Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 7, 2019

میرا پیغام محبت ہے '' جیسے مصرعوں کے خالق" جگر مراد آبادی " ۔۔۔۔۔فن و شخصیت۔

جگر مراد آبادی
محمد عباس دھالیوال،
مالیر کوٹلہ، پنجاب.
صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
بیسویں صدی کے اردو شعراء میں جگر مرادآبادی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ جگر کو اپنے عہد میں جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم شعراء کے حصے میں آتی ہے ۔ جگر کو یہ پذیرائی و مقبولیت انکی رنگارنگ شخصیت،رنگ تغزّل اور نغمہ و ترنم کی بدولت حاصل ہوئی ۔جگر کی شاعری حقیقی معنوں میں ان کی شخصیت کا آئینہ دار تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے ہمعصروں کے ساتھ ساتھ بعد میں بھی کوئی آپ کے رنگ کو نہ پا سکا۔
جگر مراد آبادی کا اصل نام علی سکندر تھا اور شاعری میں جگر بطور تخلص استعمال کرتے تھے چنانچہ اسی نام سے مشہور ہوئے ۔ جگر 6 اپریل 1898 کو اترپردیش کے شہر مراداباد میں پیدا ہوئے . آپ کے والد مولوی علی نظر اور چچامولوی علی ظفر دونوں ہی شاعر تھے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جگر کے مورث اعلی محمد سمیع دہلی سے تعلق رکھتے تھے اور شاہجہاں کے دربار سے وابستہ تھے لیکن 1857 کے نتیجہ میں مرادآباد میں آ کر بس گئے ۔جگر کے والد، خواجہ وزیر لکھنوی کے شاگرد تھے ،ان کا مجموعۂ کلام باغ نظر کے نام سے ملتا ہے۔ گویا شاعری آپ کو وراثت میں ملی تھی. چنانچہ ایک بار کہیں مشاعرہ ہورہا تھا ۔ ایک مسلم الثبوت استاد اٹھے اور انہوں نے طرح کاایک مصرعہ کہا کہ "چمن سے آرہی ہے بوئے کباب‘‘ . جس پر بڑے بڑے شعراء حضرات نے طبع آزمائی کی لیکن کوئی بھی ڈھنگ کی گرہ نہ لگا سکا ۔ ان میں سے ایک شاعر نے قسم کھالی کہ جب تک گرہ نہ لگائیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ چنانچہ وہ ہر صبح دریا کے کنارے نکل جاتے اونچی آواز سے الاپنا شروع کردیتے کہ ۔ "چمن سے آرہی ہے بوئے کباب‘‘ ایک دن اچانک اتفاق سے ادھر سے ایک کم سن لڑکا گزرا جونہی شاعر نے یہ مصرعہ پڑھا، تو وہ لڑکا بول اٹھا۔" کسی بلبل کا دل جلا ہوگا "چنانچہ شاعر نے بھاگ کر اس لڑکے کو سینے سے لگایا۔ یہ وہی لڑکا تھا جو آگے چل کر جگر مرادآبادی کے نام سے مشہور ہوا.
جگر نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر پر اور پھر مکتب میں حاصل کی. مشرقی علوم کے حصول کے بعد انگریزی تعلیم کے لئے انہیں چچا کے پاس لکھنو بھیج دیا گا. جہاں انہوں نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ انگریزی تعلیم سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور نویں جماعت میں دو بار فیل ہوئے ۔ دریں اثناء والد کا بھی انتقال ہو گیا چنانچہ جس کے نتیجے میں جگر کو واپس مرادآباد آنا پڑا ۔جگر کو دوران تعلیم ہی شاعری سے بے حد رغبت ہو گئ تھی. 
جگر کے تعلیم کو خیر باد کہنے کے بعد چچا نے مرادآباد میں ہی انھیں کسی محکمہ میں ملازمت دلا دی. جہاں ان کے گھر کے نزدیک ہی ایک تحصیلدار رہتے تھے جو اتفاق سے جگر کے چچا کے دوست تھے. تحصیلدار نے اپنی شادی ایک طوائف سے رچا رکھی تھی۔ جگر ابھی لڑکپن میں ہی تھے کہ تحصیلدار صاحب کی بیوی سے عشق کر بیٹھے اور انہیں ایک محبت نامہ تھما دیا. جو انہوں نے تحصیلدار کےحوالے کر دیا اور جبکہ تحصیلدار نے وہی خط جگر کے چچا کو سونپ دیا ۔چچا کو جب جگرکی اس نازیبا حرکت کا پتہ چلا تو انہوں نے جگر کو لکھا کہ وہ ان کے پاس پہنچ رہے ہیں اور پھر گھبراہٹ میں آ کر جگر نے کثیر مقدار میں بھانگ کھا لی ۔ جس کے چلتے بڑی مشکل سے ان کی جان بچائی گئی اس کے بعد وہ مرادآباد سے فرار ہو گئے اور پھر کبھی اپنے چچا کو شکل نہیں دکھائی ۔ اسی بیچ انکے چچا بھی اس دار فانی سے رخصت ہو گئے ۔
مرادآباد سے بھاگ کر جگر آگرہ پہنچے اور وہاں ایک چشمہ ساز کمپنی کے سفری ایجنٹ کے طور پر اپنی خدمات دینے لگے. اس کام کے دوران جگر کو جگہ جگہ گھوم کر آرڈر لانے ہوتے تھے ۔ اسی بیچ آگرہ میں انہوں نے وحیدن نام کی ایک لڑکی سے شادی کر لی اور اپنی ماں کے پاس مرادآباد لے آئے ۔کچھ ہی دنوں بعد ماں کا انتقال ہو گیا۔جگر کے یہاں وحیدن کے ایک رشتہ کے بھائی کا آنا جانا تھا اور حالات کچھ ایسے بنے کہ جگر کو وحیدن کے چال چلن پر شک ہوا اور یہ بات اتنی بڑھی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔
وحیدن نے چھ ماہ جگر کا انتظار کیا پھراسی شخص سے شادی کر لی۔جگر بے سرو سامان اور بے یار و مددگار تھے۔ اور اس نئی ذہنی کشمش و جذباتی اذیت کا مداوا شراب نوشی میں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔اسی عرصہ میں وہ گھومتے گھامتے گونڈہ پہنچے جہاں ان کی ملاقات اصغر گونڈوی سے ہوئی۔اصغر نے جگر کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا ، چنانچہ ان کو سنبھالا، اور انکا نکاح اپنی سالی نسیم سے کروا دیا۔ مگر سفر، شاعری اور شراب نوشی نے جگر کو اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ ازدواجی زندگی کی بیڑی اس بار بھی انکو باندھ کر نہ رکھ پائی.
کچھ شراب کا نشہ اور کچھ پیشہ کی ذمہ داریاں،غرض جگر بیوی کو چھوڑ کر مہینوں گھر سے غائب رہتے اور کبھی آتے تو دوچار دن بعد پھر نکل جاتے۔بیوی اپنے زیور بیچ بیچ کر گھر کا خرچ چلاتی. اسی بیچ جگر جب کبھی گھر آتے تو زیوربنوا بھی دیتے لیکن بعد میں پھر وہی چکّر چلتا۔ادھر اس صورتحال نے اصغر کی پوزیشن بہت خراب کر دی اصغر کی بیوی کا یہی اصرار رہتا کہ وہ نسیم سے شادی کر لیں لیکن اصغر دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک ہی گھر میں شرعاً جمع نہیں کر سکتے تھے لہٰذا یہ طے پایا کہ اصغر اپنی بیوی یعنی نسیم کی بڑی بہن کو طلاق دیں اور جگر نسیم کو۔جگر اس کے لئے راضی ہو گئے اور اصغر نے نسیم سے شادی کر لی۔اصغر کی موت کے بعد جگر نے دوبارہ نسیم سے،ان کی اس شرط پرنکاح کیا کہ وہ شراب چھوڑ دیں گے۔
جگر کی شخصیت مختلف اوصاف پائے جاتے تھے جیسے کہ آپ بہت جذباتی،مخلص،صاف گو،محب وطن اور ہمدردی جیسی انیک خوبیوں کے مالک تھے. یہی وجہ ہے کہ کسی کا دکھ ان سے دیکھا نہیں جاتا تھا. جگر کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے لکھنو کے وار فنڈ کے مشاعرہ میں ،جس کی صدارت ایک انگریز گورنر فرما رہے تھے. ان کی موجودگی میں جگر نے اپنی نظم "قحط بنگال" پڑھ کر سنسنی مچا دی تھی۔
جگر کی خداداد صلاحیتوں اور قابلیت کے چلتے کئی ریاستوں کے والی انھیں اپنے دربار سے وابستہ کرنے کے خواہاں تھے یہاں تک کہ ان کی ہر ایک شرط ماننے کو بھی تیار تھے لیکن جگر ہمیشہ اس طرح کی پیشکشوں کو ٹالتے رہے. یہاں تک کہ ان کو ایک بار پاکستان کی شہریت اور عیش و آرام کی زندگی کی ضمانت دی گئی لیکن جگر نے صاف کہہ دیا جہاں پیدا ہوا ہوں وہیں مروں گا۔۔گوپی ناتھ امن سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے۔جب وہ ریاستی وزیر بن گئے اور ایک محفل مشاعرہ میں ان کو شرکت کی دعوت دی تو وہ محض اس لئے شریک نہیں ہوئے کہ" دعوت نامہ" وزارتی لیٹر ہیڈ پر بھیجا گیا تھا۔
ایک دفعہ پاکستان کا ایک شخص جو کہ مرادآباد میں ہی رہتا تھا جگر سے ملنے آیا اور جب اس نے ہندوستان کی برائی کر نا شروع کی تو جگر کو غصہ آ گیا اور بولے "نمک حرام تو بہت دیکھے آج وطن حرام بھی دیکھ لیا"
ایک بار جوشؔ ملیح آبادی نے جگرؔ کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ
’’کیا عبرتناک حالت ہے آپ کی شراب نے آپ کو رند سے مولوی بنادیا اور آپ اپنے مقام کو بھول بیٹھے ۔ مجھے دیکھیے میں ریل کے کھمبے کی طرح اپنے مقام پر آج بھی وہاں اٹل کھڑا ہوں ، جہاں آج سے کئی سال پہلے تھا۔‘‘
جگرؔ نے فوراً جواب دیا۔’’بلاشبہ آپ ریل کے کھمبے ہیں اور میری زندگی ریل گاڑی کی طرح ہے ، جو آپ جیسے ہر کھمبے کو پیچھے چھوڑتی ہوئی ہر مقام سے آگے اپنا مقام بناتی جارہی ہے ۔‘‘
ایک بار جگر کے کسی شعر کی تعریف کرتے ہوئے ایک منچلے نے ان سے طنزیہ لہجے میں کہاکہ "حضرت ! اس غزل کے فلاں شعر کو میں نے لڑکیوں کے ایک ہجوم میں پڑھا اور پٹنے سے بال بال بچا۔‘‘ اس کے جواب جگر نے ہنستے ہوئے کہا کہ"عزیزم! اس شعر میں ضرور کوئی خامی رہی ہوگی ورنہ آپ ضرور پٹتے۔‘‘
جگر اپنی شاعری میں اخلاقیات کا درس نہیں دیتے اس کے باوجود ان کی شاعری کا اخلاقی معیار بہت بلند ہے۔وہ تغزّل کے پردہ میں انسانی خامیوں پر ضربیں لگاتے گزر جاتے تھے جگر نے قدیم اور جدید تمام شعراء کی فکر سے استفادہ کیا۔ جگر کا کلام بے ساختگی اور آمد سے معمور ہے سرمستی اور دلفگاری،تاثر اور سرشاری ان کے کلام کی نمایاں خوبیاں ہیں ان کی زندگی اور ان کی شاعری میں مکمل مطابقت ہے محاکات کے اعتبار سے اکثر مقامات ایسے ملیں گے کہ مصور کے تمام کمالات ان کی تصویر کشی کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں. جگر حسن و عشق کو مساویانہ درجہ دیتے ہیں ان کے نزدیک حسن اور عشق دونوں ایک دوسرے کا عکس ہیں۔جگر نے تغزل کو معراج کمال تک پہنچا دیا اور یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔
جگر نے کبھی اپنی شراب نوشی پر فخر نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے اس دور کو دور جہالت کہتے رہے بہر حال انہوں نے شراب چھوڑنے کے بعد رمی کھیلنے کی عادت ڈال لی تھی جس میں کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔اس کے لئے وہ کہتے تھے۔"کسی چیز میں غرق رہنا یعنی خودفراموشی میری فطرت ہے یا بن گئی ہے۔خودفراموشی اور وقت گزاری کے لئے کچھ تو کرنا چاہئے۔اور میری عادت ہے کہ جو کام بھی کرتا ہوں اس میں اعتدال کی حدوں پر نظر نہیں رہتی۔"ایک اجمیر شریف میں ایک بہت نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندوستان بھر کے اردو کے بڑے بڑے شعراء کو مدعو کیا گیا اس سلسلے میں منتظمین نے جگر کو بھی اس نعتیہ مشاعرہ میں شرکت کی دعوت دی لیکن جگر تو غزل کے شاعر تھے اس لیے وہ جب بھی نعت لکھنے بیٹھتے تو غزل کہہ جاتے اسی طرح کئی روز تک یہی سلسلہ چلتا رہا بالآخر جگر ایک نعت کہنے میں کامیاب ہو گئے لیکن اب ان کو ایک مسئلہ درپیش یہ آیا کہ اس وقت شراب نوشی کی وجہ سے جگر ادبی حلقوں میں پوری طرح بدنام تھے جب اجمیر شریف کے سامعین کو اس بات کی خبر لگی کہ اس نعتیہ مشاعرہ میں جگر بھی تشریف لا رہے ہیں تو انھوں نے اس کی زور دار مخالفت کی اور پورے شہر میں جگر کے تشریف لانے پر احتجاج کی دھمکی دی  اور پورے شہر ان کے خلاف پوسٹر لگوا کر جگر کو شہر میں داخل ہونے سے منع کیا گیا چنانچہ اب منتظمین کے لیے ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا اور انھوں نے ایک فیصلہ یہ کیا کہ جگر کو مشاعرہ سے دو تین روز قبل ہی بلا لیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور مشاعرے والے دن جگر کو اسٹیج کے پیچھے چھپا کر رکھا گیا اسی دوران  ناظم مشاعرہ ایک کے بعد ایک شاعر کو سامعین کے روبرو پیش کر تے گئے جب مشاعرہ اپنے عروج پر پہنچا تو جیسے ہی ناظم مشاعرہ نے جگر کو نعت پاک پیش کرنے کے لیے دعوت سخن دی تو پورے ہال میں شور مچ گیا کہ ایک شرابی حضور کا نام اپنی زبان سے کیسے لے سکتا ہے اور حاضرین بے تحاشا ہوٹنگ کرنے لگے. تو اب جب جگر نے اپنی طرف سے لکھی نعت پاک کا پہلا مصرع پڑھا تو حاضرین پہ جیسے سناٹا طاری ہو گیا اور لوگ نہایت متوجہ ہو کر جگر کی پیش کردہ نعت کا ایک ایک شعر پورے غور سے سننے لگے جیسے پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی. کہتے ہیں اس کے بعد جگر نے اپنے ایک دوست کے توسط سے ایک اللہ والے کی صحبت اختیار کی اور اس کے بعد جگر نے شراب نوشی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے ترک کر دیا. یہاں تک کہ آپ آخری زمانہ میں بہت مذہبی ہو گئے تھے اور چہرے پر داڑھی بھی رکھ لی جس سے چہرہ خوبصورت اور نورانی دکھائی دینے لگا. 1953ء میں آپ کو حج کی سعادت نصیب ہوئی.
جب ہم جگر کی شاعری کا مطالعہ کر تے ہیں تو ان کے یہاں موضوعات کی رنگا رنگی کی ایک بہار نظر آتی ہے.
زندگی و موت کے حوالے سے جگر کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں کہ
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں
ترغیب کے حوالے سے چند اشعار دیکھیں
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
دل کی کیفیت کے حوالے سے جگر کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں کہ
ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا
عشق و محبت کے حوالے سے بھی جگر کے خیالات ملاحظہ فرمائیں کہ
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
صداقت کو سچا ئی کے ضمن میں جگر کا ایک خوبصورت شعر دیکھیں کہ
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
اہل سیاست و  شاعر کی نفسیات کی عکاسی کرتا جگر کا مشہور شعر ملاحظہ فرمائیں کہ
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

1958 میں انہیں دل اور دماغ پر قابو نہیں رہ گیا تھا۔ لکھنو میں انہیں دو بار دل کا دورہ پڑا اور آکسیجن پر رکھے گئے۔خواب آور دواؤں کے باوجود رات رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔1960 میں ان کو اپنی موت کا یقین ہو چلا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ  لوگوں کو اپنی چیزیں بطور یادگار تقسیم کرنے لگے تھے چنانچہ اسی سال جگر اگست اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے.۔
محمد عباس دھالیوال۔
Mob.9855259650.
Mail...abbasdhaliwal172@gamil.com