Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 26, 2019

کیا غم ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف !!

کیا غم ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے....
از/ مولانا طاہر مدنی / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
جنرل الیکشن ختم ہوگیا اور نتیجہ بھی آگیا. نریندر مودی جی کی قیادت میں دوبارہ نئی سرکار بننے جارہی ہے، تنہا بی جے پی نے 303 نشستیں حاصل کرلیں اور اتحادیوں کے ساتھ 350 پار کرلیا. بھاجپا کا ووٹ پرسنٹیج 31 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد کے قریب پہونچ گیا. اپوزیشن کی ایسی درگت ہوگی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، ایک درجن سے زائد ریاستوں میں کانگریس کا کھاتہ بھی نہیں کھلا، حیرت تو اس پر ہے کہ جن ریاستوں میں چند ماہ قبل کانگریس نے بی جے پی کو شکست دی تھی وہاں بھی بی جے پی نے اسے دھول چٹا دی. اسباب کا تجزیہ ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا. مشینوں پر بھی سوال اٹھایا جارہا ہے اگر مضبوط قرائن ہوں تو اپوزیشن کو سپریم کورٹ جانا چاہیے.
ایک بات بہت واضح ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی نےاپنے اتحادیوں کو بڑے سلیقے سے جوڑا اور قربانی دے کر این ڈی اے کے کنبہ کو سنبھالا، جبکہ کانگریس اس محاذ پر بالکل ناکام رہی اور اس نے کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی. ماضی قریب میں میں ملی کامیابیاں غرور کا سبب بن گئیں،
علاقائی پارٹیوں کی ضد بھی رکاوٹ بنی. اس الیکشن نے سب کی اوقات بتادی.
ملک کا موجودہ سیاسی منظر نامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اب صرف دو محاذ ہوں، این ڈی اے اور یو پی اے، تیسرے مورچے کی کھچڑی اب پکنے والی نہیں ہے، چندرا بابو نائیڈو کا حشر دیکھ لیجیے. جو بی جے پی کی ہم خیال جماعتیں ہیں وہ این ڈی اے میں رہیں اور جو اس وچار دھارا سے اختلاف رکھتے ہیں وہ یو پی اے کا حصہ ہوں
.
مسلمانوں کیلئے کیا لائحہ عمل ہو؟
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
یہ ایک اہم سوال ہے، وہ اس ملک میں دوسری بڑی اکثریت ہیں، محتاط اندازے کے مطابق ان تعداد 25 کروڑ سے متجاوز ہے. افسوس کی بات یہ ہے کہ مختلف عوامل کی وجہ سے اس وقت وہ سیاسی بے وزنی کا شکار ہیں اور ایسی بےوقعتی کا سامنا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا. وہ تو کنگ میکر ہوا کرتے تھے، ان کا خیال رکھا جاتا تھا، ان کے مسائل کا ذکر ہوتا تھا، الیکشن میں وہ ایک اہم فیکٹر ہوتے تھے لیکن اس بار تو ان کا ذکر ہی منظر سے غائب ہوگیا، ان سے اپوزیشن نے بھی پرہیز کا رویہ اختیار کیا. اس صورتحال کو کیسے تبدیل کیا جائے اور مسلمانان ہند کا سیاسی لائحہ عمل کیا ہو؟ یہ اس وقت کا بہت اہم سوال ہے.

اس موقع پر میں اس نقطہ نظر کو انتہائی نقصان دہ سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے. یہ خودکشی کے مترادف ہے. آپ جس ملک میں رہتے ہیں اس کے معاملات سے الگ کیسے رہ سکتے ہیں، سیاست وہ مؤثر میدان ہے جس کے اثرات زندگی کے ہر گوشے پر پڑتے ہیں، اس سے کنارہ کشی اور لاتعلقی کا مشورہ کوئی نادان ہی دے سکتا ہے. ایک دلچسپ بات یہ بھی کہ سیاست سے کسی نہ کسی حد تک تعلق سب رکھتے ہیں، وہ بھی جو لاتعلق رہنے کا مشورہ دیتے ہیں.
مولانا طاہر مدنی۔
. . . . . . . 
اپنی دیگر تمام سرگرمیوں کے ساتھ مسلمانوں کیلئے عملی سیاست میں بھرپور حصہ لینا بہت ضروری ہے اس کے بغیر وہ ملک و ملت کی خدمت کا حق نہیں ادا کرسکتے.
اب تک دو طرح سے مسلمان سیاست میں حصہ لیتے رہے، سیاسی پارٹیوں میں شریک ہوکر یا اپنی زیر قیادت سیاسی پارٹیوں کے ذریعے. اول الذکر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہمیں ووٹ بینک سنبھالنے کیلئے تو استعمال کیا گیا لیکن ہمارے مسائل پر کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ ہم تعلیمی، معاشرتی اور معاشی لحاظ سے پس ماندگی کا شکار ہوتے ہوتے سب سے نچلے پائیدان پر پہونچ گئے. نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے شو بوائے کے طور پر استعمال کیا، ہماری ترقی پر دھیان نہیں دیا، ہمیں تحفظ فراہم نہیں ہوا، فسادات کے ذریعے جانی و مالی نقصان پہونچا یا جاتا رہا، دہشت گردی کے نام پر ہمارے نوجوانوں کو جیلوں میں ٹھونسا جاتا رہا، فرضی انکاونٹر کا نشانہ بنایا جاتا رہا، ماب لنچنگ ہوتی رہی، گئورکشا کے نام پر تشدد روا رکھا گیا، نوکریوں سے محرومی جاری رہی، اوقاف کو برباد کیا گیا، مساجد و مدارس کو نشانہ بنایا جاتا رہا، ہمارے تعلیمی اداروں کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جاتا رہا، مدارس کو بدنام کیا گیا، اس طرح کے بے شمار مسائل اس بات کی دلیل روشن ہیں کہ یہ تجربہ بالکل ناکام رہا ہے اور مزید اس کو جاری رکھنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے.
آزادی سے کر اب تک کا تجربہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنی سیاسی قیادتوں کو مضبوط کیا جائے، سیاسی بیداری پیدا کی جائے، لوکل باڈیز سے لے کر پارلیمنٹ تک الیکشن میں بھرپور حصہ لیا جائے، ہماری قیادت جب مضبوط ہوگی تو باوقار سمجھوتہ کرے گی، اگریمنٹ ہوں گے، ہم عزت کے ساتھ الائنس کا حصہ ہوں گے، ہمارے حقوق کی حفاظت ہوگی. ابھی تو ہمارا کہیں وجود ہی نظر نہیں آتا. کیرلا میں دیکھیں، مسلم لیگ باضابطہ طور پر ایک الائنس کا حصہ ہے کیونکہ وہاں کے پڑھے لکھے مسلمانوں نے اپنی قیادت کی اہمیت کو سمجھا اور اسے تقویت پہنچائی، تلنگانہ میں ایم آئی ایم ریاستی الائنس کا حصہ ہے. آج چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے جن کے علاقائی اثرات ہوتے ہیں ان کو بھی بڑی پارٹیاں اہمیت دینے پر مجبور ہوتی ہیں اور ان سے سمجھوتہ کرتی ہیں. ہم جب اپنی قیادت کو مضبوط نہیں کریں گے تو اہمیت کون دے 
گا؟

یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی زیر قیادت متعدد سیاسی پارٹیاں ہیں تو کس کو مضبوط کیا جائے؟ اس تعلق سے مختلف ریاستوں کی صورتحال الگ الگ ہے. ریاستی سطح پر جائزہ لیں، قابل اعتماد اور بھروسہ مند قیادت کو تقویت پہنچائیں، ان قیادتوں کے درمیان آگے چل کر ملکی پیمانے پر وفاق کی شکل بنے گی اور وہ مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی. 
عوامی سطح پر آپ کسی بھی پارٹی کا حصہ ہوں نہ کوئی وزن بنے گا اور نہ کوئی پہچان، قیادت کے ذریعے جب بات ہوگی، سمجھوتہ ہوگا تب وزن بھی ہوگا وقار بھی ہوگا اور شناخت بھی باقی رہے گی. یہ بات جتنی جلد سمجھ میں آجائے، بہتر ہوگا ورنہ مزید وقت برباد ہوگا اور مزید تنزل کا شکار ہوں گے.
مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوتا، حوصلہ نہیں ہارتا، اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے اور بہترین تدابیر اختیار کرتا ہے. اس وقت ذیل میں بیان کردہ میدانوں میں ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے.
1...  دینی بیداری؛ ہماری عزت و ذلت کا دار و مدار دین سے وابستگی پر ہے، ہمارا دین ہی ہماری پہچان ہے، دین کا علم عام کرنا، نئی نسل کی دینی تربیت کرنا، فرد، خاندان اور سماج کو دینی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا، اولین ترجیح ہونی چاہیے. اس کے بغیر مسلمانوں کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا.
مکاتب مستحکم کیے جائیں، مساجد کو تربیت گاہ بنایا جائے، گھروں کا ماحول اسلامی ہو، اصلاح معاشرہ کا ہمہ جہتی کام ہو، دینی جماعتوں کے ساتھ تعاون و اشتراک ہو، ہر مسلمان کو اسلام کا نمائندہ بنانے کی کوشش ہو اور اخلاقی لحاظ سے اسے بلند کیا جائے.
2....  تعلیم پر توجہ؛ تعلیمی لحاظ سے ترقی کی بلندی پر پہونچتا بہت ضروری ہے، مسابقت کا زمانہ ہے جو تعلیم میں پیچھے ہوگا وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا. ہمارے موجود تعلیمی اداروں کے معیار کو بلند کیا جائے اور حسب ضرورت نئے ادارے قائم کیے جائیں، معیار پر اصل توجہ ہو اور ربط باہم کی کیفیت ہو. سرکاری مراعات سے پورا فائدہ اٹھایا جائے. گھر گھر تعلیم کی روشنی پھیلائی جائے اور ناخواندگی کے خلاف اعلان جنگ کردیا جائے، 100 فیصد تعلیم یافتہ قوم بنانے کا ٹائم باونڈ ھدف مقرر ہو.

3...  دعوت دین؛ اسلام کی قوت کا راز دعوت اسلامی اور اس کی کشش ہے. اسلام ایک دین دعوت ہے، اس کا پیغام ساری انسانیت کیلئے ہے. یہ ایک امانت ہے جسے انسانیت تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے. بھارت کے 100 کروڑ غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کی دعوت پہونچانا 25 کروڑ مسلمانوں کی منصبی ذمہ داری ہے، اگر ہر مسلمان 4 افراد تک اسلام کا پیغام پہونچانے کی ذمہ داری ادا کرے تو یہ کام بڑی آسانی سے ہوسکتا ہے. جدید وسائل کو استعمال کیا جائے. اسلام کے اندر جو رعنائی ہے اور قرآن و سنت کے اندر جو دلکشی ہے وہ غیر معمولی ہے. ہر مسلمان کو یہ احساس دلایا جائے کہ تم داعی ہو، پوری ملت ایک داعی گروہ ہے، تمام برادران وطن مدعو قوم کے افراد ہیں، دردمندی کے ساتھ پیغام حق کی امانت ان تک پہونچانی ہےاور ان کی ھدایت کیلئے دست دعا اٹھانا ہے. یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اگر احساس ہوجائے تو رات کی نیند اور دن کا آرام حرام ہوجائے اور ہر شخص سراپا حرکت و عمل بن جائے؛
وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام، ابھی باقی ہے.......
4 ...  سیاسی طاقت کا حصول؛ چوتھا میدان سیاسی میدان ہے. مسلمان کی ذمہ داری قیام عدل ہے. مظلوموں کی مدد کرنا اور انصاف قائم کرنا ہم پر لازم ہے، ہر ممکن کوشش اس ضمن میں کرنی ہے. سیاست خدمت خلق اور قیام عدل کا مؤثر وسیلہ ہے. پردھان سے لے کر پردھان منتری تک اگر ایماندار لوگ آجائیں تو ملک کی تصویر بدل جائے گی. اپنی سیاسی طاقت بنائیں، اپنی قیادت مضبوط کریں، ایک مسلمان کا سیاسی ایجنڈا سب کیلئے انصاف کا حصول ہوتا ہے، وہ اقدار پر مبنی سیاست کرتا ہے، وہ خلق خدا کی خدمت کو عبادت تصور کرتا ہے، اس کے سامنے وحدت بنی آدم کا نظریہ ہوتا ہے، وہ سب کو اپنا بھائی سمجھتا ہے. ملکی سیاست سے نفرت کے کاروبار کو ختم کرنا اور دیش کے اندر بھائی چارہ قائم کرنا، وقت کی ضرورت ہے، مسلمان سب سے بہتر طریقے سے اس کام کو انجام دے سکتا ہے کیونکہ اس کے سامنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ حسنہ ہے. کس طرح آپ نے انسانوں سے محبت کی، ان کی خدمت کی اور دنیا میں ایسا عدل و انصاف قائم کیا کہ انسان تو انسان ہے جانوروں کے حقوق کی بھی پاسبانی ہونے لگی.
حکومتیں آتی جاتی رہیں گی، مسلمان کو ہر حال میں اپنے ایمان کے تقاضوں کی تکمیل کرنی ہے اور ہمیشہ اللہ پر اپنا بھروسہ رکھنا ہے......
ان تنصروا اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم... تم اگر اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جما دے گا..... اللہ کی مدد اللہ کے دین کی دعوت اور اللہ کے بندوں کی خدمت ہے.......
ظلمت شب دور ہوگی جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا، نغمہ توحید سے.........  ان شاء اللہ
طاہر مدنی 26 مئی 2019