Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 8, 2019

عام انتخابات!!! کیا سوچ رہا ہے مسلمان ؟؟


تحریر:غوث سیوانی، نئی دہلی۔صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
کوئی مسلمان سے ووٹ مانگنے نہیں آرہا ہے مگر وہ ووٹ دینے کو تیارہے۔ مسلمان آزادی کے بعد سے نظرانداز کیاجارہا ہے مگر پھر بھی سخت گرمی اور رمضان میں بھی وہ ملک کی خیرخواہی میں ووٹ ڈالنے جائے گا۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ گزشتہ اکہتر برسوں میں اس کا کام محض ووٹ ڈالنا رہا ہے، اس کے بدلے میں اسے ملے مسلم کش فسادات،کاروبار کی بربادی، دہشت گردی کے نام پر جیل، سرکاری نوکریوں سے بے دخلی اور بابری مسجد کا انہدام وغیرہ وغیرہ۔ کانگریس نے اس ملک پر سب سے زیادہ راج کیا اور مسلمانوں کی بربادی کے لئے بھی سب سے زیادہ وہی ذمہ دار ہے مگر دوسری پارٹیوں نے بھی کبھی مسلمانوں کو ان کا جائز حق دینے کی کوشش نہیں کی۔اب 2019کے عام انتخابات سر پر ہیں۔ بھاجپا مخالف سیاسی پارٹیاں چاہتی ہےں کہ مسلمان متحد ہوکر انھیں ووٹ کریں، خواہ وہ خود متحد نہ ہوں۔ حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت بی جے پی کے خلاف متحد ہی ہے اور اترپردیش میں ایس پی۔بی ایس پی اتحاد،بہار میں مہاگٹھبندھن، بنگال میں ترنمول کانگریس، کرناٹک میں کانگریس وجنتادل سیکولراتحاد، مہاراشٹر میں کانگریس واین سی پی اتحاد، تلنگانہ میں ٹی آرایس وایم آئی ایم کے ساتھ ہے تو راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات، چھتیس گڑھ میں کانگریس کو ووٹ دینے کا موڈ بنائے ہوئے ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ اس کے بدلے میں مسلمان کو کیا ملے گا؟ کیا ہربار کی طرح ووٹ دینے کے بعد وہ پھر حاشیئے پر چلا جائے گا؟ کیا مسلمانوں کو اس ملک میں مساوی مقام بھی مل پائے گا؟حالانکہ اس بات کی بھی ضمانت نہیں کہ بی جے پی کو شکست دینے کے نام پر ووٹ لینے والی پارٹیاں الیکشن کے بعد بی جے پی کے ساتھ تو نہیں چلی جائینگی۔یوپی کے ڈاکٹر عاشق الٰہی کا کہنا ہے کہ ”اترپردیش کا مسلمان سماج وادی۔بی ایس پی اتحاد کو متحد ہوکر ووٹ کیوں کرے گا؟انھوں نے مسلمانوں کے لئے ایسا کونسا کام کیا ہے؟ اور اگر الیکشن کے بعد مایاوتی ،بی جے پی کے ساتھ چلی جاتی ہیں تو اس کے لئے کون ذمہ دار ہوگا؟“ یہ ان کی اکیلی فکرمندی نہیں ہے بلکہ پورے یوپی کے مسلمانوں کے اندر ایسی ہی سوچ پل رہی ہے۔ اترپردیش میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ سماج وادی پارٹی پر اب بھی بھروسہ کرتا ہے مگر مایاوتی پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں جو بار بارمسلم ووٹ لے کر بی جے پی کے ساتھ چلی جاتی ہیں۔ فی الوقت ان کا اتحاد خواہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ ہے مگر باوجود اس کے ریاست کے مسلمان ،یہ ماننے کو تیار نہیں کہ الیکشن بعد وہ بی جے پی کے ساتھ نہیں جائینگی۔
مایاپر اب بھی مسلمان کو بھروسہ نہیں
یوپی میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ مسلمانوں کی اکثریت نظر آرہی ہے مگر باوجود اس کے عام مسلمان۔ مایاوتی پر بھروسہ نہیں کر رپارہے ہیں۔ایسالگتا ہے کہ سماج وادی پارٹی کے جہاں امیدوار ہونگے، وہاں مسلم ووٹ یکمشت اس کے ساتھ جاسکتا ہے لیکن جن سیٹوں پر بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار ہونگے، وہاں مسلم ووٹ کانگریس کی طرف بھی جاسکتا ہے۔ اسی طرح جن جن سیٹوں پرشیوپال یادو کی پرگتی شیل سماج وادی پارٹی اپنے مسلم امیدوار اتارے گی، وہاں،تھوڑاسا مسلم ووٹ اسے بھی مل سکتا ہے۔ یہ بھی خیال رکھنے کی بات ہے کہ مسلمان، الیکشن کے وقت صرف مسلمان نہیں رہتے وہ دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی، اہل حدیث کے علاوہ شیخ، پٹھان، انصاری، قریشی، سیفی، نائی دھوبی بھی بن جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر علاقے کے مسلمان کی سوچ بھی ایک دوسرے سے الگ ہے۔ صحافی شارب ضیاءرحمانی کا خیال ہے کہ جہاں ایس پی امیدوار ہوں وہاں ایس پی کے ساتھ مسلمانوں کو جاناچاہیے اورجہاں بی ایس پی کے امیدوار ہوں وہاں کانگریس کو ووٹ دیناچاہیے۔ مایاوتی جیتنے کے بعد بی جے پی کے ساتھ جائیں گی ،زیادہ سیٹیں جیتنے پرنائب وزیراعظم اورپیسوں کے لیے کوئی بھی کھیل کھیل سکتی ہیں۔ لکھنو کے مشکور صدیقی بھی کہتے ہیں کہ کانگریس کو ووٹ کرنا چاہئے۔ بی یس پی پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔
مسلمان کی بے وقعتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوپی جہاں مسلم آبادی 20 فیصد کے لگ بھگ ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا حصہ یہیں کی 80لوک سیٹوں پر رہتا ہے 2014 میں پہلی بار ایک بھی مسلمان ممبرپارلیمنٹ نہیں جتاسکا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم ووٹ کے تعلق سے کتنی غلط فہمیاں ہیں۔ چار کروڑ مسلمان کتنے بے وقعت ہیں، اس کا اندازہ ،گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں ہوگےا۔ملک کی تمام بڑے دینی مدارس اترپردیش میں ہیں جن میں دارالعلوم دیوبند، ندوة العلماءلکھنو، مظاہرعلوم سہارنپور، الجامعة الاشرفیہ مبارک پور، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعة الفلاح وجامعة الاصلاح شامل ہیں مگر باجود اس کے اترپردیش کے مسلمان باقی ملک کے مسلمانوں کے لئے کوئی نشان قدم نہیں بناپارہے ہیں۔
بہار کے مسلم ووٹر کی سوچ
اترپردیش کی طرح بہار میں بھی مسلمان بی جے پی کے خلاف ووٹ کرنے کو تیار ہیں اور یہاں کوئی ووٹ کٹوا پارٹی بھی میدان میں نہیں ہے۔حالانکہ یہاں بھی اس سوال کی اہمیت کم نہیں کہ جن سیٹوں پر آرایل ایس پی، ہم یا وی آئی پی کے امیدوار ہیں وہاں کیا کیا جائے؟ ابھی ابھی یہ پارٹیاں این ڈی اے سے باہر آئی ہیں اور کتنے دن آرجے ڈی کے اتحاد میں رہیں گی؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ بہار سے تعلق رکھنے والے انصار احمد مصباحی کا کہنا ہے کہ ”اس بار بہار کے مسلمان ،نتیش کمار کو بی جے پی سے دوستی کے سبب سبق سکھائیں گے“واضح ہوکہ فی الحال بہار کے بیشتر مسلمان وزیراعلیٰ نتیش کمار سے اس لئے ناراض ہیں کہ انھوں نے بی جے پی کی مخالفت کے نام پر ووٹ لیا تھا اور اب بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے عہد حکومت میں بہار میں فلاحی کام بھی بڑے پیمانے پر ہوئے ہیں اور انھوں نے لالو۔رابڑی کے جنگل راج سے بہت آگے بہار کو پہنچاےا ہے مگر مسلمانوں کا غصہ اس قدر زیادہ ہے کہ وہ نتیش کمار کے کاموں کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ کٹیہار کے عبدالوہاب قادری کہتے ہیں کہ آج جنتادل (یو) کو ووٹ دینے کا مطلب ہے ، بی جے پی کو ووٹ دینا۔ اگر نتیش کمار کے کاموں کے سبب انھیں کوئی ووٹ کرنا چاہتا ہے تو اسمبلی الیکشن میں کرے، لوک سبھا چناﺅ میں ووٹ دینے کا مطلب ہے مودی کو پرائم منسٹر بنانا۔حالانکہ دربھنگہ کے خورشید عالم کا کہنا ہے کہ” ان کے گاﺅں میں پہلی بار پختہ سڑک بنی اور پہلی بار بجلی آئی ، نتیش کمار کے راج میں۔ اس لئے اگران کے حلقے میں جنتادل یو کا امیدوار رہا تو وہ صرف اور صرف نتیش کمار کی پارٹی کو ووٹ کرینگے۔ “
مسلمان کی سوچ میں تبدیلی
بہار میں مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنے مفاد کے پیش نظر مسلم امیدواروں کو کامیابی دلانے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ محمد مکرم علی شاد سمنانی کا تعلق پارلیمانی حلقہ کشن گنج (بہار) سے ہیں جہاں 70فیصد مسلم آبادی ہے۔یہاں کانگریس ، جنتاد ل (یو) اور ایم آئی ایم تینوں نے مضبوط مسلم امیدوار دیئے ہیں۔مکرم علی کا کہنا ہے کہ وہ بطور ایم پی امیدوارایم آئی ایم کے اخترالایمان کو پسند کرتے ہیں جو مظلوموں کے لئے آوازبلند کرتے ہیں۔ واضح ہوکہ اس سیٹ پر اخترالایمان بھی ووٹرو ںکی پسند ہیں اور اس سے کانگریس کو خطرہ پیدا ہوگےا ہے۔مسلمان ووٹر بھی مسلمان بن کر اس بار سوچ رہے ہیں، اس کا اندازہ پارلیمانی حلقہ دربھنگہ کے نوشادعالم کے بےان سے ہوتا ہے جو اپنے حلقہ سے آرجے ڈی امیدوار عبدالباری صدیقی کو سپورٹ کرنے کی بات کرتے ہیں۔جب کہ گےا ضلع کے رہنے والے اور کلکتہ میںمقیم مطیع الرحمٰن خان کہتے ہیں کہ’ کیوں نا ہم لوگ بھی اس بار صرف اپنے امیدوار کو ووٹ کریں وہ چاہے جس پارٹی سے ہوں۔تو ایک اچھی تعداد پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہے۔اس کے علاوہ صرف اور صرف کانگریس کو۔علاقائی پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کچھ حاصل نہیں۔“
کانگریس کی طرف مسلمان کی واپسی
کانگریس پارٹی نے ملک پر سب سے زیادہ حکومت کیا ہے اور اس کی حکومت میں بہت سے مسلم کش فسادات ہوئے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد کانگریس کی طرف سے مسلمانوں کا رجحان کم ہوگےا تھا مگر اب دھیرے دھیرے کانگریس کی طرف لوٹ بھی رہے ہیں۔ نورالزماں مظہری کہتے ہیں کہ ہمارے صوبہ مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کی اکثریت کا رجحان کانگریس کی جانب ہے،دوسرا کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ جب کہ مجیب الرحمٰن علیمی کا خیال ہے کہ کانگریس کی انانیت اور ناانصافی سے ہی آج ملک کا یہ حال ہوا ہے، جہاں ہر طبقے کے لوگ اپنے حقوق اور حفاظت کی فکر میں سرگرداں نظر آتے ہیں ،جو اس ترقی یافتہ زمانے میں افسوس اور شرمندگی کا سبب ہے ۔اہل دانش کو کانگریس سربراہ سے اس بارے میں براہ راست واضح گفتگو کرنی چاہیے ۔جب کہ مشکور صدیقی کہتے ہیں کہ تقریبا سبھی پارٹیاں کسی نہ کسی وقت بی جے پی کے ساتھ رہ کر حکومت کا حصّہ بنی ہیں۔ ممتا اور نتیش تو ریل منتری رہ چکے ہیں۔ کانگریس ،تمام خرابیوں کے باوجود واحد سیکولر پارٹی ہے۔