Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 4, 2019

برکتوں، رحمتوں اور بخششوں کا مہینہ رمضان المبارک۔

محمد عباس دھالیوال / صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی
مالیر کوٹلہ، پنجاب۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
سال کے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک وہ واحد مہینہ ہے جس کو دوسرے مہینوں کا سردار کہا جاتا ہے  یہ مہینہ اپنے اندر معلوم نہیں کتنی ہی لامحدود رحمتیں و برکات سمیٹے ہوئے ہے ۔ اس مہینے کی عظمت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کا نزول اسی مقدس مہینہ میں ہوا. یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی ہے۔
بس یہ سمجھ لیں کہ مسلمانوں کے لئے یہ ماہ مقدس نیکیوں کی موسلادھار بارش بن کر آتا ہے ۔ 


لفظ رمضان  ”رمضا“ سے نکلا ہے اور رمضا اس بارش کو کہتے ہیں جو کہ موسم خریف سے پہلے برس کر زمین کو تمام طرح کے گردوغبار سے پاک و صاف کر دیتی ہے۔ یقیناً مسلمانوں کے لئے رمضان المبارک کا مہینہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کی بارش کے مانند ہے . یقیناً وہ مسلمان بہت خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی زندگی میں یہ مہینہ بار بار آتا ہے اور وہ مسلمان تو اور بھی خوش نصیب ہوتے ہیں جو اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے ہیں۔
اس مہینے کو تین عشروں میں تقسیم کیا جاتا ہے
رمضان المبارک کے اول حصہ میں حق تعالی کی رحمت برستی ہے جبکہ درمیانی حصہ گناہوں کی مغفرت کا سبب بنتا ہے اور آخری حصہ میں دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہونے کا پروانہ ملتا ہے۔ رمضان کی ہر ہر گھڑی رحمت و برکتوں اور مغفرتوں سے بھرپور ہے. روزہ اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک روزہ دار کیلئے دریا کی مچھلیاں افطار تک دعائے کرتی رہتی ہیں۔
جو شخص روز دار ہو تو اسے چاہئے کہ اپنا روزہ کجھور سے افطار کرے اگر کجھور نہ مل پائے تو پھر پانی سے افطار کرلے کیونکہ پانی سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے ۔ جس کسی نے بھی نے روزہ دار کو روزہ افطار کرایا اسے اتنا ہی اجر ملے گا جتنا کہ روزہ دار کو ملے گا ۔ جبکہ روزہ دار کے اجر میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی. جبکہ اسلام کے اس اہم رکن یعنی روزہ کے بارے میں فرمان الٰہی پڑھتے ہیں تو روزہ کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ  ”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دیئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاﺅ“۔
اسی طرح عربی زبان میں روزے کے لئے صوم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی رک جانا کے ہیں یعنی اس روزے کے عمل کے دوران ایک مسلمان اپنی انسانی خواہشات جیسے کہ کھانے پینے سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روکے رکھتا ہے اور ساتھ ہی اپنے جسم کے تمام اعضاءکو برائیوں سے روکے رکھتا ہے۔ رمضان المبارک کی غرض و غایت اور مقصد اللہ کے بندوں کو تقویٰ سے سرفراز کرنا ہے یعنی ہم اکثر اپنے مشاہدے میں دیکھتے ہیں کہ عام دنوں کی نثبت ایک مسلمان روزہ کی وجہ سے برائیوں کو ترک کر دیتا ہے اور نیکیوں کی طرف راغب ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ایمان کی تقویت ملتی ہے.

محمد عباس دھالیوال
 
اصل میں
تقویٰ کہتے ہی اس چیز کو کہ بندہ تمام برائیوں سے  نفرت کرنے لگے اور نیکیوں کی طرف اس کا دل راغب ہونے لگے کہتے ہیں کہ ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالے عنہ سے کسی شخص نے پوچھا کہ اے امیر المومنین تقویٰ کیا ہے؟ آپ رضی اللہ تعالے عنہ نے فرمایا کہ  کیا تیرا گزر کبھی خاردار جھاڑیوں سے ہوا ہے؟ یعنی تو وہاں سے کیسے گزرتا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں میں اپنے دامن کو سمیٹ کر، کانٹوں سے بچ کر گزرتا ہوں کہ کہیں خاردار کانٹوں کی وجہ سے میرا جسم زخمی نہ ہو جائے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالے عنہ نے فرمایا یہی تقویٰ ہے کہ مسلمان اس دنیا میں گناہوں سے اپنے دامن کو بچا کر گزر جائے اور آخرت کا رختِ سفر باندھ لے۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے کے لئے رمضان المبارک کا مقدس مہینہ مسلمانوں کو تحفہ کے طور پر عطا کیا ہے جس میں ایک خالص مسلمان اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اپنے رب سے طلب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس و مطہر اپنے بندوں کے سابقہ گناہ اپنی رحمت سے معاف کر دیتی ہے۔
رمضان  کے تعلق سے قرآنی آیت میں سب سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ روزہ ہر مسلمان عاقل، بالغ اور آزاد پر فرض ہے اس میں مسلمان مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ رمضان کا مہینہ 29 یا 30 دن کا ہوتاہے مریض اور مسافر  کے سلسلے میں دین اسلام نے رعایت دی ہے کہ وہ بعد میں روزے جو قضا ہوئے رکھ لیں اور گنتی پوری کر لیں.
رمضان المبارک کے مہینے میں لیلة القدر اتاری گئی ہے ، جس کے ضمن اللہ تعالیٰ نے فرماتے ہیں کہ ﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ ﴾ (سورة القدر) یعنی ’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ ہزار مہینے کے ۸۳ سال ۴ مہینے بنتے ہیں ۔ آجکل دیکھا جائے تو عموماً انسانوں کی عمریں  اس سے کم ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اس آخری امت پر یہ کتنا بڑا احسان و مہربانی ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اسے لیلة القدر سے نواز دیتا ہے، جس میں وہ اپنے بارگاہِ الہی کی عبادت کر کے ۸۳ سال کی عبادت سے بھی زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہو جاتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’انہو ں نے بعض معتمد علماء سے یہ بات سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے پہلے لوگوں کی عمریں دکھلائی گئیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آپ کی ا مت کی عمریں ان سے کم ہیں اور اس وجہ سے وہ ان لوگوں سے عمل میں پیچھے رہ جائے گی، جن کو لمبی عمریں دی گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ازالہ اس طرح فرما دیا کہ امت محمدیہ کے لیے لیلة القدر عطا فرما دی۔‘‘
ایک روایت میں آیا ہے کہ "جب رمضان جب رمضان آتا ہے تو آسمان (اور ایک روایت میں ہے جنت) دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور (بڑے بڑے) شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘ ایک اور جگہ کہا گیا ہے کہ "روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔"
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔‘‘  ایک اور جگہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’جنت (کے آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ’’ رَیّان‘‘ ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا، کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے، تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسری خوشی) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا۔‘‘
روزہ کی حالت میں ایک روزے دار کے منہ میں خالی معدے کی وجہ جو بدبو پیدا ہو جاتی ہے اس کے تعلق سے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بدلی ہوئی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘
ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔‘‘
آخر میں اللہ رب العزت سے یہ دعا ہے کہ ہم سبھی مسلمانوں کو اللہ اس مبارک مہینے کی ویسی قدر و منزلت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جیسا کے اس کی قدر کرنے کا حق ہے. اللہ سبھی مسلمانوں کو اس ماہ مبارک میں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ  ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین ثم آمین ...
عباس دھالیوال۔۔۔
Mob..9855259650.
Mail...abbasdhaliwal72@gmail.com