Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 7, 2019

کیا راہل بی جے پی کو جتوانا چاہتے ہیں۔


از / شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) ۔صدائے وقت/ اردو نیوز پورٹل۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
راہل گاندھی اپنی حکومت بنانے کے لئے الیکشن کے میدان میں ہیں یا بی جے پی کو جتوانے  کے لئے ؟
اس سوال کے جواب سے پہلے ایک سوال اور کرلیتے ہیں : وہ بی جے پی جو گذشتہ پانچ برسوں سے 270 ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ میدان میں ہے اگر اقتدار پر  پھر سے قبضے کے لئے ملک کی چھوٹی بڑی 40 سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کرسکتی ہے تو پھر صرف 45 ممبران پارلیمنٹ والی کانگریس سیاسی اتحاد یا سیاسی گٹھ جوڑ سے کیوں دور بھاگ رہی ہے؟ کیا اسے یہ لگ رہا ہے کہ وہ اپنے دم پر دہلی  پر قبضہ کرلے گی اور ساری چھوٹی بڑی علاقائی پارٹیاں یا تو دم توڑ دیں گی یا بعداز الیکشن اس کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائیں گی؟
یوپی کا سیاسی منظر نامہ بظاہر تشویش ناک ہے ۔ بی جے پی کے خلاف کانگریس کے امیدوار بھی میدان میں ہیں اور سماجی وادی پارٹی وبی ایس پی اتحاد کے امیدوار بھی ۔ آزاد امیدوار بھی ہیں اور وہ ’ دلال‘ بھی ہیں جو کانگریس کے ’ سیکولرزم‘ پر سوالات اٹھارہے ہیں ، اور بڑی حد تک سوالات اٹھانے میں حق بجانب بھی ہیں ، لیکن جو خود بھی سوالات کے دائرے میں ہیں ۔ ان ’دلالوں‘ میں مسلمانوں  کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ یہ ’ دلال‘ آزاد امیدوار کے طور پر بھی میدان میں ہیں اور مختلف جانی وانجانی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھی۔ لہٰذا ،سیکولر ووٹ کانگریس ،ایس پی وبی ایس پی اتحاد، آزاد اور جانی انجانی سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں یعنی چارحصوں میں تقسیم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہاں ان امیدواروں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو الیکشن کے موسم میں ’ ککرمُتّے‘ کی طرح سے اَگ آتے ہیں ۔ ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہوتی ہے ۔ اس منظر نامے میں اگر بی جے پی پر نظر ڈالی جائے تو اس کا ’ ستارہ‘بظاہر چمکتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ اس نے یہ واضح کردیا ہے کہ اسے مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے ۔
یعنی وہ یہ ’ جتا‘ رہی ہے کہ اس کی کامیابی کے لئے ہندو ووٹ کافی ہیں ۔ حالانکہ بی جے پی کا یہ ’سکون‘ یا اس کا ’اطمینان‘ ظاہری  ہی ہے کیونکہ 2019 کا الیکشن 2014ء کا الیکشن نہیں ہے ۔ 2014ء کا الیکشن ’ وکاس‘ کے نام پر لڑا گیا تھا اور ملک کانگریس کے ’گھوٹالوں‘ سے بیزار تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی خاموشی سب کو کھل رہی تھی۔ بی جے پی کے پاس ایک سنہرا موقعہ تھا۔ نریندر مودی ایک نئے طرح کے سیاست داں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے ۔ گجرات کے ’ وکاس‘ کا پروپگنڈہ کچھ ایسا تھا کہ لوک گجرات 2002ء کی ہولناکی کو فراموش کرکے بی جے پی کو ووٹ دینے کے لئے تیار تھے ۔ لہٰذا دلتوں اور پچھڑوں کے ووٹ بھی بی جے پی کو گئے اور ان کے بھی جو فرقہ پرستی سے تو بیزار ہیں مگر  ملک کا وکاس چاہتے ہیں ۔  پر یہ 2019ء  ہے ، گذشتہ پانچ برسوں کے دوران بی جے پی کا حقیقی چہرہ بھی سامنے آگیا ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ایک سیاست داں کے طور پر نریندر مودی دوسرے سیاست دانوں سے ’ الگ‘ نہیں ہیں ۔ پانچ سالوں کے دوران ’ وکاس‘ کا نعرہ دم توڑ گیا ہے ۔ ’رافیل سودے‘  نے بی جے پی کی شبیہ داغدار کردی ہے ۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے ملک کی معیشت کو ہلاکر رکھ دیا ہے  اور بیروزگاری آسمان کو چھونے لگی ہے ۔ مودی کے  تمام وعدے بس وعدے ہی رہے ہیں تعبیر میں نہیں ڈھلے ہیں ۔ لوگ دیکھ رہے ہیں اور محسوس بھی کررہے ہیں کہ یہ سرکار تو منموہن سنگھ کی سرکار سے کہیں زیادہ خراب ہے ۔  اس سرکار میں ’ فرقہ پرستی‘ بڑھی ہے ، جنگی جنون کو ہوا ملی ہے ، کشمیر میں خون کی ندیاں بہہ گئی ہیں ، ماب لنچنگ کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں ، فرقہ پرستی کے زہر نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے ۔  اور اس کی وجہ سے ایک ’خوف ودہشت‘  کی فضا ہمیشہ چھائی رہتی ہے ۔مسلمان ، دلت، آدی واسی ، قبائلی ، پچھڑے کمزور سب  ہی بی جے پی اور مودی سے پریشان ہیں اور اس حکومت سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ۔ غرضیکہ بی جے پی اور مودی کے لئے 2019ء کے الیکشن قطعی2014ء کے الیکشن ثابت نہیں ہوسکتے ۔ بی جے پی اور مودی دونوں ہی کو یہ احساس ہے کہ اس بار کے الیکشن میں ’ جیت‘ آسان نہیں ہوگی اس لئے انہوں نے 40 چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کیا ہے ۔  اپنے بہت سے سینئر لیڈروں کو ۔۔۔۔ نکتہ چینی اور تنقید کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ۔۔۔ انتخابی اکھاڑے  سے باہر کیا ہے اور یہ کوشش کی ہے کہ انتخابی مہم میں وہ کانگریس کی ’ خامیوں‘ اور ’ کمزوریوں‘ کو اس طرح سے عیاں کرے کہ خود اس کی اپنی ’ خامیاں‘ اور ’ کمزوریاں‘ چھپ جائیں ۔
لیکن کانگریس ہے کہ وہ اور اس کے صدر راہل گاندھی ہوا میں اڑ رہے ہیں ۔ یوپی میں اگر دیکھا جائے تو کانگریس کا کوئی قابلِ ذکر وجود نہیں ہے ۔  کانگریس کی  یہ حالت دو وجہ سے ہے ۔ ایک تو اس لئے کہ  6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے اسے یوپی کے مسلمانوں نے ووٹ دینا چھوڑ دیا ہے ۔ دوسری وجہ  یہ ہے کہ یوپی کے مسلمانوں کے ساتھ اب وہاں کے دلتوں ،پچھڑوں اور کمزوروں کو ایک متبادل میسر ہے ، یہ متبادل بی ایس پی اور ایس پی کا  ہے ۔  الیکشن کے اعلان سے قبل ایک ایسا ماحول بنتا نظر آرہا تھا  جو بی جے پی کے لئے انتہائی مہلک ثابت  ہوسکتا تھا۔ عظیم اتحاد کا جو نعرہ لگا تھا اگر وہ ایک شکل لے لیتا تو بی جے  پی کے لئے یوپی سے لوک سبھا کی دس سیٹیں حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہوتا ۔ لیکن عظیم اتحاد نہیں ہوسکا  ۔بی ایس پی اور ایس پی کا اتحاد تو ہوا لیکن کانگریس کی اس اتحاد میں شمولیت نہیں ہوسکی ۔ اگر راہل گاندھی صبر کرتے ، ٹھنڈے ذہن سے غور کرتے تو وہ درمیان کی راہ نکال سکتے تھے ۔ ایس پی ، بی ایس پی کا اتحاد کانگریس کے لئے سات سیٹیں چھوڑنے کو تیار تھا اگر راہل ان سات سیٹو ںپر بھی راضی ہوجاتے تو آج یوپی کا سیاسی منظر نامہ بی جے پی کے خلاف ہوتا ، لیکن وہ یوپی بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کررہے ہیں ۔  اس کا نتیجہ سامنے ہے ،سیکولر ووٹ بکھرسکتے ہیں اور بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔  بی جے پی کو فائدے کا سیدھا مطلب مسلمانوں کا نقصان ہے ۔ 6دسمبر 1992ء کو مسلمان نقصان اٹھا چکے ہیں اور کانگریس سے ناراض ہیں ، راہل گاندھی کے لئے یہ بڑا  اچھا موقعہ تھا کہ وہ ایس پی وبی ایس پی کا ساتھ دے کر بڑی حد تک مسلمانوں کی ناراضگی دور کردیتے ۔ اور اگر اس بار بی جے پی جیتی تو یاد رکھیئے مسلمان کانگریس کو کبھی معاف نہیں کریں گے ۔ یہ سوال اپنے آپ میں جواب  بن جائے گا کہ راہل گاندھی اپنی حکومت بنانے کے لئے الیکشن  کے میدان میں ہیں یا بی جے پی کو جتوانے کے لئے ؟
جب 2014 ء میں بی جے پی اور مودی کو بڑی کامیابی ملی تھی تب ، اور پھر جب 2017 میں یوپی اسمبلی پر بی جے پی کا قبضہ ہوا تھا تب یہ پروپگنڈا زوروشور کے ساتھ شروع کیا گیا تھا کہ اب ہندوستان میں مسلمان سیاسی طور پر بے معنیٰ ہوچکے ہیں ۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا اور آج بھی کیا جارہا ہے کہ بی جے پی اپنے خلاف بڑی تعداد میں مسلمانوں کی ووٹنگ کے باوجود جیت سکتی ہے اور مستقبل میں بھی اسی طرح جیتتی رہے گی ۔ لیکن یہ محض پروپگنڈا ہے ، اس طری کی بات  کوزوروشور سے اس لئے پھیلایا جارہا ہے کہ مسلمان ووٹ ڈالنے کے لئے نہ نکلے ۔ اگر اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تواندازہ ہوگا کہ صرف یوپی ہی نہیں بہار ، آسام ، مغربی بنگال ، ایم پی اور تلنگانہ وغیرہ میں مسلمانوں کے لاکھوں ووٹ ہار اور جیت کا فیصلہ کرسکتے ہیں ۔ ملک کی دوسوایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹوں سے ہی ہار اور جیت کا فیصلہ ہوگا ۔  گذشتہ دونوں ہی الیکشن میں ، یعنی 2014ء کے لوک سبھا اور 2017ء کے یوپی اسمبلی ،  ہار اور جیت کے درمیان معمولی ووٹوں کا فرق تھا۔۔۔ یہ ’معمولی فرق‘ ختم ہوسکتا ہے اگر مسلمانوں کے ووٹ بکھرنے سے بچ جائیں ۔ یوپی میں مسلمانوں کی آبادی کوئی 20فیصد ہے اور وہاں کوئی 16 حلقے  ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹوں کا فیصد 21 سے لے کر 50 تک ہے ۔۔۔ مثلاً رام پور میں مسلمانوں کی آبادی 50فیصد ہے ، مرادآباد میں 41 فیصد ، مظفر نگر میں 28 فیصد اور بارہ بنکی میں 21 فیصد ۔۔۔ ان حلقوں کے مسلمانوں کے ووٹوں ہی سے ہار اور جیت کا فیصلہ ہوتا ہے ۔۔۔ پر راہل گاندھی نے اِن اعدادوشمار پر غور نہیں کیا ہے ۔ اور اگر غور کیا ہے تو ایسا کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم نہ ہوں ۔ اور اگر لائحہ عمل بنایا ہے تو شاید یہ کہ بھلے ہی بی جے پی جیت جائے  پر بی ایس پی اور ایس پی وغیرہ کو دھول چاٹنی پڑے۔
بات صرف یوپی کی ہی نہیں ہے ۔ بہار میں بھی کانگریس آخر دم تک تیجسوری یادو کو پریشان  کرتی رہی ۔ مغربی بنگال  میں اس نے ممتابنرجی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ کیرالہ میں راہل گاندھی خود امیدوار ہیں ۔ مہاراشٹر میں کانگریس  نے دلتوں اور مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں کو گھاس تک نہیں ڈالی ہے ۔ اور رہی سہی کسر راہل گاندھی کی انتخابی مہم سے پوری ہورہی ہے ، وہ ’ نرم ہندوتوا‘ نہیں ’ گرم ہندوتوا‘ اپناتے نظر آرہے ہیں ۔ ان کی پارٹی سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ ایودھیا میں صرف اور صرف کانگریس ہی رام مندر بنواسکتی ہے ۔ کانگریس کے منشور میں مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں ہے ، صرف ایک جگہ لفظ ’مسلم ‘ استعمال کیا گیا ہے وہ بھی ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ میں ۔ یعنی یونیورسٹی کے نام میں جو لفظ ’ مسلم‘ جڑا ہوا ہے وہی منشور میں استعمال ہوا ہے ۔ راہل گاندھی کو پتہ ہونا چاہئے کہ یہ  نہ جیتنے والی حرکتیں ہیں اور نہ ہی بی جے پی کو ہرانے والی سرگرمیاں بلکہ یہ سیکولر سیاست دانوں کو اور مسلمانوں ، دلتوں ، پچھڑوں وکمزوروں کو خود سے دور کرنے کی ’ حماقتیں‘ ہیں ۔
لیکن کانگریس اور راہل  گاندھی کی ’ حماقتوں‘ کے باوجود مسلمان اور اس  ملک کے سیکولرذہن افراد کسی بھی طرح کی ’ حماقت‘ کے متحمل  نہیں ہوسکتے ۔  ’دشمن‘ بے حد عیار ، مکار اور سنگدل ہے ۔ بی جے پی اور مودی کا دورباہ ’ اقتدار‘ میں آنا اس ملک کے لئے زہر ہلال ثابت ہوسکتا ہے ۔ آئین خطرے میں ہے ، سیکولرزم خطرے میں ہے ، جمہوریت خطرے میں ہے ، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی خطرے میں ہے ۔ سارا ملک ہی خطرے میں ہے ۔ لوگوں کو خطرے کا  خوب اندازہ ہے اسی لئے ملک کے دانشوران ، ادباء، فلم میکر، اداکار، فن کار اور جمہوریت پسند  افرادکھلے عام مودی کو شکست دینے کی اپیل کررہے ہیں ۔ افسوس صرف یہ ہے کہ ان کی اپیلوں میں مسلم دانشوروں کے نام بس خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ ماہر قانون اے جی نورانی کے بقول آج کا ہندوستان مسلمانوں کے لئے 1857 او19 47  ء کے مقابلے کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔ افسوس یہ بھی ہے کہ ’ مسلم دلال‘ جن میں علمائے کرام بھی شامل ہیں ، کہیں کھل کر اور کہیں پوشیدہ رہ کر بی جے پی  کی کامیابی کے لئے راہیں ہموار کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ صرف اس لئے کہ اس کوشش سے ان کی جھولی میں چند سکے گرجائیں گے ۔  بھلے مسلمان مارا جائے ، شریعت ختم کردی جائے اور ملک کو  ہندوراشٹر بنادیا جائے یہ  ’ مسلم دلال‘ اور یہ ’ دین فروش‘ بکنے سے باز نہیں آنے والے ، بکنے سے بھی اور لوگوں کو بیچنے سے بھی۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان سے بچیں اور دوسروں  کو بھی بچائیں !