Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 26, 2019

بی جے پی جیت کا ذمہ دار کون ،،


گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لیں!
شکیل رشید/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے ۰۰۰
لوک سبھا چناؤ میں مودی اور بی جے پی کی جیت سے ابتداء میں ایک طرح کی مایوسی طاری ہوئی تھی جو اپنے گریبان میں جھانکنے کے بعد ختم ہوگئی۔ یہ سچ ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کی یہ جیت ملک کے لئے ،مسلمانوں ، دلتوں ،پچھڑوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے تو باعث تشویش ہے ہی لیکن وہ جنہوں نے اپنے ووٹ دے کر اس جیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ، وہ بھی آنے والے دنوں کے ’ الٹ پھیر‘ کے اثرات سے محفوظ رہنے والے نہیں ہیں ۔ انہیں بھی کچھ ہی دنوں بعد یہ اندازہ ہوجائے گا کہ جو ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ۔
دوسروں کی بات کرنے سے پہلے اپنی بات کرلیتے ہیں ۔ 

ایک طرف سے آواز آرہی ہے کہ عزم اور حوصلہ کھونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، دوسری طرف سے یہ پکار ہے کہ مسلمان کیوں ڈریں  ۔بات سچ ہے ، مسلمانوں نے کہاں اپنا عزم اور حوصلہ کھویا ہے ! کھویا تو وہ جاتا ہے جو کسی کے پاس ہو ! مسلمانوں کے پاس نہ کوئی عزم اور حوصلہ پہلے تھا اور نہ آج  ہے ۔ 2019 ء کے لوک سبھا چناؤ میں مسلمان اگر اس عزم اور حوصلے کے ساتھ اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے  کہ اس بار ملک کی قسمت بدل دینی ہے تو بھلے  ہی  مرکز میں بی جے پی کی سرکار بنتی پر آج جتنی مضبوط ہے شاید اتنی  مضبوط نہ ہوتی ۔ جس روز چناؤ کے نتائج کا اعلان ہونے والا تھا فجر کی نماز کے بعد مسجد میں خصوصی دعا کروائی گئی کہ اللہ ظالم حکمرانوں سے امت اور ملّت کو محفوظ رکھ۔ دعا کرنے والوں میں ،میں بھی شامل تھا اور میرے ساتھ بہت سارے وہ لوگ بھی شامل تھے جو پولنگ والے روز بوتھوں پر جاکر اپنے ووٹوں کا استعمال کرنے کی بجائے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے ۔  اللہ رب العزت اس وقت تک حالات کو نہیں بدلتا جب تک کہ لوگوں کی طرف سے حالات کی تبدیلی کے لئے ہاتھ پیر نہ ہلائے جائیں۔ اور ہم ہیں کہ اللہ رب العزت کے حکم کے مطابق حالات کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں حصہ لیے بغیر یہ چاہتے ہیں کہ خالق کائنات حالات کو بدل دے ! دعائیں ضروری ہیں اور اللہ  انہیں سُنتا بھی ہے پر اس وقت جب ہم نے دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنی طرف سے سعی کی ہو ۔ ہم نے سعیٔ کی تو یہ کی کہ اپنے ووٹوں کو مختلف سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کردیا ۔ ووٹ ڈلوانے والے  ’دلالوں‘ کی فیکٹریاں  کھل گئی تھیں ، ’ سوشل ورکروں‘ ’ قوم کے خادموں‘ ’ دانشوروں‘ اور دین وایمان کی دولت سے اپنے  دلوں کو خالی رکھنے والے کچھ ’ علمائے دین‘ اور ان کے ساتھ ساتھ عام مسلمان بک رہے تھے ۔ جو قوم اور جس قوم کے دانشوران اور علمائے کرائم چند ٹکوں کے لئے اپنے ووٹوں کا سوداکر لیں اس قوم کی دعائیں کیسے بااثر ثابت ہوسکتی ہیں!  ہماری جماعتیں ، تنظیمیں اور ادارے بے عمل ہیں ، ان کے پاس نہ کوئی سماجی لائحہ عمل ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی لائحہ عمل ۔ آج سنگھیوں ، زعفرانیوں ، یرقانیوں  یا با الفاظ دیگر بھگوائیوں کے پاس اپنے خود کے ’ تھنک ٹینک‘ ہیں ،  اپنی خود کی ’ تجزیہ‘ کرنے والی اکائیاں ہیں ، ان کے اپنے ماہرین  ہیں جو حالات پر نظر رکھتے ہیں ، جو دورے کرکے عوام کی نبض ٹٹولتے ہیں، جو جائزے  لے کر تجزیہ کرتے  اور مثبت لائحہ عمل طے کرتے ہیں ،  اور کامیابی میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہمارے ’ شیوخ‘ خود کوہی ’ تھنک ٹینک‘ سمجھے ہوئے ہیں ، ان کی اپنی ’دانش‘ کے آگے دوسروں کی ’دانش‘ صفر ہے ۔ انہیں کہیں کا دورہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی انہیں تو الہام ہوتا ہے ، وہ صاحب کشف ہیں اور مستقبل کے پردے ان کی نظروں کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں ، اور وہ آنے والے دنوں کی تصویر دیکھ کر اپنے ’ محکوموں‘ کو ، جی ہاں ’ عوام‘ ان کے ’ محکوم‘ ہی تو ہیں ، تو یہ اپنے محکوموں ، کوڈانٹ ڈپٹ کر فلاں فلاں کو ووٹ دینے اور فلاں فلاں کو ووٹ نہ دینے کا حکم سناتے ہیں ! 

جماعتوں کی مثال لے ہیں ، مظفر نگر فسادات ک بعد جب الیکشن کی گہماگہمی بڑھی، بات 2014 کے لوک سبھا چناؤ  کی ہورہی ہے ،تو مولانا ارشد مدنی اکھلیش سنگھ یادو کے خیمے میں کھڑے نظر آئے اور مولانا محمود مدنی ان  سے الگ ۔۔۔ اور رہی جماعت اسلامی تو اس نے اپنی ہی ایک سیاسی جماعت بنالی! اس سے قبل کے اسمبلی الیکشنوں میں ایک عجیب تماشہ  ہوا ، جماعت نے  چند حلقوں  میں اپنی سیاسی پارٹی  کے کچھ امیدواروں کی حمایت کا اور کچھ حلقوں میں اپنی پارٹی کے مخالفین کی حمایت کا اعلان کیا ۔ ایک دلچسپ بات مزید ، وہ ’شیوخ‘ جو خود کو ’ صوفیا کرام‘ میں گردانتے ہیں وہ مودی کے اردگرد چکر لگاتے  نظر  آئے ۔ مزید ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ ووٹوں کے استعمال میں بھی ’ مسلکی تنفر‘ کا عمل دخل رہا! اور رہے ہمارے دانشورانِ عظام تو ان کے پیرزمین پر نہیں پڑتے ۔ یہ اے سی کے آرام دہ کمروں سے باہر نکل کر ، لوگوں تک پہنچ پہنچ کر کام کرنے کو عیب سمجھتے ہیں ۔ اور ایک مخلوق مزید ہے ، مسلم سیاست داں ۔ اوّل تو یہ کہ انہیں جیت کے بعد مسلمانوں کی ضرورت نہیں  محسوس ہوتی اور دوم یہ کہ جیت کر یہ یا تو بے حد سیکولر بن جاتے ہیں ، اگر کانگریس یا این سی پی کے رہے ، یا پھر انتہائی ’ قوم پرست‘ اگر ان کا تعلق بی جے پی  سے رہا  جیسے کہ نقوی اور شاہنواز حسین ۔۔۔ یہ مسلمانوں کو پوچھتے تک نہیں ہیں لیکن مسلمان ہیں کہ انہیں اور ان کے زمینی خداؤں اور ان کی سیاسی پارٹیوں کو سروںپر اٹھائے گھومتے ہیں ۔ ان کی لچھے دار باتوں میں پھنس کر یہ کوئی متبادل  تلاش  کرنے کی کوشش تک نہیں کرتے ۔۔۔ کیا یہ سچ نہیں ہیکہ ہم نے کانگریس اور اس کی حلیف سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں  کو اپنے کندھوں پر اس قدر ڈھویا ہے کہ ان کے تو قد بلند ہوگئے ، بنگلے آگئے ،آسائشیں آگئیں لیکن ان کوڈھوتے ڈھوتے ہمارے قد گھٹ گئے ؟؟؟
ایک آواز آرہی ہے کہ مسلمان نہ ڈریں ! چلئے ہم تو ممبئی میں رہتے ہیں ، کچھ دہلی ، مدراس رہتے ہیں اور یہ جو نہ ڈرنے کی آوازیں لگارہے ہیں یہ بھی اپنے قلعوں میں محفوظ ہیں ، پر وہ کیسے نہ ڈریں جو بھاجپائیوں اور سنگھیوں سے گھرے ہوئے ہیں ؟ کیا لوگوں کی نظروں سے قانون کی طالبہ عائشہ اور اس کے اہل خانہ کی تصویریں نہیں گذر ی ہیں ! ان کی آنکھوں سے گاڑھا گاڑھا خوف ابل رہا ہے ۔ یہ یوپی کے نیابانس گاؤں کی رہنے والی ہیں ، وہ گاؤں جس کے مسلم  مکینوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر بی جے پی جیت گئی تو وہ گاؤں چھوڑ دیں گے ۔ کیا ان تک ہماری جماعتیں اور تنظیمیں پہنچیں اور انہیں حوصلہ دیا کہ مت ڈریں ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ؟ نتائج کے اعلان کے بعد گجرات میں ایک دلت جوڑے کو اعلیٰ دات کے دوسوسے زائد نوجوانوں نے پیٹ دیا ، ایم پی کے شیوانی میں تین مسلمانوں  کی ، جن  میں ایک خاتون بھی شامل ہے لنچنگ کی کوشش ہوئی ، تمل ناڈو میں ایک مسلمان آٹورکشہ ڈرائیور ، نتائج کے اعلان سے ایک دن قبل ، پیٹ پیٹ کر ماردیا گیا ۔ بلند شہر میں ایک مسلم خاندان کے تین بچوں کو گولیاں ماردی گئیں ، مغربی بنگال کے مختلف حصوں میں مسلم بستیوں پر حملے شروع ہوگئے ۔۔۔ غرضیکہ ایک بڑی تعداد میں مسلمان ہیں جو ’بھاجپائیوں اور سنگھیوں ‘ کے نرغے میں ہیں ، وہ توڈریں گے ہی ، ان کا ڈر ختم کرنے اور عزم اور حوصلہ بڑھانے کے لئے کیا کوئی عملی قدم اٹھایا گیا ہے ؟ نہیں ۔۔۔
پھر بھی ، ان سب ’ منفی اقدامات ‘  کے باوجود بی جے پی کی جیت کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر نہیں پھوڑا جاسکتا ۔ مسلمانوں نے ، جتنے بھی مسلمانوں نے ، ووٹوں کا استعمال کیا ، وہ اس ملک کے حالات کو سدھارنے کے لئے ، فرقہ پرستوں کو ہرانے کے لئے اور ایسے لوگوں کو جتانے کے لئے کیا جو کسی نہ کسی حد تک بی جے پی سے بہتر ہیں ۔ یوپی میں سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کی جیت مسلم  ووٹوں سے ہی ہوئی ہے ۔ پر سوال اٹھے گا کہ اکھلیش سنگھ یادو اور مایاوتی اپنے یادو اور بچھڑے ودلت ووٹ بینک کو منتشر ہونےسے کیوں نہ بچاسکے ؟ بی جے پی کا ’ سوشل انجینئرنگ‘ کا عمل ان کے مقابلے کیوں کامیاب رہا ؟ ایک سوال یہ بھی اٹھے گا کہ یوپی میں ایک سیٹ پر کامیاب ہونے والی کانگریس کو۔  جی ہاں ایک سیٹ ، رائے بریلی سے سونیا گاندھی ، راہل گاندھی تو امیٹھی کی اپنی سیٹ تک نہیں بچاسکے ۔۔۔ کیوں ’ گٹھ جوڑ‘ سے اتنی بیزاری تھی؟۔  یوپی میں ایک رپورٹ  کے مطابق کانگریس نے ۹ سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن کو ’ ناکام‘ کیا ہے ۔ یہ نوکی ۹ سیٹیں بی جے پی کی جھولی میں گئی ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اگر مایاوتی ، اکھلیش اور راہل مل کر لڑتے تو بی جے پی کی سیٹیں یوپی میں کم سے کم ہوتیں ۔ پر یہ ’ آہنکار‘تھا، گھمنڈ اورغرور جس نے راہل کو ڈبویا‘ کانگریس کو غرق کیا اور یہ غرور ہی ہے جو مایاوتی کے آڑے آیا ۔ رہے اکھلیش تو وہ مطمئن تھے کہ مایاوتی ساتھ ہیں تو وہ  جیتیں گے ہی پر ہوا یہ کہ ان کی بیگم ڈمپل یادو بھی  ہارئیں اور  ان کے عزیز دھرمیندر یادو بھی۔ حیرت انگیز امر ہیکہ راہل ، مایاوتی اور اکھلیش کے ’ ذاتی مفادات‘ اس خواہش پر کہ ’ مودی کو ہٹانا ہے ‘ غالب رہے ۔ مہاراشٹر میں بھی کانگریس کا گھمنڈ اس کے آڑے آیا ، اسے کسی بھی حال میں ایم آئی ایم اور بہوجن ونچت اگھاڑی سے گٹھ جوڑ کرنا تھا پر سیٹوں کے بٹوارے کی بات جب چلی تو اسے بی جے پی کی ’ بی ٹیم‘  کہہ کر ذلیل کیا گیا نتیجے میں کانگریس کو سات سیٹوں کا نقصان ہوا ۔ ایم آئی ایم فائدے میں رہی  کہ اس کا ایک اور ایم پی امتیاز جلیل ، اسدالدین اویسی کے علاوہ ، دلتوں کی مدد سے پارلیمنٹ میں پہنچا ۔ مغربی بنگال میں بھی کانگریس کا گھمنڈ اسے لے ڈوبا ، وہاں بھی اس کی وجہ سے 6سیٹیں بی جے پی کی جھولی میں چلی گئیں ، گویا  یہ کہ  بی جے پی کو ان تین ریاستوں میں کم از کم 23سیٹیں کانگریس نے دلوائیں ۔ ۔۔ دہلی میں ’ آپ‘ سے آخری موقع پر سمجھوتہ نہ کرکے کانگریس نے دہلی کی سات کی سات سیٹیں بی جے پی کو طشت میں سجاکر دے دیں ۔ گویا یہ کہ کانگریس نے اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی ماری اور بی جے پی کو پھر سے کامیاب ہونے کا آسان موقع فراہم کردیا ۔۔۔ اور رہی سہی کسر ’ اوی وی ایم‘  نے پوری کردی ۔
یہ کہنا بہت درست نہیں ہوگا کہ مودی کے ’جھوٹے وعدوں ‘اور ’ کذب‘ کے باوجود ان پر لوگوں نے اعتبار کیا ، پر یہ ضرور ہے کہ اپوزیشن کچھ اس قدر بے حِس، بے عمل اور مشترکہ لائحہ عمل سے خالی تھی کہ مودی لوگوں کی پسند بنے ۔ بے روزگاری کے عفریت ، فوج کے سیاسی استعمال ، کرپشن کے الزام ، ہندوفرقہ پرستی کی شدت ، ملک کے دگرگوں معاشی حالا ت، مہنگائی ، جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے عذاب کے باوجود مودی کو لوگوں نے چنا۔ اویسی کی یہ بات بھی سچ ہے کہ ہندؤں کے ذہنوں سے چھڑچھاڑ ہوئی ہے ۔  ہندو مذہب پر ’ ہندوتوا‘  غالب رہا ۔  دہشت گردی کی ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی جیت اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ یہ جیت ہیمنت کرکرے اور گاندھی جی  کے نظرےے کی ہار ہے۔ یہ گوڈسے کے نظریات کی کامیابی ہے ۔ پر یاد رہے کہ اگر مودی نے حالات نہ بدلے  اور حالات ایسے ہی رہے تو وہی عوام  جس نے جتایا ہے ہرا بھی سکتی ہے ۔ آنے والے دن تاریک نظر آرہے ہیں  پر  اس پر آئندہ کبھی بات ہوگی۔  مسلمانوں کو سیاسی لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ یوپی میں مایاوتی اور اکھلیش کے ساتھ  مسلمان  جس طرح کھڑے ہوئے اور جس طرح مہاراشٹر میں دلتوں نے ایم آئی ایم  کا ساتھ دیا  اور مغربی بنگال میں ممتابنرجی  نے جس طرح ایک بے حد مشکل جنگ میں بھی حوصلے نہیں کھوئے اور جس طرح کیرالہ اور تمل ناڈو نے فرقہ پرستوں کو کنارہ کش کیا ، وہ حوصلے بڑھانے کے لئے کافی ہے ۔۔۔۔ مسلمان اپنے گریبانوں میں جھانکیں ،  اپنی خامیوں کو دور کریں ،  جماعتیں تنظیمیں زمینی سطح سے کام کریں ، سب کو ساتھ لیں ، فرقہ پرستی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کریں، ہندؤں سے محبت اور اخوت برتیں اور مسلم لیڈران واقعی لیڈری کا حق ادا کریںتو حالات بدل سکتے ہیں ۔ اور حالات ان شاء اللہ بدلیں گے !!