Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 26, 2019

ہاں ! میں سید امتیاز جلیل ہوں۔


از/نازش ہماقاسمی / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
جی سید امتیاز جلیل، سید، سردار، امتیاز، ممتاز، امتیازی شان رکھنے والا، جلیل، جلیل القدر (بڑے رتبے والا)، مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن، اورنگ آباد کے مسلمانوں سمیت ملک عزیز کے مسلمانوں، دلتوں، پچھڑوں کا رہبر و قائد، غم خوار، محسن، فسادات کے دوران ان کے شانہ بشانہ چلنے والا، مالی اعانت کرنے والا، ان کے حقوق کےلیے لڑنے والا، ایوان اسمبلی میں گرجنے والا، بے باک صحافی، منصف سیاست داں، اعلیٰ تعلیم یافتہ، سلیقہ مند، سادگی پسند، سلیم الطبع، خوش اخلاق، خندہ پیشانی سے ملنے والا، ہنس مکھ، بہترین مقرر، غریب پرور، نیو دیا دنیان پرسارک منڈل  کی جانب سے بہترین ایم ایل اے کا خطاب پایا ہوا، عوام میں کافی مقبول، اورنگ آباد لوک سبھا سیٹ سے مجلس اتحادالمسلمین کا سابق ممبر اسمبلی اور 389042 ووٹ حاصل کرکے شیوسینا کے امیدوار چندر کانت کھیرے کو شکست دینے والا  نو منتخب ممبر آف پارلیمنٹ سید امتیاز جلیل ہوں۔ میری پیدائش ۱۰؍اگست ۱۹۶۸ کو مغل شہنشاہ محی الدین اورنگ زیب محمد عالمگیرؒ کے نام سے موسوم دروازوں کے شہر اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں ہوئی۔ میرے والد محترم کا نام ڈاکٹر سید عبدالجلیل ہے جو دوران حج 


مالک سے حقیقی سے جا ملے۔ والدہ محترمہ کا نام ذکیہ جلیل ہے جو الحمدللہ باحیات ہیں جن کی دعاؤں کی بدولت ہی میں عوامی خادم بنا ہوں، خدا ان کا سایہ عاطفت قائم رکھے (آمین) میری شریک حیات  کا نام رومی فاطمہ جلیل ہے جنہوں نے ہر خوشی و غم میں میرا ساتھ دیا اور مضبوط سہارا بن کر ابھریں۔ میرے دوبچے ہیں ایک کا نام بلال جلیل اور دوسرے کا نام حمزہ جلیل ہے۔ میں نے اپنی تعلیم ہالی کراس انگلش ہائی اسکول، مولانا آزاد کالج آف آرٹس اینڈ سائنس، ایم جی انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ اورنگ آباد اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ میں نے ایم بی اے گریجویٹ اور جرنلزم بھی کیا ہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۱؍سال تک میں مشہور اخبار لوک مت سے منسلک رہا، پھر اس کے بعد پونہ میں این ڈی ٹی وی انڈیا سے منسلک ہوکر تقریباً ۱۲ سال تک صحافتی خدمات انجام دیتا رہا۔ این ڈی ٹی وی سے جڑے رہنے کے دوران میری ملاقات مجلس اتحادالمسلمین کے قائد اسدالدین اویسی سے اکثر وبیشتر ہوا کرتی تھی، صحافی ہونے کے ناطے ان سے کچھ سوالات وجوابات ہوا کرتے تھے، کچھ سیاسی مشورے دیا کرتا تھا، انہوں نے میرے ذہن کو پرکھ لیا اور مجھے بہتر طور پر سمجھ گئے کہ میں سیاست میں مسلمانوں کی قیادت کرسکتا ہوں، اسمبلی میں گرج سکتا ہوں، مسلمانوں، دلتوں اور مظلوموں کی آواز اُٹھا سکتا ہوں، آگے چل کر بے باک آواز بن کر ابھر سکتا ہوں، اس لیے انہوں نے مجھے ۲۰۱۴ اورنگ آباد سے مجلس کا امیدوار بنایا اور اورنگ آباد کی عوام نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا اور مجھے نامزد ہونے کے صرف ۱۲ دن بعد ہی مہاراشٹر کی اسمبلی تک پہنچایا۔ میں اسمبلی میں گرجا، اوقاف کے مسائل اُٹھائے، اوقاف کی زمینوں کی بندر بانٹ پر گرفت کی اور ملزمین کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ۲۰۱۵ میں مجلس نے میری زیر قیادت اورنگ آباد میں بلدیاتی الیکشن لڑا؛ جہاں تقریباً ۲۵؍نشستیں حاصل کیں۔
ہاں میں وہی امتیاز جلیل ہوں جس نے ممبر اسمبلی رہتے ہوئے  اسکیل ڈیولمپنٹ یونیورسٹی قائم کی، مسلم ریزرویشن کےلیے ہر ممکن کوشش کی، بچوں اور خواتین کےلیے ۲۰۰ بیڈ پر مشتمل اسپتال بنوایا، صحت مند انسانی جسم کےلیے اوپن جم کا قیام عمل میں لایا، پرم ویر عبدالحمید کلچرل ہال کی تعمیر کی، اورنگ آباد کے مسلمانوں کی ترقی کےلیے ۲۰۰ کروڑ روپیے منظور کروایا، مئی ۲۰۱۸ میں اورنگ آباد میں پھوٹ پڑنے والے فساد میں رات دن متاثرین کے ساتھ رہا، ان کی نذرآتش کی گئی دکانوں کو اپنی جیب خاص سے تعمیر کرایا، دوکانوں میں جو نقصان ہوا تھا اس کی بھرپائی کی، صرف مسلمانوں کی ہی دکانوں کو دوبارہ تعمیر نہیں کرایا؛ بلکہ اسلام کے آفاقی پیغام کے تحت غیر مسلم فساد متاثرین کی بھی دادرسی کی اور ان کے ساتھ اخوت وبھائی چارگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دس غیر مسلم بھائیوں کی دکانوں کو تعمیر کروایا اور انہیں یہ احساس دلایا کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں خواہ مظلوم کسی بھی مذہب کا ہو۔ ہاں میں وہی امتیاز جلیل ہوں جس نے ایوان اسمبلی میں کانگریس کو لتاڑا، ۷۰ سال سے مسلمانوں کے پیٹھ میں گھونپے گئے چھرے کو آشکار کیا اور مسلمانوں کو بتایا کہ کانگریس مار آستین ہے اس نے ہمیشہ مسلمانوں کا استعمال کیا ہے اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کانگریس کی غلامی سے آزاد ہوجائیں اور ایسی پارٹی کا ساتھ دیں جو واقعی مسلمانوں کو اس کے حقوق دلائے، مصیبت میں مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہے، ایوان اسمبلی میں گرجے، ایوان پارلیمنٹ میں رہبری کرے اور شریعت میں مداخلت پر آواز اُٹھائے۔ ہاں میں وہی امتیاز جلیل ہوں جس نے گستاخ رسول متنازعہ بنگلہ دیشی مصنفہ کو اورنگ آباد آنے نہیں دیا، عشق رسول سے سرشار ہوکر اس بے ادب، گستاخ، کافرہ تسلیمہ کو اورنگ آباد ایئر پورٹ سے واپس ممبئی بھجوادیا کہ وہ ہمارے یہاں نہ آئے؛ کیونکہ اس کی تحریروں سے دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، گستاخ رسول کا داخلہ اورنگ آباد میں ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ اور یہاں کے عوام نے ہمارا ساتھ دیا، شدید احتجاج کیا جس کی وجہ سے اسے فیصلہ واپس لینا پڑا اور سرزمین اورنگ آباد اس کے ناپاک قدم سے محفوظ رہی۔
ہاں میں وہی امتیاز جلیل ہوں جس کی بہترین قیادت، بہترین عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مجلس کے قائد نے فیصلہ لیا کہ مجھے پارلیمنٹ میں بھیجا جائے؛ تاکہ مسلمانوں کی آواز اُٹھانے کےلیے صرف تنہا میں ہی بولنے والا نہ رہوں میرے ساتھ میرے رفیق بھی رہیں؛  اس لیے انہوں نے پرکاش امبیڈکر سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد مجھے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا اور انتخاب سے صرف بیس دن پہلے مجھے نامزد کیا اس دوران میں صرف چار گھنٹے سویا کرتا تھا صبح وشام عوام کے درمیان رہ کر انہیں یہ باور کرایا کہ میں جس طرح ایوان اسمبلی میں گرجا ہوں پارلیمنٹ جاکر بھی بہترین اور موثر آواز ثابت ہوں گا، مجھے ووٹ دے کر کامیاب کریں اور اپنے حقوق کی بازیابی کا سبب بنیں۔ مسلمانوں کی آہ سحر گاہی، دلتوں کی جان توڑ کوششیں کام آئیں اور میں نے ان دو پچھڑی قوموں کے ووٹوں سے تاریخی کامیابی حاصل کر کے شیوسینا کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقے کو اپنے نام کرلیا۔ ان شاء اللہ میں ایوان پارلیمنٹ میں اپنے قائد اسدالدین اویسی کے ساتھ پرزور آواز اُٹھاؤں گا، دلتوں اور مسلمانوں پر ہورہے مظالم کے خلاف ابھروں گا، شریعت میں مداخلت کی سازش کو ناکام کرنے کی کوشش کروں گا، میں اورنگ آباد کے تمام باشندوں کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ کسی بھی شہری کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہونے دوں گا، بلاتفریق مذہب وملت سب کی خدمت کروں گا، ملک کی ترقی کے لیے کام کروں گا، دلتوں اور مظلوموں کی آواز بن کر پارلیمنٹ میں دہاڑتا رہوں گا اور اسدالدین اویسی صاحب کو اب یہ شکایت نہیں رہے گی کہ ’میں تنہا تھا پارلیمنٹ میں بولنے والا کاش میرے ساتھ کوئی اور ہوتا تو بات کچھ اور ہوتی‘۔