاصل کرکے حکومت بناتی ہے او رپھر ان مسلم نمائندوں کو بے بس بنا دیتی ہے ۔پارٹی ٹائم لائن کی مجبوریاں ان کی زبان پر تالا لگادیتی ہے ۔ ایسے مسلم رہنما مسلم ووٹ حاصل کرکے ضرور جیت جاتے ہیں لیکن اپنی مسلم کمیونٹی کیلئے کچھ کرنہیں پاتے ہیں ۔ نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہوتی ہے کہ وہ کرنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ وہ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن پارٹی روک دیتی ہے ۔پارٹی سے بغاوت کی ان میں ہمت نہیں ہوتی ہے ۔ا ن کے پاس کوئی متباد ل نہیں ہوتاہے ۔ بعد میں ایسے لوگوں کو پارٹی نکال کر باہر کردیتی ہے اور ناکارہ ہوجاتے ہیں ،پھر نہ تو قوم میں ان کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی سماج میں ۔یہ سب اس لئے ہوتاہے کہ ہم دوسروں کی لیڈر شپ پر بھروسہ کرتے ہیں ۔اپنی قیادت پر اعتماد نہیں کرتے ہیں ۔
جمہوریت میں مخلوط حکومت سب سے اہم ہوتی ہے۔سیکولرزم کی مضبوطی اور جمہوریت کی کامیابی کیلئے مخلوط حکومت ضروری ہے۔ علاقائی پارٹیوں نے اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان میں ترقی کی ہے۔ اپنی کمیونٹی کے ووٹس کی بنیاد پر پارٹی قائم کی ہے اور سرکار پر دباو¿ ڈال کر اپنی کمیونٹی کے فلاح و بہبود کا کام کیاہے۔ تازہ مثال مدھیہ پردیش کی ہے جہاں کانگریس کی حکومت کو بی ایس پی کے دو امیدواروں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت نہ ملنے کی صورت میں کانگریس وہاں اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے گی۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد کانگریس سے مطالبہ کیاکہ دلتوں پر درج تمام مقدمات واپس لئے جائیں ورنہ ہم حمایت واپس لے لیں گے۔ کانگریس کی کمل ناتھ حکومت کو یہ دباو¿ قبول کرتے ہوئے مقدمہ واپس لینا پڑا کیوں کہ اگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے تو حکومت برقرار نہیں رہ پاتی۔ دلتوں کو یہ کامیابی اس لئے ملی کہ ان کی علاحدہ پارٹی تھی کانگریس کے ٹکٹ پر انہوں نے جیت حاصل نہیں کی تھی۔ کانگریس میں رہتے ہوئے دس ایم ایل اے بھی اپنی پارٹی سے یہ مطالبہ منظور نہیں کراسکتے تھے۔