Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 28, 2019

امیر جماعت اسلامی ہند کا خصوصی انٹر ویو۔

امیر جماعت اسلامی ہند
انجینیر سید سعادت اللہ حسینی کا خصوصی انٹرویو ۔
_________________________
انٹرویونگار:قاسم سید / صدائے وقت۔
  . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
      گزشتہ 6 اپریل کو جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان نے 46 سالہ انجینئر سید سعادت اللہ حسینی کو اپنا امیر منتخب کیا _ وہ آزادی کے بعد پیدا ہوئی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ یہ بظاہر ایک انقلابی فیصلہ ہے ۔ ’روز نامہ خبریں‘ نےاس تبدیلی کے پس منظر میں ان سے مختلف امور پر بات چیت کی ، جس کے اہم 
اقتباسات پیش خدمت ہیں :
سوال 1
          ایک دینی جماعت کی سربراہی روایتی قیادت کی جگہ جدید تعلیم یافتہ شخص کو تھمادی گئی ، ہندوستان کے روایتی دین پسند طبقہ کو کیا تبدیلی کا یہ رحجان قابل قبول ہوگا؟
جواب:
         جماعت اسلامی میں فرد واحد کوئی فیصلہ نہیں لیتا ، اجتماعی قیادت کانظام ہے _ تبدیلی ایک فطری عمل ہے ۔ جماعت کی سطح پر یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے _ ٹیم میں ہر طرح کے افراد رہیں گے _ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یونیورسٹی کے فارغین بھی دینی و اسلامی شعور سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ وہیں مدارس کے فارغین بھی عصری شعور رکھتے ہیں _ اس لئے جدید قدیم کی تفریق ہی بے معنی ہے ۔ کم از کم ہمارے یہاں ایسی تفریق نہیں ہے _ ہمیں امید ہے کہ جب عوام میں جائیں گے تو ان کو بھی کنونس کرلیں گے _ جہاں تک عمر کا تعلق ہے ، یقیناً میں چھوٹا ہوں ۔ مولاناسید جلال الدین عمری کی طویل شاندار خدمات ہیں ، میں اُن کا شاگرد ہوں وہ ہمارے درمیان رہیں گے ، جماعت وملک کی خدمت ورہنمائی کرتے رہیں گے ۔ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے گا ۔ نئی اور پرانی نسل کے درمیان ٹکراؤ کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ ویسے بھی شورائی نظام میں کوئی ایک شخص تمام اختیارات کا مالک نہیں ہوتا ۔ یقین رکھیے سب کچھ بہتر ہوگا ۔
سوال 2
         وہ کون سے دو کام ہوں گے جو آپ سب سے پہلے کرنا چاہیں گے؟
جواب:
        پالیسی وپروگرام کے تحت ترجیحات طے کی جاتی ہیں _ جون کے وسط تک چار سالہ میقات کاایجنڈہ تیارہوجائے گا _ جہاں تک اہم ترین کاموں کا تعلق ہے ، سماجی سطح پر برادران وطن سے روابط ، دعوت دین پہنچانا ، ان کا دل جیتنا ، نفرت کاازالہ کرنا اوربین مذاہب ، بین طبقات ڈائیلاگ کومہماتی طور پر کرنا ہوگا ،کیونکہ ایمرجنسی ہوگئی ہے، اگر اس میں تاخیر کی گئی تو ہرسطح کے چیلنج اور نقصانات ہوں گے ۔ اس کام میں پوری ملت کو شریک کرنا اوراس کام کی اہمیت کا احساس دلانا ہوگا ۔ دوسرا سب سے اہم کام نوجوانوں کو جوڑنا ہے _ وہ کیڈر بنیں ، تحریک سے متعلقہ اداروں میں ان کی نمائندگی میں اضافہ ہو۔
سوال3
      کیا پہلے ان کاموں میں سستی ولاپروائی ہوئی؟
جواب :
      یہ کہنا مشکل ہے _ ہر دور کی اپنی ترجیجات ہوتی ہیں ۔ موجودہ وقت میں نوجوانوں پر توجہ دینا ضروری ہے ۔
سوال 4
        کیا غیرمسلموں سے روابط کے دائرہ میں بی جے پی اور آر ایس ایس بھی شامل ہے ؟
جواب :
       ڈائیلاگ ہمیشہ کھلے ذہن سے ہوتے ہیں  _جہاں تک تنظیم سے تنظیم کے ڈائیلاگ کی بات ہے ، وہ حالات پر منحصر ہوں گے _
سوال 5
       آپ اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں ، دوسری طرف جمہوریت وسیکولراز م کے استحکام کی کوششیں بھی جاری ہیں _ کیا یہ تضاد نہیں لگتا؟
جواب :
    ہمارے دستور میں لکھا ہے کہ بنیادی کام ذہن سازی ہے ، اسلام کا پیغام ہرایک تک پہنچانا ہے ، رائے عامہ کی تربیت کے ذریعہ ہی تبدیلی آتی ہے ، اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں _  یہ لانگ ٹرم اور صبر آزما ہے ، اس کی کوئی مدت متعین نہیں ہے ۔ جمہوری طریقہ ہی واحد راستہ ہے ۔ جمہوری نظام کے بہت سارے اصول اسلام سے متصادم نہیں ہیں ، آئین میں دے گئے بنیادی حقوق اسلام میں پہلے سے موجود ہیں ۔ ہندوستان کی متنوع سوسائٹی اور رنگا رنگی تہذیب وثقافت کے لئے جمہوریت کو ہمارے قومی رہنماؤں نے پسند کیا تھا۔
سوال6
         قیام کے 70 سال بعد بھی جماعت اسلامی عوام میں قربت اور اثرونفوذ پیدا کرنے میں ناکام رہی ۔
جواب:
         اس کے تاریخی اسباب ہیں ۔ غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ، کسی بھی نظریاتی تحریک کی ابتدا ایسے ہی ہوتی ہے ۔ مختلف آزمائشوں ، چیلنجوں اور مراحل سے گزرنے کے بعد ہی عوام میں نفوذ کرتی ہے ۔ مگر اب صورت حال بدل رہی ہے  _ پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر ہے ۔ ہماری بہت سی فرنٹل آرگنائزیشن کام کررہی ہیں۔
سوال 7
          ایک احساس یہ ہے کہ جماعت کے اندر ڈسپلن شکنی کا رحجان بڑھ رہا ہے  _ یہ تربیت کی کمی ہے یا تنظیم کی؟
جواب:
        ہرتنظیم مختلف مراحل سے گزرتی ہے ۔ پہلے محنتی ، کاز کے لیے وقف افراد ، کوالٹی و قربانی کا بہ درجۂ اتم ہونے کے ساتھ تحریک کامقصد پیش نظر ہوتاہے ۔جب اس کا دائرہ بڑھتا ہے ، اثرونفوذ میں اضافہ ہوتا ہے تو تعداد بھی بڑھتی ہے ۔ کوالٹی بھی بڑھتی ہے ، لیکن اس کا تناسب کم ہوجاتا ہے ۔ یہ فطری ہے _ ہرتحریک کے ادوار ہوتے ہیں _ اعلیٰ کردار کے حامل آج بھی ہیں بہرحال جہاں کمی ہے اس کو دور کیا جائے گا ۔
سوال 8
          آپ کو نہیں لگتا کہ مسلم تنظیموں میں آپسی تعاون میں کمی ہوئی ہے ۔ مشاورت باہمی خلفشار کاشکار ہے ۔
جواب:
        مجھے لگتا ہے کہ اس میں پہلے کے مقابلے اضافہ ہورہاہے ، نظریاتی ومسلکی اختلافات کی شدت میں کمی آئی ہے ۔ وہ آپسی تعاون کے جذبہ پر اثرانداز نہیں ہورہے ہیں _ جہاں تک مشاورت کا تعلق ہے ، ہم مفاہمت کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے ، اختلافات ختم کریں گے اور چاہیں گے کہ مشاورت دستور کے مطابق کام کرے ۔
سوال 9
         مسلمانوں کو 30 سال سے 'جو بی جے پی کو ہرائے اسے جتاؤ' کی پالیسی پر عمل کروایا جارہا ہے _ کیا یہ ٹھیک ہے؟ حالاں کہ بی جے پی کادائرہ بڑھتا گیا ۔
جواب :
         جب تک فرقہ وارانہ پالیسی پر گام زن رہے گی اسے شکست دینے اور سیکولرطاقتوں کو اقتدار میں لانے کی کوششیں کی جائیں گی ۔ دراصل ووٹنگ سے زیادہ نقصان دہ ہے ووٹنگ سے پہلے ہمار اپروسیس ، کام کم شور زیادہ ، اشتعال انگیز بیانات اور شور و شرابہ سے نقصان ہوتا ہے ۔ مسلم قائدین کو ایسے طرزعمل سے گریز کرنا چاہئے ۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس بار ہر ایک نے تحمل واحتیاط سے کام لیا _ اس کے نتائج نظر آرہے ہیں _ بار بار اشتعال دلانے کے باوجود اپنی کوششوں میں فرقہ پرست کام یاب نہیں ہوئے۔
سوال 10
         کیا یہ سچ ہے کہ آئین اور جمہوریت خطرے میں ہیں؟
جواب :
        یہ اللہ جانتا ہے  _ یہ ملک بہت بڑاہے  _ 130 کروڑ عوام مختلف مذاہب اور ثقافت کو ماننے والے ہیں ۔ تنوع ہی اس کی خصوصیت ہے ، کوئی بھی تنگ نظر پالیسی یا ڈکٹیٹر کے ذریعہ ملک کومتحد نہیں رکھ سکتا ۔ کسی بھی طاقت کے لئے آئینی قدروں کو ختم کرنا مشکل ہے ۔ ایسی طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنا بہت ضروری ہے۔
سوال 11
       مسلم جماعتوں نے میڈیا کے تعلق سے غیر ذمہ داری کا رویہ اپنایا ہے _ کیا اس سمت میں کچھ نہیں کیا جاناچاہئے ؟
جواب:
       یہ بہت ضروری ہے  _ برادران وطن کے ساتھ تعلق کے لئے بھی میڈیا کا بڑا کردار ہے ۔ ہندوستان جیسے ملک میں ، جہاں مسلمان دبی کچلی اقلیت ہیں ، مؤثر میڈیا ہونا چاہئے ۔ ہم پہلے سے متوجہ ہیں  _ بہت کام کیا ہے اس پر _ نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔