Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 11, 2019

جب تک بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں نہیں رکتیں، ہم مقدمے لڑتے رہیں گے !۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلزار اعظمی۔


ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ سکتے، ملت سے بھیک مانگ کر بے قصوروں کو قانونی امداد فراہم کریں گے: جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشدمدنی) کے سکریٹری گلزار احمداعظمی سے بات چیت
ابوندیم ۔صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  

گلزار اعظمی

گلزار اعظمی نے پولس سپاہی کی چھٹی کردی ہے!
پولس والے کو ان کی ’حفاظت‘ کےلیے تعینات کیاگیا تھا۔ حفاظت کے لیے ! کیوں؟ یہ سوال لوگ پوچھ سکتے ہیں، لیکن اس دنیا کا یہ عام دستور ہے کہ ہر اس شخص کو جو اچھائی او رنیکی کے کام کرتا ہو’حفاظت‘ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور گلزار اعظمی جو کام کررہے تھے اس نے تو نہ جانے کتنے لوگوں کے ہوش اڑا رکھے تھے۔ دہشت گردی کے الزام میں پھنسائے گئے مسلم نوجوانوں کو قانونی امداد کی فراہمی کا کام۔۔۔جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی قانونی امدا دکمیٹی کے سکریٹری کے طور پر ان کے رات دن بس اسی فکر میں کٹتے ہیں کہ قوم کا کوئی نوجوان بے قصور دہشت گردی کے الزام میں سزا نہ پاسکے۔ بھلا ان سے کون خوش  رہ سکتا ہے!حکومت ناراض، ایجنسیاں ناراض، پولس ناراض، ہندوتوادی ناراض ، وہ جرائم پیشہ ناراض جو مذکورہ عناصر کے اشارے پر سرگرم رہتے ہیں۔ لیکن گلزار اعظمی نے یہ کہتے ہوئے ’’موت اور زندگی کا مالک تو بس اللہ ہے‘‘ چند دنوں بعد پولس سپاہی کی چھٹی کردی۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشدمدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سکریٹری کے طور پر گلزار احمد اعظمی کے گزشتہ ایک سال (فروری ۲۰۱۸ تا مارچ ۲۰۱۹) کی کارکردگی دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ پولس اور ایجنسیاں کس ڈھٹائی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد کو دہشت گردی کے معاملات میں پھنساتی رہی ہیں لیکن عدالتیںان نوجوانوں کو باعزت بری کرکے ایجنسیوں اور پولس کی متعصبانہ کارروائی کا پول کھولتی رہی ہیں۔۔۔گزشتہ ایک سال کے دوران جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے توسط سے ۷۶ مسلم نوجوان باعزت رہا ہوئے۔ سال ۲۰۰۷ سے جمعیۃ علما مقدمات لڑتی چلی آرہی ہے اور اب تک ۱۹۲ مسلم نوجوانوں کو راحت مل چکی ہے۔ جمعیۃ نے مالیگائوں کے ۲۰۰۶ اور ۲۰۰۸ کے بم دھماکوں میں ملوث بھگوا ملزمین کے خلاف بھی، جن میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر بھی شامل ہے جو بھوپال سے بی جے پی کی لوک سبھا کی اُمیدوار ہے، نچلی عدالت سے لے کر عدالت عظمیٰ تک رجوع کیا ہے۔ مذکورہ دونوں ہی مقدمات میں جمعیۃ بم دھماکوں  کے متاثرین کی جانب سے بطور مداخلت کار عدالت سے رجوع ہوئی ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ سے بری سوامی اسیمانند اور دیگر کے خلاف بھی جلد ہی یہ متاثرین کی جانب سے چنڈی گڑھ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرنے والی ہے۔۔ جمعیۃ قانونی امداد کے علاوہ ریلیف ورک، تعلیمی وظائف، اصلاح معاشرہ، قومی یکجہتی مہم اور طبی امداد کے کامو ںمیں بھی جٹی ہے۔ گلزار اعظمی سے جمعیۃ کے کاموں پر کی گئی بات چیت کے اقتباسات درج ذیل ہیں۔
س: مقدمات کا لمبی مدت سے چل رہا ہے سلسلہ کب تک چلے گا ؟
ج: یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک ان پولس افسروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی جو بے گناہوں کو گرفتار کرکے برسوں تک کے لئے جیلوں میں ڈال دیتے ہیں اور اس وقت تک جب تک بے قصوروں کی گرفتاریاں نہیں رکتی ہیں ۔
س: بے گناہوں کو جیلوں میں ڈالنے والے پولس افسروں پر کارروائی کی کیا شکل ہے ؟
ج: ہونا تو یہ چاہئے کہ جب جج ماخوذین کی باعزت رہائی کا فیصلہ  دے تو یہ ہدایت بھی دے کہ پولس والوں کی تنخواہوں سے ہرجانہ ادا کیا جائے ۔جب تک افسران پر کوئی بندش نہیں ہوتی یہ سلسلہ  چلتا رہے گا ۔ 

س: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ گرفتاریاں اس لئے کی جارہی ہیں کہ مسلمان ایک ہی مسئلے پر گھر کر رہ جائیں اور دیگر مسائل پس پشت چلے جائیں؟
ج: اس میںکوئی شک نہیں کہ مسلم دشمن جو افسران ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو سکون ملے تو وہ برادران وطن سے ہر معاملے میں آگے بڑھ جائیں گے ۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ حکومت چاہے کانگریس کی رہی ہو یا بی جے پی کی مسلمانوں کو سب ہی نے پکڑا ہے ۔  آج بھی مسلمان پکڑے جارہے ہیں تاکہ ان کی صحت اور تعلیم پر برا اثر پڑے ۔ لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے ، ملّت سے بھیک مانگ کر ان کا مقدمہ لڑتے رہیں گے ۔
س: گویا گرفتاریاں مسلمانوں کے خلاف حکومت کے لئے ایک طرح کا ہتھیار ہیں؟
ج: بالکل ! اور یہ ان فرقہ پرستوں کی منصوبہ بندی ہے جوحکومت میں بیٹھے ہیں ، بی جے پی اور کانگریس والوں کی کوئی تشخیص نہیں ہے ۔ بی جے پی تو کھلی ہوئی دشمن ہے ۔ آر ایس ایس کا وجود ہی مسلم دشمنی پر ہوا ہے ۔ اس کا مقصد ہندوستان میں مسلمانوں کو دوسرے  درجے کا شہری بنانا ہے ۔ لیکن کانگریسیوں نے جو دوست بن کر مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے وہ جن سنگھیوں سے زیادہ ہے ۔
س: بات مقدمات کی کرتے ہیں ، کتنے مقدمے ان دنوں زیر سماعت ہیں ؟
ج:نچلی عدالتوں میں 62 معاملات زیر سماعت ہیں ۔ ان میں ممبئی کے سلسلہ وار بم دھماکوں سے لے کر انڈین مجاہدین ، سی آر پی ایف کیمپ ( رامپور) پر حملے اور پٹنہ بودھ گیا بم دھماکہ تک دہشت گردی کے ایسے معاملات  ہیں جن میں تعلیم یافتہ نوجوان گرفتار کئے گئے ہیں۔ ہائی  کورٹ میں 30 معاملات ہیں ، ان میں اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کا معاملہ ہے ، ’سیمی‘ کے معاملے ہیں ، مالیگاؤں بم دھماکہ 2006  کا معاملہ ہے ، ممبئی کے بم دھماکوں کا معاملہ ہے ۔ سپریم کورٹ میں  ۹؍معاملات زیر سماعت ہیں ، ان میں ممبئی  ریل دھماکہ کے ساتھ گودھرا فسادات کا معاملہ بھی شامل ہے اور گیٹ وے آف انڈیا وبنگلور چرچ کے دھماکے بھی ۔یوں سمجھ لیں کہ  ملک کی  مختلف عدالتوں میں جو مقدمات زیر سماعت ہیں ان میں سات سو سے زائدملزمین کو جمعیۃ قانونی امداد فراہم کررہی ہے ۔ کئی معاملات پولس افسران اور حکومت کے خلاف بھی ہیں ۔
س:مالیگاؤں کا ذکر آیا ہے تو یہ بتائیں کہ سادھوی پرگیہ ضمانت پر ہے، بلکہ وہ بھوپال سے بی جے پی کی امیدوار ہے جبکہ  پروہت کو ضمانت ملی ہے ، سوامی اسیما نند کو بے داغ کہا جارہا ہے ۔ کیا یہ سب رہا ہوجائیں گے ؟
ج:سادھوی پرگیہ سنگھ بھلے بھوپال سے بی جے پی کی امیدوار ہو وہ بم دھماکوں کی ملزمہ ہے اور یقیناً اسے سزا ملے گی۔ شہید ہیمنت کرکرے نے اس کے خلاف جو ثبوت اکھٹے کیے ہیں وہ اسے مجرم ثابت کرنے کےلیے کافی ہیں۔ ویسے بی جے پی کا مسلم دشمن چہرہ سادھوی کو امیدوار بنانے کے بعد ایک دم عیاں ہوگیا ہے۔ رہی بات دوسرے ملزمین کی تو اب تو حکومت ہی  ان کی ہے ۔ انہوں نے نہ عدلیہ کو آزاد رہنے دیا ہے نہ انتظامیہ کو اپنی کوشش کرنے دی ہے بلکہ جو بھی قانونی ادارے ہیں ان سب پر اپنا فرمان جاری کرکے اس پر عمل کروانے کا کام کیا ہے ۔ لیکن یہ سب ان شاء اللہ بری تو نہیں ہوں گے  آنجہانی ہیمنت کرکرے نے جو ایماندانہ کوشش کی تھی  اور جو کچھ ریکارڈ  پر ہے اس کی روشنی میں امید نہیں یقین ہے کہ ان سب کو سزائیں ہوں گی ۔
س: کیا جمعیۃ ان معاملات کو بھی دیکھ ر ہی ہے؟
ج: جمعیۃ علماء ایک جانب جہاں بے گناہوں کے مقدمات کی پیروی کرتی ہے وہیں اس بات پر بھی نظر رکھتی ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کو پھنسانے کے الزام میں گرفتار ہیں پولس ریکارڈ کے مطابق ان کے مقدمات چلیں ۔ ہم الحمدللہ یہ نگرانی کرتے ہیں ۔ ہم سادھوی کے خلاف بھی عدالت میں ہیں اور اسیما نند کے خلاف بھی عدالت جارہے ہیں۔
س: مقدمات کی پیروی میں جمعیۃ کوکن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟
ج: سب سے بڑا مسئلہ ملک بھر میں وکلاء کی تلاش ہے ۔ ہمارے دو وکلاء ایڈوکیٹ انصار تمبولی اور ایڈوکیٹ شاہد ندیم وکلاء کی تلاش کا کام کرتے ہیں ۔ یہ مقدمے کی رفتار کو بھی دیکھتے ہیں ۔
س: وکلاء کی فیس کیسے طئے کی جاتی ہے ، اور رقم کہا ں سے آتی ہے ؟
ج: جیسا وکیل ہوتا ہے ویسی فیس طے ہوتی ہے۔ اور رہا یہ سوال کہ رقم کہاں سے آتی ہے تو  مخیر حضرات ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں ۔ رمضان المبارک کے اس مہینے میں ہم مسجدوں کے دروازے پر اللہ کا نام لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں ، مخیر حضرات سے درخواست کرتے ہیں وہ رمضان میں بھی  رقم دیتے ہیں اور الحمد اللہ سال بھر  جمعیۃ سے تعاون کرتے ہیں ۔
س: گویا جمعیۃ کو ملنے والی رقم مقدمات پر خرچ ہوجاتی ہے؟
ج: نہیں۔ جمعیۃ کا جو بجٹ ہے اس میں سےڈھائی کروڑ روپئے مقدمات پر اور کروڑ روپئے تعلیمی وضائف پر خرچ ہوتے ہیں ۔ باقی رقم دوسرے جو مد ہیں جیسے کہ جیل میںجو ہیں انہیں ماہانہ خرچ دینا وغیرہ پر خرچ ہوتی ہے ۔ ہم ماخوذین کو ماہانہ رقم بھی دیتے ہیں اب اس میں اضافے کا مطالبہ ہے اگر قوم نے مدد کی تو اضافہ کریں گے ان شاء اللہ ۔ اور یہ سب کام مقدمات ، تعلیمی وظائف ، سیلاب زدگان ، آفت زدگان کی امداد وغیرہ وغیرہ   سب  مٔخیر حضرات کے تعاون سے ہوتا ہے ۔ قوم بھروسہ کرتی ہے ۔
س: شریعت میں مداخلت اور بابری مسجد کا مقدمہ بھی ہے ؟
ج: جی طلاقِ ثلاثہ کے معاملے میں ہم سپریم کورٹ میں تھے ۔ صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹر مولانا مستقیم احسن اعظمی نے درخواست دی تھی۔ رہا بابری مسجد کا مقدمہ تو یہ جمعیۃ علماء ہند دیکھ رہی ہے ۔ اس معاملے میں بھی  مخیر حضرات تعاون کرتے ہیں۔
س: اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے ؟
ج: شواہد اور ثبوتو ں سے یہ بات  ثابت ہوچکی ہے کہ بابری مسجد کی زمین مسلمانوں کی ملکیت ہے ۔ اب فیصلہ عدالت کوکرنا ہے ۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ عدالت ان پر کارروائی نہیں کررہی ہے جو توہین عدالت کرتے ہوئے آج بھی نعرہ لگاتے ہیں ’ مندر وہیں بنائیں گے ‘
س: آنے والے ہندوستان کو آپ کیسا دیکھ رہے ہیں ؟
ج: حالات خراب ہیں، الیکشن کے اس دو رمیں جھوٹ کا بازار گرم ہے۔ اگر اس بار بھی مودی جیتے تو ملک کے حالات بے حد نازک ہوجائیں گے۔ ہمارے دوست پروفیسر مدھوڈنڈوتے کہا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ آر ایس ایس کے لوگوں کا حکومت پر تسلط ہوگیا تو پھر نہ اس ملک میں کبھی الیکشن ہوگا اور نہ ہی سیکولر ہندوستان باقی رہے گا ۔ لیکن ابھی امید ہے ۔ اگر سیکولر ہندوسامنے آجائے تو بالکل امید ہے  کیونکہ اس ملک میں اکثریت سیکولر لوگوں کی ہی ہے ۔ اور اس الیکشن میں یہ لگ رہا ہے کہ ہندوستان میں سیکولرزم کی موت نہیں ہوگی، جیت ہی ہوگی۔ ان شاء اللہ۔