Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 26, 2019

ایڈوکیٹ محمود پراچہ کے انٹر ویو پر گلزار اعظمی کا وضاحتی بیان۔


از۔گلزار احمد اعظمی (سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی)/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
گذشتہ چند دنوں سے یوٹیوب پر ”دھاکڑ نیوز چینل“کو دیئے گئے ایڈوکیٹ محمود پراچہ کے بیان سے عوام الناس میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے اپنے پہلے سے تیار شدہ انٹرویو میں ایک جانب جہاں جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ دیگر ملی تنظیموں پر الزام تراشی کی ہے وہیں احقر(گلزار احمد اعظمی) کا نام بھی انہوں نے گھسیٹا ہے۔
گلزار اعظمی

 اس تناظر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی رہنمائی میں کام کر رہی جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی نے کبھی کبھی کسی بھی ملزم کے دفاع کے لیئے ایڈوکیٹ محمود پراچہ کی خدمت حاصل نہیں کی ہے اور نہ ہی ہماراکبھی ان سے رابطہ رہا ہے البتہ عباس کاظمی کی ضمانت پر رہائی کے بعد انہوں نے ممبئی میں دفتر جمعیۃ علماء میں احقر سے ملاقات کی تھی اور رضاکارانہ طو ر پر خدمات پیش کرنے کی حامی بھری تھی لیکن اس وقت ہم نے انہیں کوئی ذمہ داری نہیں سونپی شاید اسی کی ناراضگی کا نتیجہ ہے ایڈوکیٹ محمود پراچہ کا حالیہ انٹرویو۔

فی الحال جمعیۃ علماء دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت گرفتا۷۰۰ ملزمین کے مقدمات کی پیروی کررہی ہے اور اب تک جمعیۃ علماء کی کوششوں سے ۲۰۰ ملزمین مقدمات سے باعز ت بری ہوچکے ہیں جبکہ ۶۶/ ملزمین کی ضمانت پر رہائی ہوئی نیز اسی درمیان عمر قید کی سزا کاٹ رہے متعدد ملزمین کو پیرول پر رہا کرایا گیا۔
ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے جمعیۃ علماء پر الزام عائد کیا کہ وہ مسلم ملزمین کو جرم قبول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور ان پر بے جا دباؤ بناتے ہیں، محمود پراچہ کی ناقص معلومات کو درست کرنے کے مقصد سے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گذشت برس ناندیڑ اسلحہ ضبطی معاملے کا سامنا کررہے  تین ملزمین نے مقدمہ کی سماعت میں ہونے والی تاخیر سے تنگ آکر این آئی اے کے بہکاوے میں آکر جرم قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ملزمین کے اس اقدام کا جیسے ہی دفاعی وکلاء اور جمعیۃ علماء کو علم ہوا، سب سے پہلے دفاعی وکلاء نے عدالت سے اپنا وکالت نامہ نکال لیا اور جمعیۃ علماء نے ایک اخباری بیان جاری کیا کہ ایسے ملزمین کوقانونی امداد فراہم نہیں کی جائے۔

اپنے انٹریو میں ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے دفاعی وکلاء پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ ایسے مقدمات لڑنے کے ”قابل“ نہیں ہیں، میں انہیں اعداد شمار کی روشنی میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جمعیۃ علماء نے ابتک جتنے بھی مقدمات کی پیروی کی ہے اس میں اسے  بیشتر مقدمات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے،  ہمارا مقدمات جتنے کا فیصد ۹۰/ سے۹۵/ ہے۔ پہلے تو دہشت گردانہ معاملات کی پیروی کرنے کوئی وکیل آگے نہیں آتا اور جو وکلاء اپنی خدمات پیش کررہے ہیں ان پر الزام عائد کرنا ان کی حوصلہ شکنی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس مراسلہ کے ذریعہ میں ایڈوکیٹ محمود پراچہ سے مانگ کرتا ہوں کہ وہ عوام سے فوراً معافی مانگیں بصورت دیگر ان پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی نیز دھاکڑ نیوز کے ایڈیٹر سے بھی مانگ کی جاتی ہیکہ وہ یوٹیوب سے فوراً انٹرویو کو ڈ یلیٹ کریں اور بغیر فریق دیگر کے دلائل کی سماعت کیئے بغیر انٹریوں شائع کرنے کے لیئے معافی مانگیں۔
میں اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے رضا کار اور خیر خواہوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایڈوکیٹ محمود پراچہ کے بے بنیاد بیان کو زیادہ اہمیت نہ دیں، سستی شہرت حاصل کرنے کے لیئے وقتاً فوقتاً ایسے لوگ رونما ہوتے رہتے ہیں جس سے جمعیۃ علماء جیسی عظیم تنظیم کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔