Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 10, 2019

دار العلوم ندوة العلماء اور فسفہ لحیہ


تحریر/ عبد المالک بلند شہری۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . . 
      دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ علم و فن اور رشد و ہدایت کا وہ عظیم مرکز اور اہم ادارہ ہے جس نے روز اول ہی سے درستگی نظام تعلیم، اصلاح نصاب، رفع نزاع باہمی کے ساتھ ساتھ ایمان و عقائد، عبادات، معاشرت، معیشت و تصحیح اخلاق کی گہار لگائی اور مسلم معاشروں میں در آئی غیر اسلامی رسومات، جاہلی رواجات اور ہندوانی رسوم کا قلع قمع کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا...فضلائے ندوہ نے جہاں اپنی پرشکوہ تحریر، جاندار اسلوب اور علمی انداز میں مستشرقین اور اسلام مخالف فکروں کی ریشہ دوانیوں کا تعاقب کیا، ان کی سازشوں کو بے نقاب کیا اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی برتری و بالادستی کو واضح کیا وہیں دوسری طرح اپنے قول و عمل، کردار و گفتار، نشست و برخواست اور بود و باش سے مدنی تہذیب اور اسلامی ثقافت کو عام کیا...اکابرین ندوہ نے جن دم توڑتی سنتوں کے احیاء میں نمایاں کردار ادا کیا ان میں تمام انبیاء کی سنت داڑھی بھی ہے....... ندوۃ العلماء جس پر آشوب دور اور خوں آشام حالات میں قائم ہوا تھا وہ ہندوستان کی غلامی اور محکومی کا دور تھا...فرنگی سامراج کا قہر برصغیر کے چپہ چپہ پر جاری تھا..ان کا تسلط محض اقتصاد و حکومت پر  نہیں تھا بلکہ اس وقت کی عوام ذہنی طور پر بھی ان کی اسیر تھی. فرنگیوں کی تہذیب کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا اور اسے اپنا کر خوشی محسوس کی جاتی....خوردو نوش ، لباس، وضع قطع، عادات و اطوار غرض ہر چیز میں ان کی اندھی تقلید اور پیروی کی جاتی..  ملک کا ایک طبقہ ہر معاملہ میں فرنگیوں کے آستانہ  پر حاضری دیتا ور اپنے پیچیدہ مسائل کی گتھی سلجھا کر ذہنی سکون حاصل کرتا.... مسلمانوں کی اس حالت زار پر قوم و ملت کے غیور علماء کڑھتے اور سلگتے اور بساط بھر کوشش کرکے انہیں  قعر مذمت میں گرکر ہلاک ہونے سے بچاتے تھے.. اسلامی تہذیب و ثقافت اور مدنی سرمایہ کی حفاظت کی کے لئے دارالعلوم دیوبند، مظاہرعلوم، ندوۃ العلماء، پرسنل لاء بورڈ، تبلیغی تحریک وغیرہ  جیسی ہمہ گیر تحریکیں وجود میں آئیں... . اس دور میں علمائے ندوہ نے دیگر مکاتب فکر کے شانہ بشانہ رہتے ہوئے مسلمانوں کو اسلامی سرچشمہ، نبوی تہذیب، اسلامی وضع قطع سے منسلک رہنے کی دعوت دی اور ان کے سامنے اپنی تقریروں، تحریروں میں فرنگی تمدن کی خامیوں کو واشگاف انداز میں بیان فرمایا.......  جس سے الحمد للہ ماحول میں قدرے سدھار آیا، لوگوں کی توجہ اس اہم سنت کی طرف مبذول ہوئی اور انبیاء و صحابہ  و تابعین کی شکل و شباہت اختیار کرنے میں انہیں خوشی محسوس ہونے لگی. علمائے ندوہ نے اقوال کے ساتھ ساتھ افعال سے بھی اس سنت کو زندہ کرنے کا گراں قدر فریضہ انجام دیا.  بانی ندوہ مولانا سید محمد علی مونگیری رح(1846.1927)، علامہ شبلی نعمانی رح(1857.1914)، علامہ سلیمان ندوی رح(1884.1953)، علامہ سید ابوالحسن علی ندوی رح (1913.1999)نے تاحیات اس سنت کو سینہ سے لگائے رکھا اور حکمت و دانائی کے ساتھ اپنے متعلقین و منتسبین کو بھی اس کی طرف متوجہ کرتے رہے.. یہ مشاہیر  طلبائے ندوہ کو وقتا فوقتا ایمانی صلابت، تمسک بالکتاب، جمال تحریر و تقریر، اطاعت رسول کی طرف متوجہ کرتے اور  اپنے اقوال ناصحانہ سے ان کی اسلامی خطوط پر ذہن سازی  و سیرت سازی کرتے .الحمد للہ ندوہ کے جملہ نظماء، مہتممین، معتمدین تعلیمات، محدثین اور فقہاء ہمیشہ اس سنت پر سختی سے عمل پیرا رہے اور دوسروں کو تلقین کرتے رہے.... ندوۃ میں آگے چل کر علماء کے مشورہ سے کالجزز و یونیورسٹیوں کے طلبہ کو دینی علوم سے بہرہ ور کرنے کے لئے پانچ سالہ کورس کی شروعات کی گئی  جس میں داخلہ لینے کے لئے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور  عصری اسکولوں سے طلبہ امڈ پڑے - یہ ان کے دینی ذوق، اسلامی مزاج اور علم دین سے شغف کی بات تھی.. چونکہ یہ واردین بساط علم و فضل دوسرے ماحول سے آتے تھے اس لئے ان کی وضع قطع غیر شرعی اور لباس نا مناسب ہوا کرتا تھا ان کو داخلہ تو مل جاتا لیکن اساتذہ ان کی اصلاح کی بڑی فکر رکھتے تھے... ظاہر سی بات ہے اصلاح ایک ہی لمحہ میں ہونے کے بجائے بتدریج ہوتی ہے.. . قرآن و حدیث اور سیرت کی کتابوں سے بھی اسی کے اشارہ ملتے ہیں... ان جدید طلبہ کو تحصیل علم دین کا بیش بہا موقع دیا جاتا اور ان کی اسلامی خطوط پر ذہن سازی کی جاتی جس کے نتیجہ میں فرائض کی پابندی نہ کرنے والے تھوڑے ہی دنوں میں فرائض کے ساتھ ساتھ تہجد و نوافل کا اہتمام بھی شروع کردیتے اور واجبات و سنن موکدہ کے ساتھ ساتھ مستحبات اور مباح چیزوں کا بھی خیال کرنے لگتے..لیکن شو قسمتی یہ رہی کہ اس طبقہ کی وجہ سے بعض دیگر مکاتب فکر کے درمیان ندوہ کے تعلق سے غلط فہمی پیدا ہوئی.انہیں لگا کہ ندوۃ العلماء میں اسلامی وضع قطع پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی بلکہ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا کہ ندوہ مدرسہ نہیں بلکہ کالج ہے  .. اس کی شروعات یوں ہوئی کہ کوئی صاحب  ایک مرتبہ پہلی دفعہ ندوہ تشریف لائے..؛انہوں نے یہاں کے اساتذہ سے ملاقاتیں کیں، لائبریریاں دیکھیں، اروقہ دیکھے اور طلبہ سے ملے جس سے ان پر خوشگوار اثر پڑا.. .لیکن جب  ان کی ملاقات جدید  گروہ سے ہوئی تو انہیں یہ دیکھ کر قلبی صدمہ پہونچا کہ ندوہ کے طلبہ داڑھی تراشتے ہیں اور نامناسب لباس پہنتے ہیں.. اس وقت انہوں نے کہا تو  کچھ نہیں البتہ ذہن میں شکوک ضرور پال لئے اور محض کم علمی کی بناء پر بدظن ہو کر واپس ہوکر اپنے علاقہ میں لوگوں کو اپنا مشاہدہ بتایا.. اگلی مرتبہ دو چار پھر آئے.. جس سے ان سادہ لوح لوگوں نے سمجھا کہ ندوۃ العلماء داڑھی کے معاملہ میں جمہور سے جداگانہ رائے رکھتا ہے اور اس کے یہاں داڑھی کی کوئی اہمیت نہیں، وہاں کے طلبہ کھلے عام داڑھیاں تراشتے اور کلین شیو کرتے ہیں..... یہ ندوہ العلماء اور اس کے اکابرین پر صریح بہتان تھا جو اس جدید طبقہ کی بنا پر  تیزی سے پھلتا پھولتا گیا.حالانکہ  یہ ایسی بات تھی جو اپنے جلو میں شمہ بھر بھی سچائی نہیں رکھتی تھی.  اکابرین ندوہ الحمد للہ قضیہ لحیہ میں شروع سے ہی جمہور اہلسنت و الجماعت کے ساتھ رہے ہیں. یہاں کے مخلص اساتذہ  گاہے شفقت سے، گاہے محبت سے، گاہے ناراضگی سے  طلبہ عظام کو سنت نبویہ پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے ہیں..... فقہائے ندوہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ داڑھی رکھنا واجب اور سنت موکدہ ہے . ایک مشت سے کم تراشنا ناجائز اور حرام ہے.  شرعی داڑھی وہی ہے جو ایک مشت ہو... داڑھی کاٹنے والا فاسق اور گنہ گار ہے. اس کی امامت بلاعذر مکروہ ہے.  یہ باتیں بغیر حوالہ کے نہیں کہی جارہیں.. فتاوی ندوۃ العلماء ان اہم اور وقیع فتاوی کا مجموعہ ہے جو دارالافتاء ندوۃ العلماء لکھنؤ سے وقتا فوقتا صادر کئے گئے ہیں. یہ فتاوی 3جلدوں پر مشتمل ہیں جن میں بہت اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے اس مجموعہ میں مولانا ناصر علی ندوی لکھنوی رح سابق شیخ الحدیث ندوۃ العلماء لکھنو،،(1933_2007) مولانا مفتی ظہور ندوی اعظمی رح؛ سابق مفتی اعظم ندوۃ العلماء(1927-2016)، مولانا مفتی طارق ندوی رح سابق مفتی دارالافتاء ندوۃ العلماء، مولانا مفتی نیاز احمد ندوی اعظمی مدظلہ  مفتی اعظم حال ندوۃ العلماء لکھنو( ولادت 1383 ھ) ، مولانا مفتی برہان الدین سنبھلی مدظلہ شیخ التفسیر ندوۃ العلماء(پ 1938)مولانا مفتی عتیق احمد بستوی مدظلہ معاون دارالافتاء( پ 1954)، مولانا مفتی ظفر عالم ندوی مدظلہ نائب مفتی اعظم ندوۃ العلماء( پ 1966) مولانا مفتی مستقیم ندوی مدظلہ مفتی دارالافتاء ندوۃ العلماء ( پ 1966) اور مولانا مفتی سید مسعود حسن حسنی ندوی مدظلہ ( پ 1975)  جیسے ماہرین فن اور فقہائے ندوہ کے فتاوی  ہیں  اس کی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر (361) پر یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اذان و اقامت باشرع آدمی کو کہنی چاہئے، داڑھی کاٹنے والا فاسق ہے اور فاسق کی اذان و اقامت مکروہ ہے..  اسی طرح جلد 2 صفحہ نمبر ( 339)پر لکھا ہے کہ ایک مشت سے کم داڑھی کاٹنے والے کے پیچھے نماز مکروہ ہوگی.. صفحہ نمبر (340)  پر لکھا ہے کہ یکمشت سے کم داڑھی رکھنا عمل فسق اور خلاف سنت ہے، صفحہ (341) پر صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ داڑھی رکھنا سنت موکدہ ہے.. =343) پر لکھا ہے کہ داڑھی کاٹنے والا فاسق ہے، صفحہ نمبر (344) پر  درج ذیل عبارت لکھی ہوئی ہے.. مردوں کے لئے داڑھی رکھنا واجب ہے، داڑھی اسلامی شعار ہے، تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت مستمرہ ہے، آںحضرت صلی اللہ علیہ اسلم کا ارشاد ہے، اپنی مونچھوں کوچھوٹا کرو اور داڑھی کو گھنی کرو. یعنی مقدار مسنون سے کم نہ ہو اور وہ ایک مشت ہے... واضح ہے کہ مطلق داڑھی رکھنا واجب یے اور ایک مشت رکھنا سنت موکدہ ہے، اس سے کم رکھنا مکروہ تحریمی ہے، یہ فعل فسق ہے.  متعدد دیگر جگہوں پر بھی اس کی وضاحت دوسرے انداز میں کی گئی ہے.. جب یہ بات دلائل و براہین کی روشنی میں واضح ہوگئی کہ محدثین و فقہاء ندوہ کے نزدیک یکمشت داڑھی رکھنا واجب ہے تو یہ بھی واضح ہوگیا کہ داڑھی کے تعلق سے موقف ندوہ وہی ہے جو مفتیان کرام نے بیان کیا ہے.  اسی وجہ سے ندوۃ العلماء میں داڑھی کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے، تمام اساتذہ الحمد للہ متدین، باشرع اور اسلامی وضع قطع کے حامل ہیں اسی طرح طلباء بھی اس سنت کا اہتمام کرتے ہیں البتہ بعض طلبہ مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر نقلی ہیروں کی شباہت اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جن پر اساتذہ کا عتاب وقتا فوقتا نازل ہوتا رہتا ہے. اساتذہ کی طرف سے داخلہ کے وقت تمام قاطعین لحیہ سے توبہ کروائی جاتی ہے، عہد و پیمان لیا جاتا ہے اور متشرع و متدین بننے کا وعدہ لیا جاتا ہے..... الحمد للہ اکثر طلباء اپنے وعدہ کو پورا کردکھاتے ہیں اور چند کو چھوڑ کر سب ہی متشرع بن جاتے ہیں....... درج ذیل سطور میں حوالوں کے ساتھ ندوۃ العلماء کا موقف بیان کردیا گیا ہے اس کے باوجود بعض ناہنجار، کم فہم، مغرب پرست اور ٹپوری قسم کے لوگ کالجوں اور یونیورسٹوں میں جاکر نہ صرف اپنے علمی ادارہ کے موقف سے روگردانی اور سنت نبویہ سے پہلو تہی برتے ہیں بلکہ داڑھی کی عظمت، اہمیت، شرعی حیثیت کے منکر، باغی اور اس کا مضحکہ و تمسخر اڑانے والے بن جاتے ہیں جو ادارہ، ملت اور دین کے نام پر کلنک اور بدنما داغ ہوتے ہیں...  کتنے افسوس کی بات ہے کہ  وہ مدارس جن کو اس لئے بنایا گیا تھا کہ اس کے فضلاء نا مساعد حالات  اور مخالف فضا میں سنت کی مشعلیں فروزاں کریں، طوفانوں کا رخ موڑ سکیں، الحاد و دہریت، بددینی اور فسق کی ہوا اکھاڑ سکں وہ خود مغربی ہلاکت خیز سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں اور فرنگی تہذیب کی رعنائیوں اور مکاریوں کے جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں.  جب کہ دوسری طرف بعض باہمت اور عظیم المرتبت لوگ زمانہ کو چیلینج دینے کی مضبوط طاقت رکھتے ہیں، وہ اپنی قوت ارادی، دینی حمیت اور اسلامی غیرت کی بناء پر ہر ماحول میں اسلامی شمع فروزاں رکھتے ہیں اور باطلی تھپیڑے انہیں اپنی لپٹ میں لے لینے سے قاصر رہتے ہیں ایسے باہمت، جری اور قابل تقلید لوگوں میں ڈاکٹر شفیق خان ندوی مدظلہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دھلی، ڈاکٹر احتشام احمد ندوی،  استاذ محترم مولانا ڈاکٹر ریخان ندوی مدظلہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں. یہ لوگ ندوی ثقافت و تہذیب کے حقیقی حامل، افکار ندوہ کےسچے ترجمان اور کالجوں  کے طلبہ کے لئے آئیڈیل اور نمونہ ہیں...... اس لئے ان دو چار نفس پرستوں، بزدلوں اور کم عقلوں کو دیکھ کر ہر گز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ندوۃ العلماء داڑھی کے معاملہ میں اہلسنت و الجماعت سے الگ اور دور ہے.  ندوہ کا موقف داڑھی کے سلسلہ میں وہی ہے جو ناظم ندوۃ مولانا سید رابع حسنی ندوی مدظلہ(1929)، مہتمم ندوہ ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی مدظلہ(1934)، شیخ التفسیر ندوہ مولانا برہان الدین سنبھلی مدظلہ(1938)، مفتی اعظم ندوہ شیخ نیاز احمد اعظمی(1963)، شیخ الحدیث ندوہ مولانا زکریا سنبھلی مدظلہ(1943)، نائب مہتمم ندوہ مولانا عبدالقادر ندوی پٹنی مدظلہ(1944)، معتمد تعلیمات ندوہ ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہرہ مدظلہ (1934) کا ہے اور یہ تمام اصحاب علم و فن  صرف متشرع ہی نہیں بلکہ مبلغ لحیہ و ناشر سنت ہیں...... یہی لوگ ندوہ کے حقیقی ترجمان ہیں اور ترجمانی کا حق اسی کا پہونچتا  ہے جو ان کے طریقہ، فکر اور مزاج کے مطابق کام کرے وگرنہ ندوہ کی ترجمانی ہر  گلی میں ٹرٹرانے والے برساتی مینڈک کررہے ہیں جو خود تو برباد ہو ہی رہی ہیں اپنے ادارہ ندوۃ العلماء کو بھی بدنام کرنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں.. انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ  ندوۃ العلماء شروع سے ترقی کی راہ پر گامزن رہا ہے اور انشاء اللہ برابر سفینہ سنت پر سوار ہوکر ترقی کے مراحل طے کرتا رہے گا انشاء اللہ.......
عبدالمالک بلند شہری
8 اپریل 2019 بروز پیر